- Advertisement -

پیاسی لڑکی، لمبے قد کا دولہا اور چوتھا صنعتی انقلاب

سید محمد زاہد کا اردو کالم

پیاسی لڑکی، لمبے قد کا دولہا اور چوتھا صنعتی انقلاب

بہت انوکھی لڑکی تھی وہ۔ باپ ملک کا مشہور باکسر، چھ فٹ پانچ انچ قد۔ رِنگ میں مخالف اس کی مار سے بے حال ہو جاتے تھے۔ اس کے مکے کوہساروں میں زلزلے کے جھٹکوں سے گرنے والے پتھروں کی طرح برستے تھے۔ رِنگ کے باہر اس کاشوق صرف جنس مخالف تک ہی محدود تھا۔ بھدے، چپٹے ناک اور موٹے ہونٹوں کے ساتھ بھی وہ اپنی جسامت اورحرکات و سکنات کی وجہ سے خواتین میں مقبول تھا۔ ان کی موجودگی میں اُس کے جذبات پہاڑی راستوں میں انہی پتھروں سے ٹکراکر اچھلنے والی ندی سے بھی زیادہ رواں ہوتے تھے۔ وہ اس میدان کا بھی شہ سوار تھا۔

ماں بھی کچھ کم نہ تھی، لان ٹینس کی کھلاڑی، کسرتی بدن کی مالک، جس کی پنڈلیاں اور بازو سٹیل کی پٹیوں سے بنے ہوے تھے۔ وہ اگر اکڑ کر کھڑی ہو جاتی تو باکسرکے برابر پہنچ جاتی تھی۔ ان دونوں کے ملاپ سے جو جوالا مکھی بھڑکی، اس سے وہ پیدا ہوئی۔

بہادر، طاقتور اور خوبصورت۔ مضبوط جسم کی جوان لڑکی، جس کا قد دونوں سے تھوڑا سا نکلتا ہوا۔ یونیورسٹی کے میدانوں میں مہو خرام ہوتی تو سوائے سرو کے پودوں کے کوئی چیز اس کے سر سے اونچی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ پرندے اس کے اوپر سے گزرتے ہوے اپنا راستہ بدل لیتے کہ مبادہ وہ ہاتھ اٹھا کر انہیں پکڑ نہ لے۔ سکول میں تمام کھیلوں میں حصہ لیتی تھی۔ دوڑ میں دوسری لڑکیاں جہاں سو قدم اٹھا کر پہنچتیں وہ آدھے قدموں سے وہی فاصلہ طے کر لیتی تھی۔

یونیورسٹی پہنچ کر اسے کھیلوں سے نفرت ہو گئی اور اس نے گراؤنڈ میں جانابالکل چھوڑ دیا۔ اس کا زیادہ وقت کلاس رومز اور سہیلیوں کے ساتھ کینٹین پرگزرتا تھا۔ لڑکا جہاں بھی دیکھتی اس کی کوئی انوکھی رگ پھڑک اٹھتی اور اس کو نیچا دکھانے کی بھر پور کوشش کرتی۔ کلاس فیلوز، یونیورسٹی کے ملازم، کلرک، کوئی بھی اس کی ان حرکتوں سے بچ نہیں سکتاتھا۔ تمام طالب علم کینٹین بوائے کو چھوٹا کہہ کر پکارتے اور وہ ہمیشہ اسے ”او! ٹھگنے“ کہہ کر بلاتی تھی۔

یونیورسٹی میں پہلے ہی دن میری اوراس کی دوستی ہو گئی تھی۔ ایک دن مجھے کہنے لگی۔ ”آؤ کسی ٹی وی چینل چلتے ہیں اس میں جاب کریں گے۔ “ جب میں نے پو چھا کہ اس شعبہ میں ہی کیوں؟ تو کہنے لگی، ”سکول سے یونیورسٹی تک، کلاس روموں سے کھیلوں کے میدانوں تک میں جہاں بھی گئی، لوگوں میں گھل مل نہ سکی، ہر جگہ پر بونے ہی دیکھے۔ میں ان میں یوں لگتی تھی جیسے گدھوں میں زرافہ۔ سنا ہے کہ میڈیا میں لوگ اونچے لمبے قد کاٹھ اورکھلے ہاتھ پاؤں والے ہوتے ہیں۔ میں اس شعبہ میں جانا چاہتی ہوں جہاں میں اپنے آپ کو کسی اور سیارے کی مخلوق محسوس نہ کروں۔ “

