پریشانی کا سبب
نعیم میرے کمرے میں داخل ہوا اور خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور اخبار کی آخری کاپی کے لیے جو مضمون لکھ رہا تھا اسکو جاری رکھنے ہی والا تھا کہ معًا مجھے نعیم کے چہرے پر ایک غیر معمولی تبدیلی کا احساس ہوا۔ میں نے چشمہ اتار کر اس کی طرف پھر دیکھا اور کہا۔
’’کیا بات ہے نعیم۔ معلوم ہوتا ہے تمہاری طبیعت ناساز ہے۔ ‘‘
نعیم نے اپنے خُشک لبوں پر زبان پھیری اور جواب دیا۔
’’کیا بتاؤں، عجیب مشکل میں جان پھنس گئی ہے۔ بیٹھے بٹھائے ایک ایسی بات ہوئی ہے کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ ‘‘
میں نے کاغذ کی جتنی پرچیاں لکھی تھیں جمع کرکے ایک طرف رکھ دیں اور زیادہ دلچسپی لے کر اس سے پوچھا۔
’’کوئی حادثہ پیش آگیا۔ فلم کمپنی میں کسی ایکٹرس سے۔ ‘‘
نعیم نے فوراً ہی کہا۔
’’نہیں بھائی، ایکٹرس و یکٹرس سے کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک اور ہی مصیبت میں جان پھنس گئی ہے۔ تمہیں فرصت ہو تو میں ساری داستان سناؤں۔ ‘‘
نعیم میرا دوست ہے۔ جب سے وہ بمبئی سے آیا ہے اس سے میری دوستی چلی آرہی ہے۔ وہ یوں کہ بمبئی آتے ہی اس نے میرے اخبار میں کام کیا اور خود کو بہت سی اہلیتوں کا مالک ثابت کیا۔ پھر آہستہ آہستہ جب مجھے اس کے اعلیٰ خاندان کا پتا چلا اور اسی قسم کی دوسری واقفیتیں نکلتی آئیں تو میر دل میں اسکی عزت اور بھی زیادہ ہو گئی، چنانچہ چھ مہینے کے مختصر عرصے ہی میں وہ میرا بے تکلف دوست بن گیا۔ نعیم نے میرے اخبار کو دلچسپ بنانے کے لیے مجھ سے زیادہ کوششیں کیں۔ ہر ہفتے جب اس نے ایک نئی کہانی لکھنا شروع کی اور میں نے اس کی تیار چار کہانیاں پڑھیں تو مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ اخبارمیں اگر نعیم پڑا رہاتو اس کی تمام ذکاوتیں تباہ ہو جائیں گی، چنانچہ میں نے موقعہ ملتے ہی ایک فلم کمپنی میں اسکی سفارش کی اور وہ مکالمہ نگار کی حیثیت سے فوراً ہی وہاں ملازم ہو گیا۔ فلم کمپنی کی ملازمت کے دوران میں نعیم نے وہاں کے سیٹھوں اور ڈائریکٹروں پر کیسا اثر ڈالا، اس کے متعلق مجھے کچھ علم نہیں۔ میں بے حد مصروف آدمی ہوں۔ لیکن نعیم سے ایک دو بار مجھے اتنا ضرور معلوم ہوا تھا کہ وہاں اس کا کام پسند کیا گیا ہے۔ اب ایکا ایکی نہ جانے کیا حادثہ پیش آیا تھا جو اس کا رنگ یوں ہلدی کی طرح زرد پڑ گیا تھا۔ نعیم بے حد شریف آدمی ہے۔ اس سے کسی نامعقول حرکت کی توقع ہی نہیں ہوسکتی تھی، میں سخت متحیر ہوا کہ ایسی کون سی افتاد پڑی جو نعیم کسی کو اپنا منہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔ میں نے اُس سے اجازت لیکر جلدی جلدی آخری کاپی کے لیے مضمون کا بقایا حصہ مکمل کیا اور تمام پرچیاں کاتب کو دیکر اس کے پاس بیٹھ گیا۔
’’بھئی معاف کرنا میں فوراً ہی تمہاری داستان نہ سُن سکا۔ لیکن میں پوچھتا ہوں یہ داستان آخر بنی کیسے۔ تم۔ تم۔ خیرچھوڑو اس قصّے کو، تم مجھے سارا واقعہ سناؤ۔ ‘‘
