وضع اِنساں میں مخفی ہیں جو حیواں نہیں ہو سکتے
ہم خُلد کے لائق ہیں مُسلماں نہیں ہو سکتے
بے فیض سی دنیا میں عبث آئے ہیں ہم ، لیکن
جن راہوں پہ پاؤں دھریں سنساں نہیں ہو سکتے
قربت و جدائی کے کرشمات تو ہیں اس میں
اس فعلِ زِیاں میں کبھی نقصاں نہیں ہو سکتے
میں تیری مَعیت میں چلا تھا جنوں کی جانب
کھو کے مجھے تم اب کہ پشیماں نہیں ہو سکتے
روئیں گے نہ تڑپیں گے نہ جاگیں گے جدا ہو کر
ہم یوں ہی ہنسیں گے کہ پریشاں نہیں ہو سکتے
میں جن کی مَعیت میں چلا ہوں جنوں کی جانب
حاکم ہوں گے میرے وہ نگہباں نہیں ہو سکتے
ہاں ٹھیک گنہ گار تھا تیرا میں مگر شوبیؔ
تو نے دھرے ہیں مجھ پہ جو بُہتاں نہیں ہو سکتے
شعیب شوبیؔ