نیند میں کھُلتے ہوئے خواب کی عریانی پر
میں نے بوسہ دیا مہتاب کی پیشانی پر
اِس قبیلے میں کوئی عشق سے واقف ہی نہیں،
لوگ ہنستے ہیں مری چاک گریبانی پر
نظر آتی ہے تجھ ایسوں کو شباہت اپنی،
میں نے تصویر بنائی تھی کبھی پانی پر
ہم فقیروں کو اسی خاک سے نسبت ہے بہت،
ہم نہ بیٹھیں گے ترے تختِ سلیمانی پر
اُس سے کچھ خاص تعلق بھی نہیں ہے اپنا،
میں پریشان ہوا جس کی پریشانی پر
پاس ہے لفظ کی حُرمت کا وگرنہ آزر،
کوئی تمغہ تو نہیں ملتا غزل خوانی پر
دلاور علی آزر