نعیم نے جیب سے سگرٹ نکال کر سلگایا اور کہا۔
’’اب میں تمہیں کیا بتاؤں، جوکچھ ہُوا، میری اپنی بیوقوفی کی بدولت ہوا۔ ہماری فلم کمپنی میں ایک ایکٹر ہے۔ عاشق حسین اوّل درجے کا چُغد ہے۔ چونکہ دوسروں کی طرح میں اسے ستاتا نہیں ہُوں اس لیے وہ مجھ پر بُری طرح فریفتہ ہے، یہ فریفتہ میں نے اس لیے کہا ہے کہ وہ مجھ سے اسی طرح باتیں کرتا ہے جس طرح خوبصورت عورتوں سے کی جاتی ہیں۔ ‘‘
میں ہنس پڑا۔
’’پر تم اتنے خوبصورت تو نہیں ہو۔ ‘‘
نعیم کے پیلے چہرے پر بھی ہنسی کی لال لال دھاریاں پھیل گئی۔
’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا ہے۔ دراصل وہ اپنے اخلاص اور اپنی بے لوث محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہے اور چونکہ اسے ایسا کرنے کا طریقہ نہیں آتا اس لیے اسکا پیار وہی شکل اختیار کرلیتا ہے جو اس کو غالباً اپنی بیوی سے ہو گا۔ ہاں تو یہ عاشق حسین صاحب جو اوّل درجے کے رقاص ہیں اور رقص کے سوا اور کچھ بھی نہیں جانتے۔ پرسوں شوٹنگ کے بعد مجھے ملے۔ سیٹ پر میں نے اُن کے مکالمے درست کرنے میں کافی محنت کی تھی۔ اس کا حق ادا کرنے کے لیے انھوں نے فوراً ہی کچھ سوچا اور کہا۔
’’نعیم صاحب، میں آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہُوں۔ ‘‘
میں نے کہا۔
’’فرمائیے۔ ‘‘
انھوں نے پھر کچھ سوچا اور کہا۔
’’دن بھر کام کرنے کے بعد میں تھک گیا ہوں آپ بھی ضرور تھک گئے ہوں گے۔ چلیے، کہیں گھوم آئیں‘‘
۔ اب میں یہاں اپنی ایک کمزوری بتا دوں۔ موسم اگر خوشگوار ہو تو میں عموماً بہک جاتا ہوں۔ شام کا جھٹپٹا تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی اور فضا میں ایک عجیب قسم کی اداسی گھلی ہوئی تھی۔ جوان کنوارے آدمیوں کے دل میں ایسی اداسی ضرور موجود ہوتی ہے جو پھیل کر ایسے موقعوں پر بہت وسعت اختیار کرلیا کرتی ہے۔ میرے بدن پر ایک کپکپی سی طاری ہو گئی جب میں نے جوہو کے سمندری کنارے کا تصور کیا جہاں شام کو نم آلود ہوائیں یوں چلتی ہیں جیسے بھاری بھاری ریشمی ساڑھیاں پہن کر عورتیں چلتی ہیں۔ میں فوراً تیار ہو گیا۔
’’چلیے، مگر کہاں جائیے گا۔ ‘‘
اب عاشق حسین نے پھر سوچا اور کہا۔
’’کہیں بھی چلے چلیں گے۔ یہاں سے باہر تو نکلیں‘‘
۔ ہم دونوں گیٹ سے باہر نکلے اور موڑ پر بَس کا انتظار کرنے لگے۔ ‘‘
یہاں تک کہہ کر نعیم رک گیا۔ اس کے چہرے کی زردی اب دُور ہورہی تھی۔ میں نے اس کے پیکٹ سے ایک سگرٹ نکال کر سلگایا اور کہا۔
’’تم دونوں گیٹ سے باہر نکل کر بَس کا انتظار کرنے لگے۔ ‘‘
نعیم نے سرہلایا
’’اور شامتِ اعمال اُدھر سے عاشق حسین کے ایک مارواڑی دوست کا گُزر ہوا۔ وہ موٹر میں جارہا تھا کہ اچانک عاشق حسین کی نظر اس پر پڑی۔ فوراً ہی اس نے مارواڑی زبان میں اپنے دوست کو ٹھہرنے کے لیے کہا۔ موٹر رُکی عاشق حسین نے اس سے مارواڑی زبان میں چند باتیں کیں پھر دوڑ کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا
