- Advertisement -

میں خواب لکھتا ہوں

راز احتشام کی ایک اردو نظم

میں خواب لکھتا ہوں
منتشر خواب۔۔ !
مجھ کو لگتا ہے دور۔۔ سیاروں اور ستاروں کے آس پاس
ایک بستی ہے
جس کے رہنے والے
ہمارے خوابوں کے راستے سے کلام کرتے ہیں !

مجھ کو لگتا ہے خواب دنیا کو ایس او ایس (SOS) ہیں
کوئی مصیبت میں اپنی جانب پکارتا ہے
دہائی دیتا ہے

اور یہ بے ربط، گنجلک ، منتشر، زماں اور مکاں سے آزاد خواب دراصل عندیہ ہیں
کہ بستی والوں نے وقت سے چھیڑ چھاڑ کی
اور وقت نے انتقام میں
ان سے ساری ترتیب چھین لی ہے !

اور اب وہ زنجیر توڑنے پر ملال کرتے ہیں، بین کرتے ہیں
ان کی دنیا کسی چکرویو میں پھنس چکی ہے
وہاں کسی سے مقررہ وقت پر ملاقات
یا اکٹھے کوئی بھی ساعت گزارنا
اب محال ہے !

اور وہ نثری نظموں کی طرح بے نظمی جی رہے ہیں
اور اب وہ اپنا جواز گھڑنے سے تھک گئے ہیں
سو وہ توازن کی کھوج میں ہیں
کہ اب یہ (chaos) ان کی خاطر ڈراونا خواب بن چکا ہے !

کہ جیسے یہ خواب۔۔

کوئی لوہے کا دیو ہیکل مرے تعاقب میں گرز تھامے، چنگھاڑتا ہے
میں گرتا پڑتا عجیب گلیوں میں بھاگتا ہوں
وہ گرز سے اردگرد دیواریں توڑتا ، چیختا ہوا
ہر طرف نمودار ہو رہا ہے
اچانک ایسا دکھائی دیتا ہے
جیسے رستہ نہیں رہا اور لوہے کا ہاتھ
مجھ کو فورا دبوچ لے گا
اور آنکھ اچانک ہی تیز دھک دھک سے جاگتی ہے
(یہ سلسلہ وار خواب ہے)

سو وہ لوہے کے دیو (chaos) اور تباہی مچاتے گرزوں سمیت
اس سمت آ رہے ہیں !

سنو ! اے خوابوں سے بھاگتے، خوف کھاتے لوگو !
سنو ! اے بد انتظامیوں پر جلاؤ گھیراؤ کرتے چہرو !
سنو ! اے نظموں کو نثر کرتے ہوئے دماغو !

وہ ایلین ہم سے نظم لینے کو آ رہے ہیں!

راز احتشام

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
باقی صدیقی کی ایک اردو غزل