- Advertisement -

بھائی بچھڑے تو بس ہچکیاں رہ گئیں

راکب مختار کی ایک اردو غزل

بھائی بچھڑے تو بس ہچکیاں رہ گئیں
بین کرنے کو ماں جائیاں رہ گئیں

فاتحِ شہر خوش ہے کہ سب مر گئے
قصر میں صرف شہزادیاں رہ گئیں

منقسم یوں ہوا ترکہء ِ زندگی
میرے حصے میں بربادیاں رہ گئیں

ہو گیا خطہءِ دل میں سب کچھ فنا
چند مخصوص آبادیاں رہ گئیں

چھو نہ پائے کلائی کا کنگن بھی ہم
گال سے کھیلتی بالیاں رہ گئیں

کتنے زرقون خواہش میں تڑپے مگر
خالی خالی تری انگلیاں رہ گئیں

نیند میں اس نے پکڑا گریبان سے
آنکھ میں خواب کی دھجیاں رہ گئیں

قاتلوں میں کئی لوگ اپنے بھی تھے
میرے سینے میں کچھ برچھیاں رہ گئیں

 

راکب مختار

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
راکب مختار کی ایک اردو غزل