’’چلیے، کام بن گیا۔ موٹر مل گئی اسی میں چلتے ہیں۔ ‘‘
میں چل پڑا۔ موٹر میں داخل ہونے سے پہلے عاشق نے اپنے مارواڑی دوست سے جو شکل و صورت کے اعتبار سے ڈرائیور معلوم ہوتا تھا تعارف کرایا اور حسبِ معمول مبالغے سے کام لیتے ہوئے کہا۔
’’یہ مارواڑ کے بہت بڑے سیٹھ ہیں۔ یہاں ایک کاروبار کے سلسلے میں آئے ہیں۔ میرے بہت مہربان دوست ہیں۔ ‘‘
اور میرے متعلق اپنے دوست سے کہا۔
’’یہ ہندوستان کے بہت بڑے اسٹوری رائیٹر ہیں۔ ‘‘
ہندوستان کے بہت بڑے اسٹوری رائیٹر اور مارواڑ کے بہت بڑے سیٹھ نے ہاتھ ملائے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ رسمی طور پر خوش ہُوئے اور موٹر چلی۔ ‘‘
یہ سُن کر میں مسکرایا۔
’’نعیم، اس مارواڑی سیٹھ کے متعلق تمہاری رائے بہت خراب معلوم ہوتی ہے۔ کیا آگے چل کر یہ ولن کا پارٹ ادا تو نہیں کرے گا۔ ‘‘
’’تم پہلے پوری داستان سُن لو۔ پھر سوچنا کہ ولن کون ہے اور ہیرو کون۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کہانی کی ہیروئن زہرہ ہے۔ زہرہ جس کو میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ کل۔ داور کی ایک فوجداری عدالت میں دیکھا ہے۔ ایک مجرم کی حیثیت میں۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے نعیم کے کان کی لویں شرم کے باعث سرخ ہو گئیں۔ داستان سُننے کے دوران میں پہلی مرتبہ زہرہ کے اچانک ذکر سے مجھے سخت تعجب ہوا۔ میں نے کہا۔
’’نعیم۔ یہ تو بالکل الگزنڈرپو کا افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ زہرہ بالکل پو کے افسانوں کے غیر متوقع انجام کی طرح اس داستان میں آئی ہے۔ یہ عورت کون ہے۔ ؟‘‘
’’میں قطعاً نہیں جانتا، یعنی اگر مجھے اس عورت کے متعلق کچھ علم ہوتو مجھ پر لعنت۔ خدا معلوم کون ہے، پر اب میں اتنا جانتا ہوں کہ اس نے ہم لوگوں پر فوجداری مقدمہ دائر کررکھا ہے۔ جرم ڈاکہ اورچوری ہے۔ ‘‘
میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’ڈاکہ اور چوری۔ ‘‘
نعیم کے لہجہ نے ایسی متانت اختیار کر لی جس میں روحانی اذّیت کی جھلک صاف دکھائی دیتی تھی۔ کہنے لگا۔
’’ہاں، ڈاکہ اور چوری۔ مجھے دفعات اچھی طرح یاد نہیں مگر ان کا مطلب یہی ہے کہ ہم نے مداخلت بیجاکی، زہرہ کے گھر پر ڈاکہ ڈالا۔ اور اس کی چند قیمتی اشیا چرا کر لے گئے، لیکن یہ تو داستان کا انجام ہے۔ پہلے کے واقعات تمہیں سُنا لوں پھر اس طرف آتا ہُوں۔ میں کیا کہہ رہا تھا؟‘‘
میں نے جواب دیا۔
’’یہ کہ تم اس مارواڑی کی موٹر میں بیٹھ گئے۔ ‘‘
’’ہاں میں عاشق حسین کے کہنے پر اس منحوس مارواڑی کی موٹر میں بیٹھ گیا۔ موٹر وہ خود چلا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اگلی سیٹ پر ایک اورآدمی بیٹھا تھا جو اس سے کم منحوس نہیں تھا۔ عاشق حسین نے شاید اسکے متعلق کہا تھا کہ وہ موٹریں بنانے کا کام کرتا ہے۔ خیر موٹر مختلف بازاروں سے ہوتی ہوئی داور کی طرف جانکلی۔ ظاہر تھا کہ ہم جوہو جائیں گے، چنانچہ میں بہت خوش تھا۔ جوہو کی گیلی گیلی ریت سے مجھے بے حد پیار ہے کبھی کبھی اُدھر جا کر میں گیلی ریت پر ضرور لیٹا کرتا ہُوں اور دیر تک کھلے آسمان کی طرف دیکھا کرتا ہوں جو اتنا ہی پراسرار اور ناقابلِ رسا دکھائی دیتا ہے جتنا کہ ایک اجنبی عورت کا تصور۔ سامنے رات کی سرمئی روشنی میں سمندر کروٹیں لیتا ہے، اوپر گدلے آسمان پر تارے یوں چمکتے ہیں جیسے انہوئی باتیں کسی جوان آدمی کے دل میں ٹمٹما رہی ہیں۔ ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ دُور، اس پار جہاں آسمان اور سمندر کوئی واضح خط بنائے بغیر آپس میں گھل مل جاتے ہیں، ایک ایسی دُھندلی روشنی نظر آیا کرتی ہے جو خوبصورت شعروں کی طرح مصنوعی ہوتی ہے۔ میں جوہو کی سیر کے خیال میں مگن تھا کہ عاشق حسین نے موٹر کو داور ہی میں ایک جگہ ٹھہرا لیا اور مجھ سے کہا۔
’’چلیے، کچھ پی لیں‘‘
جیسا کہ تمہیں معلوم ہے، بیئر مجھے پیاری ہے۔ عاشق حسین کو خدا معلوم کہاں سے اس بات کا پتا چلا تھا کہ میں پیا کرتا ہُوں۔ خیر، ہم چاروں یار بار میں داخل ہُوئے۔ ایک بوتل بیئر کی میں نے پی اور ایک عاشق حسین نے۔ مارواڑی سیٹھ اور موٹریں بنانے والے نے کچھ نہ پیا۔ ہم جلدی ہی فارغ ہو گئے۔ پھر موٹر میں بیٹھے اور جوہو کا رخ کیا مگر فوراً ہی عاشق حسین کو ایک کام یاد آگیا۔
’’اوہ مجھے تو اپنی شاگرد زہرہ کے ہاں جانا ہے۔ آج اُس سے ملنے کا میں نے وعدہ کیا تھا۔ نعیم صاحب اگر آپکو اعتراض نہ ہو تو پانچ منٹ لگیں گے۔ اس کا مکان بالکل قریب ہے۔ ‘‘
مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا، چنانچہ اس نے موٹر ایک گلی میں ٹھہرا لی اور اکیلا سامنے والے مکان کی طرف بڑھا۔ ‘‘
میں نے پوچھا۔
’’یہ گلی کس طرف ہے۔ ‘‘
نعیم نے جواب دیا۔
’’داور ہی میں ہے۔ اُدھر جہاں پارسیوں کے بے شمار مکان ہیں، غالباً اس محلے کو پارسی کالونی کہتے ہیں۔ ۔ ہاں تو عاشق حسین موٹر سے نکل کر سامنے مکان کی طرف بڑھا۔ ایک چھوٹا سا دومنزلہ مکان تھا۔ بغیچہ طے کرکے عاشق نے دروازہ پر دستک دی۔ جب کسی نے دروازہ نہ کھولا تو عاشق نے دوسری بار زور سے دستک دی۔ اندر سے کسی عورت کی آواز آئی کون ہے۔ ‘‘
عاشق حسین نے بلند آواز میں جواب دیا۔
’’عاشق۔ ‘‘
اندر سے خشم آلود آواز آئی۔
’’عاشق کی۔ ‘‘
عاشق حسین نے یہ گالی سُن کر ہماری طرف دیکھا اور زور سے دروازہ کھٹکھٹانا اور یہ کہنا شروع کیا۔
’’دروازہ کھولو۔ دروازہ کھولو۔ ‘‘
یہ سن کر میں نے کہا۔
’’اس عورت نے شاید عاشق کا غلط مطلب سمجھا، ورنہ جیسا کہ تم ابھی کہہ چکے ہو وہ عاشق کی شاگرد تھی۔ ‘‘
