- Advertisement -

پھول بکھرے ہیں خاک پر ساقی

باقی صدیقی کی ایک اردو غزل

پھول بکھرے ہیں خاک پر ساقی
بام افلاک سے اتر ساقی

میکدہ اور مہیب سناٹا
بے رُخی اور اس قدر ساقی

تشنہ کامی سی تشنہ کامی ہے
دل میں پڑنے لگے بھنور ساقی

بجھ رہا ہے چراغ مے خانہ
رگ ساغر میں خون بھر ساقی

بار ہیں اب خزاں کے ہنگامے
فصل گل کی کوئی خبر ساقی

رند بکھرے ہیں ساغروں کی طرح
رنگ محفل پہ اک نظر ساقی

بے ارادہ چھلک چھلک جانا
جام مے ہے کہ چشم تر ساقی

اک کرن اس طرف سے گزری ہے
ہو رہی ہے کہیں سحر ساقی

توڑ کر سب حدود میخانہ
بوئے مے کی طرح بکھر ساقی

جانے کل رنگ زندگی کیا ہو
وقت کی کروٹوں سے ڈر ساقی

رات کے آخری تبسم پر
مئے باقیؔ نثار کر ساقی

باقی صدیقی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
باقی صدیقی کی ایک اردو غزل