- Advertisement -

چاندی

فرہاد فگار کا ایک افسانہ

سجاد تم یوں کس طرح جا سکتے ہو؟
عائشہ نے روہانسی صورت بناتے ہوۓ کہا۔
میں اگر نہیں جاتا تو میرے والدین کے خواب کیسے پورے ہوں گے؟ہمارا مستقبل کیسے بہتر ہو گا؟ اور پھر تم خود سوچو جب تک میرے پاس اچھی رقم نہیں ہو گی تو تمھیں کیسے بیاہ سکتا ہوں۔
وہ بات تو ٹھیک ہے مگر تم اپنے ملک میں رہ کر بھی تو کچھ کما سکتے ہو۔ ویسے بھی میں نے کب کوئی خواہش کی۔مجھے فقط عزت کی زندگی چاہیے جو ایک چھوٹےسےگھر اور دو وقت کی روٹی سے بھی مل سکتی ہے۔اور میں نہیں چاہتی کہ تم مجھ سے دورجاؤ ۔ عائشہ، سجاد کو روکنے کی مسلسل کوشش کر رہی تھی مگر وہ ۔ وہ مصر تھا کہ اسے یورپ جانا ہے۔ آج کئی دن سے ان دونوں میں یہ بحث چل رہی تھی۔ سجاد اسے سمجھا رہا تھا کہ بیرون ملک جا کر وہ اچھی رقم کما سکتا ہے۔ مگر عائشہ کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔ وہ دولت نہیں چاہتی تھی۔ اس کا خواب ایک گھر کا تھا جس میں وہ سجاد کے ساتھ ہننسی خوشی زندگی گزار سکے۔ عائشہ اور سجاد ایک نجی (پرائی ویٹ) دفتر میں معمولی سی تن‌خواہ پرکام کرتے تھے ۔ بنیادی طور پر دونوں ہی غربت کی زندگی جی رہے تھے۔ عائشہ اس قدر مسائل میں الجھی تھی کہ اس کی عمر بھی ڈھل رہی تھی اور کوئی اچھا رشتہ بھی نہ ہو پایا۔ واجبی سی شکل تھی مگر باحیا تھی۔ والد کی وفات کے بعد والدہ کا واحد سہارا تھی ۔ بھائی تھے مگر وہ اپنی زندگی جی رہے تھے۔ عائشہ دو سال قبل جب اس دفتر میں آئی تو یہاں اس کی ملاقات سجاد سے ہوئی۔‌سجاد عمر میں عائشہ سے چھوٹا تھا۔ دونوں ایک ساتھ کام کرتے ۔ اور یوں دونوں نے زندگی ساتھ جینےکے عہد و پیماں کر لیے۔ عائشہ اس امید پر تھی کہ سجاد اسے اپنا لے گا ۔‌ایک دن اچانک سجاد نے یہ مژدہ سنایا‌کہ وہ انگلینڈ جا رہا ہے۔‌سجاد کی یہ بات سن کر عائشہ بجھ سی گئی۔آج بھی وہ اسی بات پر بحث کر رہے تھے۔اچھا اگر تم نے جانا ہی ہے تو جانے سے پیشتر منگنی تو کرتے جاؤ۔ عائشہ نے نہایت بے بسی سے تقریباً ہار مانتے ہوۓ کہا۔
منگنی کرنے کے لیے پہلے گھر والوں سے بات کرنا ہوگی اور ان حالات میں اب تک کسی سے بات نہیں کر پایا۔سجاد کی یہ بات سن کر عائشہ کو ایک جھٹکا لگا۔وہ بالکل خاموش ہو کر رہ گئی۔‌وہ تو سمجھ رہی تھی کہ سجاد نے گھر میں اس کے بارے میں بتا دیا ہو گا مگر یہ انکشاف اس کے لیے باعثِ پشیمانی تھا۔ اس سے پہلے کہ بحث کاکوئی نتیجہ نکلتا ایک آواز سجاد کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ ارے بھائی وہ فائل کہاں ہے جس میں روزانہ کا حساب ہوتا ہے؟ یہ اس کے افسر کی آواز تھی ۔ اس آواز نے دونوں کو خاموش کروا دیا۔ جی سر وہ دراز میں رکھی ہے۔ جلدی سے وہ فائل لے کر آؤ۔ اپنے افسر کا حکم سن کر سجاد فائل لے کر نکل گیا جب کہ عائشہ سوچوں کی ایک گہری گھاٹی میں گر گئی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ شاید اس کی زندگی میں یہ دکھ کبھی کم نہ ہوں گے۔ اس کا یہ جیون ہمیشہ انھی مصائب میں گھرا رہے گا۔ بچپن سے اب تک وہ بس تکالیف میں ہی پلی تھی ۔ اب اسے ایک امید کی موہوم سی روشنی دکھائی دی تھی لیکن یہ بھی شاید بجھنے والی تھی۔ عائشہ کو اپنی سہیلی حرا کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ دیکھو عائشہ وہ لڑکا خوب صورت ہے پڑھا لکھا بھی ٹھیک ہے عمر میں بھی تم سے بہت چھوٹا ہے ۔ مجھے اس کی باتوں پر اعتبار نہیں ہے وہ بس وقت گزاری کے لیے تم سے تعلق بناۓ ہوۓ ہے۔ حرا کی بات سن کر عائشہ کو لگا شاید یہ سچ کہ رہی ہے مگر دل کو جھوٹی تسلی دیتے ہوے بولی۔ تمھیں تو ہر کسی کی باتیں جھوٹ ہی لگتی ہیں ۔ سجاد ایک اچھے گھر کا لڑکا ہے ٹھیک ہے اس کے پاس روپیہ پیسا نہیں مگر خاندان تو ہے، تعلیم بھی ہے اور شعور بھی۔ یہ سب باتیں ٹھیک ہیں مگر وہ تم سے شادی کرے گا مجھے نہیں لگتا۔ نہیں حرا وہ جھوٹ نہیں بولتا۔ مجھے یقین ہے وہ ضرور میرا ہاتھ تھامے گا۔ عائشہ جانے کتنی دیر سوچوں کے بحر میں غرقاب رہتی اگر چھٹی کا وقت نہ ہو جاتا اور چاچا کریم بخش کی آواز نہ آتی۔ بیٹی دفتر میں کب کی چھٹی ہو گئی ہے ۔‌میں نے اب دفتر بند کرنا ہے۔‌عائشہ یک دم ہڑبڑا گئی اسے آج دفتر سے نکلنے میں بھی بہت بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔ گھر کے سارے راستے وہ سجاد کے بارے میں سوچتی رہی۔ اس کے کانوں میں بار بار سجاد کے یہ الفاظ گونج رہے تھے کہ "ابھی گھر والوں سے بات بھی نہیں کی۔” گھر پہنچ کر بھی وہ بجھی بجھی سی رہی۔ عائشہ جلدی سے منہ دھو لو میں کھانا گرم کرتی ہوں۔ ماں کی بات پر اس نے صاف کِہ دیا کہ اس کے سر میں درد ہے۔ دفتر میں سموسے کھا لیے تھے اس لیے بھوک ختم ہو گیی ہے۔ عائشہ کے اعصاب پر تو سجاد سوار تھا اور اس کی باتیں "گھر میں بات کروں گا تو۔۔۔۔۔” ۔ عائشہ رات تک اسی سوچ میں ڈوبی رہی، رات بھر ان سوچوں نے اسے چین سے سونے بھی نہ دیا۔ وہ بے چینی کے عالم میں کروٹیں بدلتی رہی۔ سویرے بھی بنا ناشتا کیے وہ دفتر گئی۔‌جاتے ہی اس نے چاچا کریم بخش سے پوچھا۔ چاچا سجاد صاحب آ گئے ہیں؟ نہیں بیٹا ان کا فون سویرے ہی آیا تھا وہ آج کسی کام میں مصروف ہیں تو آج چھٹی کریں گے۔ یہ سن کر عائشہ کو ایک دھچکا لگا۔ کل سے وہ تو پریشانی کے عالم میں رہی سجاد سے ایک دو مرتبہ رابطہ کرنے کے کوشش بھی کی مگر نمبر مصروف رہا۔ آج بھی اس نے چھٹی کی اور مجھے ایک میسیج تک نہ کر پایا ۔ اس نے موبائل نکالا اور سجاد کا نمبر ملانے لگی اس سے پہلے کہ نمبر ملا پاتی بڑے صاحب کا بلاوا آ گیا۔‌وہ موبائل بیگ میں رکھ کر صاحب کے کمرے میں چلی گئی۔‌عائشہ آج سجاد بھی نہیں آیا اور کام بھی بہت ہے تو آپ نے یہ فائل بھی دیکھنی ہیں اور شام تک مکمل کر کے مجھے بتانا ہے۔ عائشہ نے فائلز اٹھائیں اور اپنے کیبن میں آ کر فائلز ٹٹولنے لگی۔‌اس کے ذہن پر ایک بھاری بوجھ تھا۔‌وہ خیالوں میں ڈوبی ہوئی کام کر رہی تھی۔ اچانک سے اس کے موبائل میں تھرتھلی ہوئی۔ یہ ایک میسیج تھا جو سجاد کے نمبر سے تھا۔‌میری پیاری عائشہ بہت معذرت میں کل سے مصروف رہا آج بھی اپنے ویزے کے سلسلے میں ویزا کمپنی میں ہوں ۔ امید ہے جلد میرا یورپ کا ویزا لگ جاۓ گا۔ عائشہ نے میسیج دیکھا اور بنا کوئی جواب دیے موبائل پرس میں رکھ لیا۔‌سارا دن مصروفیت میں گزر گیا۔ شام کو جیسے ہی وہ دفتر سے نکلنے لگی تو اس کے موبائل نے ایک اور پیغام سنایا۔