’’جانے بلا، کیا تھی اور کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عاشق حسین نے جھوٹ ہی بولا ہو اور بیئر کی ایک بوتل پینے کے بعد زہرہ کا خیال اسکے دماغ میں آگیا ہو۔ کسی نے اس سے کبھی کہا ہو گا کہ فلاں نمبر کے فلیٹ میں ایک عورت زہرہ رہتی ہے۔ لیکن اس سے کیا بحث ہے۔ عاشق حسین نے اودھم مچانا شروع کردی۔ اندر سے گالیاں آتی رہیں اور پیشتر اس کے کہ میں اسے منع کرسکتا، تین چار دھکے مار اس نے دروازہ توڑا اور زبردستی اندر داخل ہو گیا۔ جب یہ شور ہوا تو آس پاس کے رہنے والے پارسی اکٹھے ہو گئے۔ میں بے حد پریشان ہوا، چنانچہ اسی پریشانی میں موٹر سے باہر نکلا اور عاشق کو باہر لانے کی خاطر اس مکان میں داخل ہو گیا۔ میرے پیچھے پیچھے عاشق کے دونوں ساتھی بھی چلے آئے۔ میں نے اس فلیٹ کے تینوں کمرے دیکھے مگر نہ عاشق نظر آیا نہ اسکی شاگرد زہرہ۔ خدا معلوم کہاں غائب ہو گئے تھے۔ گھر کے پرلی طرف دوسرا راستہ تھا، ممکن ہے وہ اُدھر سے باہر نکل گئے ہوں۔ میں چند منٹ ان تین کمروں میں رہا۔ جب کوئی سراغ نہ ملا تو باہر نکل کر موٹر میں بیٹھ گیا۔ وہ پارسی جو گلی میں جمع ہو گئے تھے گُھور گُھور کر میری طرف دیکھنے لگے۔ میں اور زیادہ پریشان ہو گیا۔ بیئر کا سارا نشہ جو دماغ میں تھا اُتر کر میری ٹانگوں میں چلا آیا۔ میرے جی میں آئی کہ عاشق اس کے ساتھیوں اور ان کی موٹر کو وہیں چھوڑ کر بھاگ جاؤں مگر۔ عجب مشکل میں میری جان پھنس گئی تھی۔ اگر بھاگنے کی کوشش کرتا تو یقیناً وہ پارسی جو مجھے چڑیا گھر کا بندر سمجھ کر گُھور رہے تھے پکڑ لیتے۔ دس بارہ منٹ اسی شش و پنج میں گزرے۔ اس کے بعد عاشق اور اسکے دونوں دوست مکان میں سے باہر نکلے اور موٹر میں بیٹھ گئے۔ میں نے عاشق سے کوئی بات نہ پوچھی۔ موٹرچلی اور جب دادر کا حلقہ آیا تو میں نے اس سے کہا۔
’’مجھے یہیں اتار دو، میں بس میں گھر چلا جاؤں گا۔ ‘‘
عاشق کے دماغ سے جوہو کی سیر کا خیال نکل گیا تھا، اس نے اپنے مارواڑی دوست سے موٹر روکنے کے لیے کہا، چنانچہ میں ان سے رخصت لے کر گھر چلا آیا اور اس واقعہ کو بھول گیا۔ ‘‘
نعیم نے ایک سگرٹ اور سلگایا اور کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ میں نے پوچھا۔
’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘
’’مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ ‘‘
نعیم نے بڑی تلخی کے ساتھ کہا۔
’’اس بیوقوف کے بچے عاشق حسین سے جب پولیس والوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون تھا تو اس نے اپنے مارواڑی دوست، اس موٹر بنانے والے کا اور میرا نام لے دیا۔ ہم تینوں ایک گھنٹے کے اندر اندر گرفتار کرلیے گئے۔ ‘‘
میں نے پوچھا۔
’’یہ کب کی بات ہے؟۔ تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی۔ ‘‘
نعیم نے جوا ب دیا۔
’’کل دو ڈھائی بجے کے قریب ہماری گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ میں نے تمہیں ٹیلی فون پر ضرور مطلع کیا ہوتا اگر میرے حواس بجا ہوتے۔ بخدا میں سخت پریشان تھا۔ پولیس انسپکٹر ٹیکسی میں ہم سب کو تھانے میں لے گیا۔ وہاں بیانات قلم بند ہُوئے تو مجھے پتلا چلا کہ عاشق حسین کے وہ مارواڑی دوست جو کسی کاروبار کے سلسلے میں یہاں آئے تھے زہرہ کا پنکھا اٹھا کر اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ بجلی کا یہ پنکھا پولیس نے ان سے حاصل کرلیا تھا۔ ‘‘
