اردو غزلیاتشعر و شاعریناصر کاظمی

نصیب عشق دل بے قرار بھی تو نہیں

ایک اردو غزل از ناصر کاظمی

نصیب عشق دل بے قرار بھی تو نہیں

بہت دنوں سے ترا انتظار بھی تو نہیں

تلافیٔ ستم روزگار کون کرے

تو ہم سخن بھی نہیں راز دار بھی تو نہیں

زمانہ پرسش غم بھی کرے تو کیا حاصل

کہ تیرا غم غم لیل و نہار بھی تو نہیں

تری نگاہ تغافل کو کون سمجھائے

کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار بھی تو نہیں

تو ہی بتا کہ تری خامشی کو کیا سمجھوں

تری نگاہ سے کچھ آشکار بھی تو نہیں

وفا نہیں نہ سہی رسم و راہ کیا کم ہے

تری نظر کا مگر اعتبار بھی تو نہیں

اگرچہ دل تری منزل نہ بن سکا اے دوست

مگر چراغ سر رہ گزار بھی تو نہیں

بہت فسردہ ہے دل کون اس کو بہلائے

اداس بھی تو نہیں بے قرار بھی تو نہیں

تو ہی بتا ترے بے خانماں کدھر جائیں

کہ راہ میں شجر سایہ دار بھی تو نہیں

فلک نے پھینک دیا برگ گل کی چھاؤں سے دور

وہاں پڑے ہیں جہاں خار زار بھی تو نہیں

جو زندگی ہے تو بس تیرے درد مندوں کی

یہ جبر بھی تو نہیں اختیار بھی تو نہیں

وفا ذریعۂ اظہار غم سہی ناصرؔ

یہ کاروبار کوئی کاروبار بھی تو نہیں

ناصر کاظمی

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button