سیاہی گرتی رہے اور دیا خراب نہ ہو
یہ طاقِ چشم اب اِتنا بھی کیا خراب نہ ہو
ہر آنے والا اِسی طرح سے تجھے چاہے
مری بنائی ہوئی یہ فضا خراب نہ ہو
ازل ابد میں ٹھنی ہے سو میں نکلتا ہوں
مری کڑی سے ترا سلسلہ خراب نہ ہو
ہم اِس ہوا سے تو کہتے ہیں کیوں بجھایا چراغ
کہیں چراغ کی اپنی ہوا خراب نہ ہو
میں اپنی شرط پہ آیا تھا اِس خرابے میں
سو میرے ساتھ کوئی دوسرا خراب نہ ہو
مری خرابی کو یکجا کرو کہیں نہ کہیں
مرا معاملہ اب جا بہ جا خراب نہ ہو
میں لَو پکڑتا ہوں ، اور ہاتھ کھینچ لیتا ہوں
مرے گزرنے سے پردہ ترا خراب نہ ہو
خراب ہوں بھلے اِس اشتہا میں ہم اور تم
پر ایک دوسرے کا ذائقہ خراب نہ ہو
بہت حجاب زمیں سے بھی ، آسماں سے بھی
اے ابتدا کے خراب ، انتہا خراب نہ ہو
تم اِس نواحِ خرابہ میں آتے جاتے ہو
یہ میرا خطِ خرابی ، ذرا خراب نہ ہو
شاہین عباس