بدزباں ہو جیسے خوش اسلوب ہو
کیا کہیں جو کچھ کہ ہو تم خوب ہو
بے نقابی اس کی ہے ہم پر ستم
لایئے منھ پر تو وہ محجوب ہو
ایسا شہر حسن ہی ہے تازہ رسم
دوستی باہم جہاں معیوب ہو
مطلب عمدہ ہے دل لے تو رکھو
گاہ باشد تم کو بھی مطلوب ہو
چاہیے ہے اور کچھ عاشق کو کیا
جان کا خواہاں اگر محبوب ہو
لوہو پینا جان کھانا دیکھیے
کیا مزاج عشق میں مرغوب ہو
جو کہو ہو سو مخالف عقل کے
میر صاحب تم مگر مجذوب ہو
میر تقی میر