یہ سن کر میں نے تشویشناک لہجہ میں کہا۔
’’اس سے تو چوری صاف ثابت ہوتی ہے۔ ‘‘
’’چوری ثابت ہوتی ہے جبھی تو میں اس قدر پریشان ہوں اور سچ پوچھو تو اگر یہ ثابت نہ بھی ہوتی تو میری پریشانی اسی قدر رہتی۔ تھانے اور عدالت میں جانا بے حد شرمناک ہے، پر اب کیا کیا جائے۔ جو ہونا ہے ہو چکا ہے۔ اس خفت سے چھٹکارا نہیں مل سکتا جو مجھے اٹھانا پڑے گی اور اٹھانا پڑ رہی ہے۔ میں بالکل بے گناہ ہوں یعنی ظاہر ہے کہ زہرہ کو میں بالکل نہیں جانتا، اس کے مکان پر میں اگر گیا تو محض عاشق حسین کی وجہ سے، اس چُغد کے کہنے پر جو ایک بوتل بیئر بھی ہضم نہیں کرسکتا۔ ‘‘
نعیم کے چہرے پر نفرت اور غصے کے مِلے جُلے جذبات دیکھ کر مجھے بے اختیارہنسی آگئی۔
’’بھئی، بہت بُرے پھنسے۔ ‘‘
نعیم نے اسی انداز میں کہا۔
’’ہنسی میں پھنسی اسی کو کہتے ہیں۔ کل۔ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے عدالت کا منہ دیکھا اور زہرہ بھی پہلی مرتبہ مجھے نظر آئی۔ ‘‘
میں نے فوراً ہی پوچھا۔
’’کیسی ہے؟‘‘
نعیم نے بے پروائی سے جواب دیا۔
’’بُری نہیں، یعنی شکل صورت کے اعتبار سے خاصی ہے۔ بیضوی چہرہ ہے جس پر کیلوں اور مہاسوں کے داغ نظر آتے ہیں۔ لمبے لمبے کالے بال ہیں۔ پیشانی تنگ ہے۔ جوان ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حال ہی میں اس نے یہ دھندا شروع کیا ہے۔ ‘‘
میں نے بغیر کسی مطلب کے یوں ہی پوچھا۔
’’کیسا دھندا؟‘‘
نعیم شرما سا گیا۔
’’ارے بھئی، وہی جو عورتیں کرتی ہیں۔ زہرہ کے چہرے پر اس کی چھاپ دُور سے نظر آسکتی ہے۔ مجھے اس عورت پر اتنا غصہ کبھی نہ آتا مگر جب مجسٹریٹ نے میری طرف اشارہ کرکے پوچھا۔
’’تم اسکو پہچانتی ہو۔ ‘‘
تو زہرہ نے میری طرف اپنی بڑی بڑی دُھلی ہُوئی آنکھوں سے دیکھ کر کہا۔
’’ہاں صاحب پہچانتی ہوں۔ اسی نے میرا چاندی کا ٹی سیٹ اٹھایا تھا۔ ‘‘
جب اس نے یہ جھوٹ بولا تو خدا کی قسم جی میں آئی ملعونہ کے حلق میں کٹہرے کا ایک ڈنڈا نکال کر ٹھونس دوں۔ اتنا بڑا جھوٹ!!‘‘
اس پر میں نے کہا۔
’’بھئی جھوٹ تو بولے گی۔ اس کے بغیر کام کیسے چلے گا اسے اپنا کیس مضبوط بھی تو بنانا ہے۔ اب تو تمہیں قہردرویش برجاں درویش سب کچھ سننا پڑے گا۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ‘‘
نعیم نے بڑی پریشانی کے ساتھ کہا۔
’’جوکچھ ہو گا اسے ہر حالت میں سہنا ہی پڑے گا مگر۔ مگر۔ میں کیا بتاؤں میں کس قدر پریشان ہو گیا ہوں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اگر کسی مرد نے مجھ پر ایسا مقدمہ دائر کیا ہوتا تومجھے اتنی پریشانی نہ ہوتی مگر ذرا غور تو کرو، وہ عورت ہے۔ اور میں عورتوں کی تعظیم کرتا ہُوں۔ ‘‘
میں نے پوچھا۔ کیوں؟ نعیم نے بڑی سادگی سے جواب دیا۔
’’اس لیے کہ میں عورتوں کو جانتا ہی نہیں۔ کسی عورت سے ملنے اور اس سے کھل کر بات چیت کرنے کا مجھے کبھی موقعہ ہی نہیں ملا۔ اب زندگی میں پہلی مرتبہ عورت آئی ہے تو مدعی بن کر۔ ‘‘
میں نے ہنسنا شروع کردیا۔ نعیم نے اس پر بگڑ کر کہا۔
