اُردو زبان پر اعتراضات اور لسانی تحریکوں کا بڑھتا ہوا رُجحان
زبان محض اظہار کا وسیلہ نہیں بلکہ تہذیب کی سانس، قوم کی روح اور نسلوں کے شعور کا آئینہ ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں حالیہ برسوں میں اُردو کے خلاف جو آوازیں بلند ہو رہی ہیں، وہ دراصل زبان کی مخالفت سے زیادہ فکری مغالطے کی علامت ہیں۔ کبھی پنجابی پُرچار کے نام پر، کبھی سندھی، بلوچی یا پشتو شناخت کے جواز میں اُردو پر تنقید کی جاتی ہے، گویا یہ کسی اجنبی تہذیب کی زبان ہو، حالانکہ اُردو اسی مٹی سے اُٹھی ہے جس پر ہم سب کا برابر حق ہے۔ یہ اسی دھرتی کے ذرے ذرے میں بسی ہوئی ہے، اس کے ذوق میں ہمارے آبا و اجداد کی محنت اور محبت شامل ہے۔
اُردو کی تاریخ مختصر نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے۔ یہ زبان میل جول، مکالمے، ہجرت اور تہذیبی اختلاط سے وجود میں آئی۔ عربی کی سنجیدگی، فارسی کی نرمی، ترکی کا جلال اور مقامی بولیوں کی مٹھاس اس زبان کے قالب میں شامل ہیں۔ مغلیہ درباروں سے لے کر عام کوچوں تک، اردو نے ہر طبقے کے دلوں کو جوڑا۔ یہی وہ زبان تھی جو بادشاہ کے محل میں نغمہ بن کر گونجی اور عام آدمی کے ہونٹوں پر دعا بن کر اتری۔ اردو نے دربار کی نفاست اور گلی کوچوں کی سادگی کو ایک لڑی میں پرو دیا۔
تحریک آزادی کے دور میں اردو صرف ادبی زبان نہیں رہی بلکہ ایک جذبہ بن گئی۔ یہ وہ زبان تھی جس میں مسلمانوں نے اپنی شناخت دیکھی۔ اقبال کے شعر نے اسی زبان میں امت کو بیدار کیا، اور قائداعظم نے اسی زبان میں ایک خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد جب اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا تو یہ فیصلہ کسی ایک صوبے کی برتری نہیں بلکہ قومی وحدت کی بنیاد تھا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر فرمایا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اردو ہوگی اور کوئی نہیں۔ یہ اعلان صرف لسانی نہیں بلکہ فکری اور نظریاتی بنیاد رکھتا تھا۔ قائداعظم سمجھتے تھے کہ اگر ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں کو کسی ایک رشتے میں جوڑنا ہے تو وہ رشتہ اردو ہی ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ ہر علاقے میں سمجھی جاتی ہے اور ہر دل کے قریب ہے۔
بعض حلقوں نے اس فیصلے کو لسانی تعصب سے تعبیر کیا اور یہ خیال عام کرنے کی کوشش کی کہ اردو کے فروغ سے علاقائی زبانیں دب جائیں گی۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اُردو اور علاقائی زبانوں کا رشتہ رقابت کا نہیں بلکہ رفاقت کا ہے۔ اُردو نے ہمیشہ اپنے دامن کو وسیع رکھا اور ہر زبان سے لفظ، محاورہ، اور لہجہ مستعار لے کر خود کو مزید دلکش بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے لہجے میں کبھی پنجاب کی مٹھاس سنائی دیتی ہے، کبھی سندھ کی نرمی، کبھی خیبر کی شوخی اور کبھی بلوچستان کی سادگی۔
زبان کو جب سیاست میں استعمال کیا جاتا ہے تو یہ تعصب کا ہتھیار بن جاتی ہے۔ لسانی سیاست نے ہمارے معاشرے میں فاصلے پیدا کیے اور قومی یکجہتی کو کمزور کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم زبان کو شناخت کے بجائے رابطے کا ذریعہ سمجھیں۔ اردو کسی ایک طبقے کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ہے۔ اگر ہم زبان کو تقسیم کا سبب بنائیں گے تو قوم بٹ جائے گی، لیکن اگر اسی زبان کو وحدت کا وسیلہ سمجھیں گے تو فاصلے خود بخود مٹ جائیں گے۔
اردو آج بھی زندہ ہے بلکہ پہلے سے زیادہ متحرک ہے۔ ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، ڈرامے اور اخبارات نے اس زبان کو نئی روح بخشی ہے۔ لاکھوں لوگ روزانہ اردو میں لکھتے، بولتے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ نوجوان نسل اگر اردو کو محض پرانی کتابوں کی زبان نہیں بلکہ اپنے روزمرہ اظہار کا وسیلہ بنا لے تو اس زبان کا مستقبل بے حد روشن ہے۔
اُردو ادب ہماری تہذیبی شناخت کا سب سے خوبصورت آئینہ ہے۔ یہ ادب ہمیں سوچنا، محسوس کرنا اور معاشرے کی حقیقتوں کو سمجھنا سکھاتا ہے۔ غالب کے اشعار میں فلسفہ ہے، اقبال کے کلام میں روشنی، فیض کے اشعار میں احتجاج، منٹو کے افسانوں میں بے باکی، اور بیدی کے کرداروں میں معاشرتی سچائی۔ اردو ادب نے ہمیشہ انسان کے اندر جھانکنے کا حوصلہ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک مکمل فکری تہذیب ہے۔
آج کا اُردو ادب نئے روپ میں زندہ ہے۔ آن لائن جرائد، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا نے اسے نئی نسل کے قریب کر دیا ہے۔ اب اردو کتاب کے صفحے سے نکل کر اسکرین پر جا بسی ہے۔ نوجوان جب کسی مضمون، شعر یا افسانے کو اپنے فون پر پڑھتا ہے تو دراصل وہ اس روایت کو آگے بڑھا رہا ہوتا ہے جو کبھی دیوانِ غالب میں سنہری حروف میں لکھی جاتی تھی۔
ہمیں اُردو اور علاقائی زبانوں کو ایک دوسرے کا حریف نہیں، بلکہ ہم سفر سمجھنا چاہیے۔ اردو ہماری قومی وحدت کی علامت ہے، جبکہ مقامی زبانیں ہماری ثقافتی بنیاد ہیں۔ اگر یہ دونوں ساتھ چلیں تو پاکستان ایک ایسا ملک بن سکتا ہے جہاں زبانیں تقسیم نہیں بلکہ دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ بنیں۔
اُردو کی عمر پر سوال اٹھانے والے دراصل اس کی تاریخ سے ناآشنا ہیں۔ اُردو کی جڑیں اس خطے کی تاریخ سے زیادہ گہری ہیں۔ یہ زبان اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک اس سرزمین پر محبت، فہم، اور احساس باقی ہیں۔ اُردو کے لیے کسی قانون یا فرمان کی ضرورت نہیں، بس دلوں میں اس کے لیے محبت اور فخر کا جذبہ ہونا چاہیے، اور یہ جذبہ آج بھی ہمارے سینوں میں دھڑکتا ہے۔
یوسف صدیقی