‌یہ ایک آڈیو پیغام‌ تھا۔ السلام علیکم عائشہ الحمدللہ میرا ویزا کنفرم ہو گیا ہے۔ میں آئندہ ہفتے انگلینڈ چلا جاؤں گا باقی تفصیل کل آ کر بتاتا ہوں ۔‌سجاد کا یہ پیغام سن کر عائشہ مزید اداس ہو گئی۔ اس کے خوابوں پر گویا اوس پر گئی تھی۔ وہ سوچنے اور سمجھنے سے مفلوج ہو چکی تھی ۔ وہ جان چکی تھی کہ سجاد اب اسے نہیں ملے گا مگر پھر بھی وہ امید لگائے ہوۓ تھی ۔آخر اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔اگلے دن وہ جیسے ہی دفتر پہنچی سجاد کو اپنا منتظر پایا۔‌ وہ بہت خوش تھا ۔ حال آں کہ اس ویزے کو حاصل کرنے کے لیے اس کے والدین نے ایک بڑی رقم قرض لی تھی، کچھ ذمین گروی رکھ کر نمبردار سے پیسے لیے بڑی مشکل سے رقم پوری ہوئی تھی۔ سجاد نے ویزا لگنے کی خوشی میں عائشہ کو سب سے پہلے مٹھائی کھلائی ۔ عائشہ نے بھی بوجھل دل کے ساتھ مبارک باد دی ۔سجاد تم جا کر بھول تو نہیں جاؤ گے؟ ارے کیسی باتیں کرتی ہو ایسا ہر گز نہ ہو گا۔ لیکن میں نے سنا ہے کہ باہر جا کر لوگ پراۓ ہو جاتے ہیں ۔‌پراۓ دیس میں اپنوں کو بھول جاتے ہیں۔ یورپ ایسا دیس ہے جہاں کی چکا چوند میں کھو کر کچھ کوئی یاد نہیں رہتا۔ عائشہ نے اپنے خدشات ظاہر کیے جنھیں سجاد نے ہنس کر ٹال دیا۔یوں سجاد نے ویزے کے حصول کے بعد ملازمت چھوڑ دی ۔ ایک ہفتہ عزیزوں اور رشتے داروں سے ملنے ملانے میں بیت گیا۔اس دوران میں عائشہ سے ملاقات تقریبا ختم ہو کر رہ گئی ہاں البتہ فون پر بات ہو جاتی ۔ آخر کار وہ دن آن پہنچا جب سجاد نے پردیسی ہونا تھا۔ عائشہ نے سجاد کے جانے کے بعد بھی ملازمت جاری رکھی ۔ اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے یہ ناگزیر تھا۔ جس دن سجاد ملک سے باہر گیا اس دن کے بعد اس نے عائشہ سے رابطہ ترک ہی کر دیا۔ دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہو گئے۔ عائشہ کی امید تقریبا ختم ہو کر رہ گئی۔ پھر ایک دن عائشہ کے دفتر میں ایک نیالڑکا یوسف آیا۔ یوسف کوآۓ تیسرا مہینا تھا کہ ایک دن عائشہ کو دیکھا جو اکیلے بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ یوسف نے ازراہ ہم دردی استفسار کیا کہ رونے کی کیا وجہ ہے؟پہلے تو عائشہ نے ٹال مٹول کی بالآخر یوسف کی ہم دردی دیکھ کر اسے ساری بات بتا دی۔ یوسف نے عائشہ کی ڈھارس یوں باندھی کہ اس کا ایک دوست بھی لندن میں ہی ہوتا ہے ۔ وہ اپنے دوست کے ذریعے سجاد کا پتا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اب عائشہ کو یوسف پر اعتماد ہوا۔ یوسف نے وعدہ تو کر لیا لیکن وہ جانتا تھا یہ آسان نہ تھا۔ پرائےدیس میں ایک اجنبی کو بنا پتے کے ڈھونڈنا تقریباً ناممکن تھا۔ اس نے جب اپنے دوست سے بات کی تو اس نے بھی صاف انکار کر دیا ۔ اس کے مطابق اتنے بڑے شہر میں کسی کو ایسے تلاش نہیں کیا جا سکتا ۔ یوسف سب جانتےہوئے بھی عائشہ کی امید بندھاتا ۔‌وہ نصیبوں جلی بھی سجاد کے انتظار میں رہی سال برس بیت گئے۔‌عائشہ کا انتظار ختم نہ ہوا ہاں اس کے بالوں میں چاندی ضرور آ گئی۔

فرہاد احمد فگار

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
رپورٹ از شہزاد نیر