’’تم ہنستے ہو مگر یہاں میری جان پر بنی ہے۔ دو دن سے میں کمپنی نہیں جارہا۔ وہاں یہ بات ضرور پہنچ چکی ہو گی۔ سیٹھ صاحب کے سامنے میں کیا منہ لے کے جاؤں گا۔ انھوں نے اگر کچھ پوچھا تو میں کیا جواب دوں گا۔ ‘‘
میں نے کہا۔
’’جواصل بات ہے اُن کو بتا دینا۔ ‘‘
’’وہ تو میں بتا ہی دوں گا مگر خدا کے لیے سوچو تو سہی کہ میری پوزیشن کیا ہے۔ میں سیٹھ صاحب کی بے حد عزت کرتا ہُوں اس لیے کہ وہ میرے آقا ہیں، اگر انھوں نے مجھے بدکردار سمجھ کر برطرف کردیا تو عمر بھر کے لیے میں داغدار ہو جاؤں گا۔ ملازمت کھونے کا مجھے اتنا افسوس نہیں ہو گا مگر یہاں سوال عزت و ناموس کا ہے۔ وہ ضرور بدگمان ہو جائیں گے۔ میں ان کی طبیعت سے اچھی طرح واقف ہُوں، میری سچی باتوں کو بھی وہ جھوٹا ہی سمجھیں گے۔ فلم کمپنی میں ہر شخص جھوٹ بولتا ہے۔ وہ خود بھی ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اب میں کیا کروں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘
میں نے ہر ممکن طریقے سے نعیم کی اخلاقی جرأت بڑھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ وہ بے حد ڈرپوک ہے۔ خاص کر عورتوں کے معاملے میں تو اس کی بزدلی بہت ہی زیادہ ہے۔ دراصل معاملہ بھی سنگین تھا، اگر برقی پنکھا برآمد نہ ہوتا تو کیس بالکل معمولی رہ جاتا۔ مگر پولیس اس مارواڑی سے پنکھا حاصل کرچکی تھی اس لیے ظاہر ہے کہ زہرہ ایک حد تک سچی تھی۔ نعیم زیادہ دیر تک میرے پاس نہ ٹھہرا اور چلا گیا۔ دوسرے روز شام کو وہ پھرآیا۔ اُس کی پریشانی اور بھی زیادہ بڑھی ہُوئی تھی۔ آتے ہی کہنے لگا۔
’’بھائی ایک مصیبت میں تو جان پھنسی تھی، اب ایک اور آفت گلے پڑ گئی ہے۔ ‘‘
میں نے تشویش کے ساتھ کہا۔
’’کیا ہوا!۔ کیا کوئی اور کیس کھڑا ہو گیا۔ ‘‘
’’نہیں، کیس وہی ہے، مگر ایک ایسی بات ہُوئی ہے جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ ‘‘
نعیم نے کرسی پر بیٹھ کر اضطراب کے ساتھ ٹانگ ہلانا شروع کی۔
’’آج صبح سیٹھ صاحب نے مجھے بُلانے کے لیے موٹر بھیجی۔ مجھے جانا ہی پڑا حالانکہ میں ارادہ کرچکا تھا کہ کبھی نہیں جاؤں گا۔ بخدا فلم کمپنی میں داخل ہوتے وقت میری حالت وہی تھی جو حساس مُلزموں کی ہوتی ہے۔ شرم کے مارے میرا حلق سوکھ رہا تھا۔ سربھاری ہو گیا تھا۔ نیچی نظریں کیے جب میں سیٹھ صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ اُٹھ کھڑے ہُوئے۔ بڑے تپاک کے ساتھ انھوں نے پہلی مرتبہ میرے ساتھ ہینڈ شیک کیا اور ہنس کر کہنے لگے۔
’’منشی صاحب، آپ نے کمال کردیا۔ آپ تو چھپے رستم نکلے۔ بیٹھیے تشریف رکھیے۔ ‘‘
میں ندامت میں غرق کرسی پربیٹھ گیا۔ وہ بھی بیٹھ گئے۔ پھر انھوں نے ایسی باتیں شروع کیں کہ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ کہنے لگے۔
