کیا ہے جو ابھی ہوا نہیں ہے
لیکن تجھے کچھ پتا نہیں ہے
دیوار سی اِک کھینچی ہوئی ہے
اور اُس کا کوئی سرا نہیں ہے
میں جس کی سزا بھگت رہا ہوں
وہ جرم ابھی کیا نہیں ہے
میں خود سے اُلجھ رہا ہوں جاناں
تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے
کھڑکی میں کھلے ہیں جتنے تارے
کوئی بھی تری طرح نہیں ہے
میں تیرے بغیر کچھ نہیں ہوں
تو پھر بھی مرا خدا نہیں ہے
ہر رنگ کا پھول کھل رہا ہے
اِک حرفِ وفا کھلا نہیں ہے
اس قریۂ عشق و آگہی میں
رونے کا کوئی صلا نہیں ہے
تُو مجھ میں سما چکا ہے پھر بھی
میرے لیے سوچتا نہیں ہے
جس ڈھنگ سے میں نے تجھ کو دیکھا
اُس ڈھنگ سے تُو ملا نہیں ہے
میں تیرے ضمیر میں ہُوں زندہ
کیا تُو مجھے جانتا نہیں ہے
اِ س دل میں، دلِ شکستہ تن میں
تُو ہے کوئی دوسرا نہیں ہے
مر جانے کی حد پہ آ چکا ہُوں
کیوں مجھ کو سنبھالتا نہیں ہے
ایوب خاور