کب کہا کم، بہت زیادہ ہے
آنکھ کا نم بہت زیادہ ہے
کبھی دیتا تھا روشنی ہر شعر
اب تو مدھم بہت زیادہ ہے
یہ ستم ہے کہ لوگ کہتے نہیں
اپنا ہر غم بہت زیادہ ہے
دشت ہے کم بہت ہی وسعت میں
خواہشِ رم بہت زیادہ ہے
اتنی ہم میں بھلا کہاں طاقت
وقت کا سم بہت زیادہ ہے
واصف سجاد