’’آپ گھبراتے کیوں ہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا آپ بتائیے کہ یہ زہرہ ہے کیسی؟۔ کچھ اچھی ہے؟۔ بھئی آپ نے تو کمال کردیا۔ میں سنتا ہوں کہ آپ نے پی کر وہ دھمال مچائی کہ پارسی کالونی کے سب آدمی اکٹھے ہو گئے۔ کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ زہرہ کی ساڑھی اتارکرلے گئے۔ پہلے بھی تو آپ اس کے ہاں آتے جاتے ہوں گے، پھر حرامزادی نے پولیس میں رپورٹ کیوں لکھوائی، پر کیا پتا ہے آپ نے بہت زیادہ شرارتیں کی ہوں‘‘
۔ ایسی ہی بے شمار باتیں انھوں نے مجھ سے کیں۔ میں خاموش رہا۔ اس کے بعد انھوں نے چائے منگوائی۔ ایک پیالہ میرے لیے بنایا اور پھر وہی گفتگو شروع کر دی۔
’’چاندی کا ٹی سٹ جو آپ اُٹھا کر لے گئے تھے، مجھے اگر آپ پریزنٹ کردیں تو میں ابھی آپ کو اپنے وکیل کے پاس لے چلتا ہوں، ایسی اچھی وکالت کرے گا کہ زہرہ کی طبیعت صاف ہو جائے گا۔ میں سُنتا ہوں زہرہ شکل صورت کی اچھی ہے، تو بھئی اس مقدمے کے بعد اسے لے آؤنا اپنی فلم میں اسے کوئی چھوٹا سال رول دے دیں گے۔ اور ہاں، یہ آپ نے اچھا کیا کہ اسی کی شراب پی اور اسی کی چیزیں اُڑا کر لے گئے!۔ پر آپ ایک درجن آدمی اپنے ساتھ کیوں لے گئے تھے؟ بیچاری اتنے آدمی دیکھ کر گھبرا گئی ہو گی۔ ‘‘
بات بات پر وہ ہنستے تھے جیسے گفتگو کے لیے انھیں ایک نہایت ہی دلچسپ موضوع مل گیا ہے۔ تعجب ہے کہ اس سے پہلے انھوں نے کبھی میرے سلام کا جواب بھی نہیں دیا تھا۔ ‘‘
میں نے کہا۔
’’تو کیا ہوا۔ تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ وہ تم پر ناراض نہ ہُوئے۔ ‘‘
نعیم بگڑ کر کہنے لگا۔
’’یہ بھی تم نے خوب کہا کہ مجھے خوش ہونا چاہیے۔ وہ مجھے مُجرم سمجھ رہے تھے جو کہ میں نہیں ہُوں۔ میں کیا کہہ سکتا تھا۔ خاموش رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد انھوں نے خزانچی کو بُلایا اور مجھے سو روپے ایڈوانس دلوائے حالانکہ دو مہینے سے کسی ملازم کو تنخواہ نہیں مل رہی۔ ‘‘
میں نے کہا۔
’’تو کیا بُرا ہُوا؟‘‘
’’ارے بھئی تم ساری بات تو سُن لو۔
’’نعیم کِھچ گیا۔
’’سو روپے دلوا کر انھوں نے کہا یہ آپ اپنے پاس رکھیے آپ کو مقدمہ کے لیے ضرورت ہو گی۔ وکیل کا بندوبست میں ابھی کیے دیتا ہوں۔ ‘‘
ٹیلی فون پر انھوں نے فوراً ہی وکیل سے بات کی۔ پھر مجھے اپنی موٹر میں بٹھا کر اسکے پاس لے گئے۔ ساری باتیں اس کو سمجھائیں اور کہا۔
’’دیکھیے، اس مقدمہ میں جان لڑا دیجیے گا۔ بات بالکل معمولی ہے، اس لیے کہ منشی صاحب سے زہرہ کے تعلقات بہت پُرانے ہیں‘‘
۔ میں کیا کہتا۔ وہاں بھی خاموش رہا۔
’’میں نے ہنس کر نعیم سے کہا۔
’’اب بھی خاموش رہو۔ تمہارا کیا بگڑ گیا ہے؟‘‘
نعیم اُٹھ کھڑا ہُوا اور اضطراب کے ساتھ ٹہلنے لگا۔
’’ابھی کچھ بگڑا ہی نہیں۔ عدالت میں مجھے بیان دینا پڑے گا کہ زہرہ میری داشتہ ہے اور میں اسے ایک مدت سے جانتا ہوں۔ اور۔ اور۔ سیٹھ صاحب نے آج شام مجھے مدعو کیا ہے۔ کہتے تھے گرین چلیں گے۔ وہاں کچھ شغل رہے گا۔ میری جان عجب مصیبت میں پھنس گئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا ہورہا ہے۔ ‘‘
سعادت حسن منٹو