جیسے سائل کو عطا ہوتے ہیں خیرات میں زخم
ویسے ورثے میں ملے مجھ کو روایات کے زخم
پہلے اجداد سے جاگیر میں تنہائی ملی
پھر تسلسل سے لگائے مجھے حالات نے زخم
جو درِ یار پہ مقبول کبھی ہو نہ سکیں
وقت بھر سکتا نہیں ایسی مناجات کے زخم
صرف لہجے کی حلاوت کا ہے شیدائی جہاں
کس نے دیکھے ہیں بھلا طرَبیہ نغمات میں زخم
جن پہ یک لخت مسلّط ہوئے ہیں ہجر کے روگ
صرف سمجھیں گے وہ ہی مرگِ مفاجات کے زخم
میری قسمت پہ ہے چھایاشبِ فرقت کا فسوں
سایہ ڈھلتے ہیں سلگتے ہیں کہیں ذات کے زخم
میری اِس رُت سے محبت کی وجہ یہ بھی رہی
لاکھ بہتے رہیں دِکھتے نہیں برسات میں زخم
روز شمع کی طرح رو کے پگھل جاتی ہے شب
اور دن بھر میں سہلتے ہی نہیں رات کے زخم
جس کے انجام پہ کچھ وعدۂ فردا نہ ملے
پہروں بھرتے ہی نہیں ایسی ملاقات کے زخم
جو ہر اک بات پہ کہتا ہے بچھڑ جائیں گے ہم
ہے وہ حیراں کہ مری روح پہ ہیں کس بات کے زخم
حنا بلوچ