نیا ابھرتا ہوا چینل تھا۔ ہمیں فوراً ہی ڈرامہ کے شعبہ میں بھیج دیا گیا۔ پروڈیوسر رحمان مردانہ وجاہت کا نمونہ تھا۔ ارباب نشاط سے بھرا ہوا اس کا کمرہ راجہ اندر کا اکھاڑہ ہی لگتا تھا۔ اس کے گرد حسیناؤں کا جمگھٹا لگا رہتا۔ خوبرو ماڈل اس کے آگے بچھ بچھ جاتی تھیں۔ اس نے اپنے پاس بٹھایا تفصیلی انٹر ویو لیا۔ اسے کہنے لگا، ”میں تم پر ایک ڈرامہ بناؤں گا اور اس کی ہیروئین تم بنوگی۔ “ پہلی مرتبہ میں نے اسے کسی مرد کے سامنے تھوڑا ججھکتے ہوئے دیکھا۔ واپسی پر میں نے پوچھا، ”آج کیا ہو گیا تھا؟ “

کہنے لگی، ”وہ مجھ پر لائن مار رہا تھا۔ میں سوچ رہی تھی، ابھی جواب دوں؟ “

اس کے بعدبھی وہ کئی دن اس کے کمرے میں جاتی رہی۔ اس کے دو ہی ٹھکانے تھے ایک اس کا کمرہ اور دوسرا کمپیوٹر سیکشن۔ کمپیوٹر سیکشن میں ایک چھوٹے دبلے پتلے سے لڑکے گل ریز کا ٹیبل اس کی مستقل آماج گاہ تھا۔ اس لڑکے میں پتا نہیں اسے کیا بات پسند آگئی تھی کہ ہمیشہ اس کی تعریفیں کرتی رہتی۔ ”بہت محنتی ہے۔ انتہائی ذہین ہے۔ جو بھی اس کو کام کہیں ضرور کرتا ہے۔ “ گل ریزکا چینل کے دفتر کے ساتھ ہی بہت بڑا گھر تھا۔ اس نے وہیں کمپیوٹر ورکشاپ بنائی ہوئی تھی اور وہ اس میں کچھ کمرے ملازمین کوکرائے پر بھی دیتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعدوہ اس کے پاس ہی منتقل ہو گئی۔

عہد ہ، طاقت اور حسن مردوں کو مغرور بنا دیتے ہیں۔ اور اگر اردگرد حسین بت جمع ہوں تو ایسا انسان اپنے آپ کو خدا سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ رحمان بھی اپنے بارے میں کچھ ایسی ہی غلط فہمی کا شکار تھا۔ ایک دن کہنے لگا میں ہیرو، ہیروئینیں بناتاہوں اور میں انہیں تباہ بھی کر دیتاہوں۔ بنانا اور مٹانا میرے اختیار میں ہے۔ وہ اس کی طرف راغب ہو رہی تھی اگر چہ وہ عمر میں اس سے پندرہ سال بڑا اور قد میں تقریباً اتنے انچ ہی چھوٹا تھا۔

لیکن رحمان نے اس میدان میں اپنے جو ہر آزمائے تھے جہاں صنم خود ہی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسے نہیں پتا تھا کہ وہ بھی انتہائی مغرور اورخود سر لڑکی ہے۔ ایک دن وہ انتہائی غصے میں اس کے کمرے سے باہر آئی اور سیدھی اپنی گاڑٰی میں جا کر بیٹھ گئی۔ میں اس کے پیچھے بھاگتی ہوئی گئی۔ پو چھا کیا ہوا؟ کہنے لگی، ”وہ ٹھگنا، بڑا ہیرو بنا پھرتا تھا۔ کہتا تھا میں بہت بڑا بت شکن ہوں۔ چھوٹے چھوٹے مندرگراکر کے بڑافاتح بنا پھرتا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ غزنی کے محمود نے بھی بامیان کے اونچے پہاڑوں میں ایستادہ لمبے بت توڑنے کی ہمت نہیں کی تھی وہ بھی ہندوستان کے میدانوں میں آسان اہداف کو نشانہ بناتا رہا تھا۔ “

