چشمِ دِگر برس اُٹھی ، اشکِ دگر برس پڑا
کچھ پہ زمیں برس پڑی ، کچھ پہ سفر برس پڑا
آفتوں میں گِھرے ہوئے ، تیرنے لگ گئے مکاں
شور کا نم گیا نہ تھا ، شہر میں شر برس پڑا
آج گئے دنوں کے ساتھ اپنی گلی سے کیا گئے
بند تھا در خفا ہوا ، خالی تھا گھر برس پڑا
ابر میں اور صبر میں ، صلح کرانی چاہیے
چھت پہ کھڑا ہوا یہ شخص ، ابر پہ گر برس پڑا
اُڑتے ہوئوں کا ہجر تھا ، چلتے ہوئوں کے سر گیا
کیسی عجیب شام تھی ، ہم پہ سفر برس پڑا
کیسا بھرا ہو تھا تھا شخص ، لوح پہ بھی قلم پہ بھی
لوح و قلم پہ مالکِ زیرو زبر برس پڑا
صدیوں سے ڈھو رہا تھا بوجھ ، فجر برستی اوس کا
سر میں رکا ہو تھا مینہ ، آج وہ سر برس پڑا
شاہین عباس