کہنے لگی، ”میری قسمت ہی ایسی ہے میں تو جس جام کو بھی پینے کے لئے ہاتھ میں لیتی ہو ں وہ ہونٹوں تک پہنچنے سے پہلے ہی چھلک چھلک کر خالی ہو جاتا ہے۔ نیا پیالہ اٹھاتی ہوں، اس کو بھرنے کے لئے کوئی ساقی میری طرف آتا ہے توسبو اس کے ہاتھ سے گر جاتا ہے۔ اب تو میں سو چتی ہو ں کہ تمام پیمانے پاؤں کی ٹھوکر سے خود ہی توڑ دوں اور مٹکے کو ہی اٹھا کر منہ سے لگا لوں۔ گھٹا گھٹ پیتی جاؤں، نشہ چڑھتا جائے، مستی بڑھتی جائے اورگھڑا کبھی ختم نہ ہو۔

پتا نہیں وہِ ٹھِلیاکہاں ہے جو مجھے بھی وصل کی لذتوں سے آشنا کر دے گا؟ لیکن میری بات یاد رکھنا اگر وہ پاتال میں بھی دبا کررکھا گیا ہو ا تو میرے بازو اتنے لمبے ہیں کہ میں اسے وہاں سے بھی باہر کھینچ لوں گی۔ اب میں اپنی تقدیر خود لکھوں گی۔ روایت شکن بنوں گی، تمام حدود توڑدوں گی اور میرا نصیب ضرور بخت ور ہوگا۔ ”

میری شادی ہو گئی اور میں دوسرے شہر چلی گئی۔

کچھ دیر کے بعد چینل کے دفتر جانا ہواتو گل ریز کے پاس گئی اس کے بارے میں پوچھا۔ کہنے لگا، ”آج کل چھٹیوں پر ہے گھر آکر خود ہی مل لینا۔ “

دوسرے ملازمین سے اس کے بارے میں پوچھا۔ طرح طرح کی باتیں سننے کو ملیں لیکن کسی کو بھی صحیح علم نہیں تھا۔ لب لباب یہ تھا کہ شاید اس نے شادی کر لی ہے۔ کسی کو بھی نہیں بلایا۔ کچھ دوستوں نے اسے کئی جگہ پر ایک لڑکے کے ساتھ دیکھا ہے۔ اونچا لمبا، گورا چٹا، پاکستانی نہیں لگتا۔ نین نقش مشرق بعید کے لوگوں جیسے ہیں لیکن قد افریقی ممالک کے لوگوں سے بھی زیادہ ہے۔

میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ شام کو میں گل ریز کے گھر چلی گئی۔ پوچھا کہاں ہے؟ کہنے لگا تین دن سے اپنے کمرے میں بند ہے۔ میں تو اسے نہیں بلا سکتا تم دروازے پر دستک دے لو۔ میں نے فون کرنا مناسب سمجھا۔ جواب ملا آرہی ہوں۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد باہر آئی۔ بڑے جوش سے ملی۔ میں نے پو چھا، ”کہاں سے ملا؟ “

بولی، ”میں نہ کہتی تھی کہ میں اپنا بر ڈھونڈ ہی لوں گی۔ دنیا کی مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ جب انہیں میری بھوک پیاس کی فکر نہیں تو میں بھی اپنا راستہ خود اپناؤں گی۔ دیکھ لو میں نے اپنے سے لمبے قد کا ساتھی پا ہی لیا۔ میں نے کہا تھا نا کہ میں اسے پاتال سے بھی نکال لاؤں گی۔ “

”آؤ۔ چلیں، کہیں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ “

ہم باہر کی طرف چل پڑے۔ چلتے چلتے کہنے لگی، ”گل ریز، ذرا سے دیکھ لینا۔ وہ اندر ہی ہے میں نے اسے چارجنگ پر لگا دیا ہے۔ اور اس کی کمپنی کو میل کر کے پو چھو کہ اس کا بیٹری ٹائم کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟ “

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
بہادر شاہ ظفر کی اردو غزل