اختر شیرانیاردو افسانےاردو تحاریر

پشیمان

ایک افسانہ از اختر شیرانی

پشیمان

"شباب، عصمت، اور دوشیزگی ایک ہی چیز کے تین نام ہیں! ”
"جو لوگ اپنی معصومیت کو غارت کر دیتے ہیں، وہ شباب کی حقیقت سے بے خبر رہتے ہیں! ”
"جس طرح ایک ایسے پھول کو، جس سے رنگ و بُو چھین لئے جائیں پھول کہلانے کا حق نہیں رہتا۔ اُسی طرح ایک نوجوان کو اُس کی عصمت و دوشیزگی جدا کر لینے کے بعد، نوجوان کہنا حقیقت کا گناہ ہے ! ”
"ایک نو عمر شخص، اپنی جوانی لُٹانے کے باوجود نو عمر کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے، مگر جوان نہیں کہلا سکتا۔ ”
"شادی ایک جائز گناہ کا نام ہے اور گناہ گناہ برابر ہیں نتیجہ دونوں کا ایک ہے یعنی، عصمت و دوشیزگی کی بربادی۔ ”
"شادی دو گناہوں کی ایک متحدہ شکل کو کہتے ہیں جسے مذہب روا رکھتا ہے۔ ”
"شادی مادّیات کے لحاظ سے، ایک مزیدار سودا ہے جس میں طرفین ایک دوسرے کے ہاتھوں فروخت ہو جاتے ہیں! مگر "اِس مشترک دو عملی ” میں "ماہیّتِ شباب "خسارے میں پڑ جاتی ہے۔ ”
"شادی کرنے والے لوگ، کبھی جوان نہیں ہوتے، اچھے خاصے "آدمی "ہو جاتے ہیں، حالانکہ "آدمیت "محض ایک "حماقت "ہے اور "شباب "ایک روحانی لذّت، ایک ملکوتی کیفیت اور ایک فردوسی شگفتگی و شادابی کا نام ہے ! ”
"حقیقتِ شباب کی اچھُوتی نزاکتیں، نفسانیت کی ٹھیس کبھی نہیں برداشت کر سکتیں! یہ صرف بشریت کی "مجبورانہ بد ذوقی "ہے ! ”
"شباب کا بہترین مصرف یہی ہے کہ اِسے صرف نہ کیا جائے۔ ”
"انسان کے لئے بہت سی شریعتیں ہیں مگر شباب کے لیے صرف ایک، اور وہ اُس کی پارسائی ہے۔ ”
"زہاد و عباد کی پاکبازی، مذہب اور خدا کے خوف سے ہوتی ہے مگر شباب کے قدردانوں کی پاکبازی صرف شباب کے لیے اور یہی اِس کی شعریت کی اوّلین خصوصیت ہے ! ”
"حقیقت میں نوجوان وہ ہے جو اپنی معصومیت اور پارسائی کو مادّی لذائذ کی آلودگیوں سے داغدار نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ ایسی ہستیاں ہمیشہ جوان رہتی ہیں، جیتی ہیں اور۔۔۔۔۔۔ جوان ہی مرتی ہیں! ”
"صباح ” کا پرچہ، نشاطی کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور میز پر سے قہوہ کی ایک خالی پیالی کو ساتھ لیتا ہوا رنگین قالین پر آ گرا۔۔۔۔۔۔۔ سامی بِک کا یہ زبردست مضمون، جس کے اچھوتے بیانات، شباب اور حقائقِ شباب کے بارے میں، ایک عجیب و غریب نظریہ پیش کرنے کے مدّعی تھے۔ نشاطی کی شاعرانہ طبیعت کو مبہوت اور حیران کرنے کو بجلی کی طرح سریع الاثر ثابت ہوا۔ خیالات کے طوفانی ہجوم نے اُسے مہلت نہ دی کہ وہ حسبِ عادت، کتاب کا احترام مّدِ نظر رکھتے ہوئے، صباح کو زمین پرسے اُٹھا لیتا، یا قہوہ کی خوشنما گلابی پیالی کے۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹکڑوں کو جو گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح فرش پر بکھر رہے تھے، دیکھتا۔۔۔۔۔۔۔ کم از کم ایک نگاہِ غلط انداز ہی سے سہی!
اُس کا شعریت پرداز تخیّل، ایک ایسی خواب نما اور نشاط آلود، بہشت کی سیر کر رہا تھا، جس کی نکہت آباد فضاؤں میں، جوانیاں ہی جوانیاں لہرا رہی تھیں! ایک ایسا غبار نما پرستان، جس کی دھندلی، مگر شراب آگیں ہواؤں پر شباب اور صرف شباب کی غیر مرئی، مگر محسوس کیفیتیں تیر رہی تھیں، اُسے ذرا بھی ہوش نہ تھا کہ وہ کہاں ہے ؟ قسطنطنیہ میں اپنے آبائی محل میں، یا برلن میں، جہاں سے وہ پورے پانچ سال کے بعد اِسی ہفتہ اپنے وطن واپس آیا تھا۔ اُس کے دماغ کی سطحِ خیالی پر دو آتشیں لکیریں جھلملا رہی تھیں۔ جن پر "شباب "اور "عصمت "لکھا ہوا محسوس ہوتا تھا، دو طوفانی راگنیاں گونج رہی تھیں۔ جن سے "شباب "اور "عصمت "کے الفاظ مچلتے سنائی دیتے تھے !
اب اُس کے دل میں سامی بک کے خلاف ہلکا سا رشک کا احساس پیدا ہوا۔ جس طرح ایک مہین سوئی کی نوک، جسم کو چھو لیتی ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ ایسی ہی تلخی آمیز خلش کی شکل میں، سامی بک کا نام اُسے یاد آیا۔۔۔۔۔ یہ جدّت آمیز خیالات جو ترکی زبان کے اِس شہرہ آفاق اور ہردلعزیز شاعر اور ادیب نے ظاہر کیے تھے کیا وجہ ہے کہ نشاطی کی زبانِ قلم سے ادانہ ہو سکے ؟ آخر وہ بھی شاعر تھا، ادیب تھا! نوجوان اور حقیقت میں معصوم نوجوان تھا! پھر یہ کیوں ہوا کہ اب تک اُس کے قیامتِ آشوب نے خود اپنی حقیقت اُس سے چھُپائی؟ ہاں وہ کس لیے نشاطی کی ذہنی فضا میں جھلملا کر، اُس کی زبانِ قلم سے چھلک نہ پڑا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "اور لطف یہ ہے کہ میں تو ‘‘۔۔۔۔۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ "میں تو ابھی تک زندگی کی اُن "بد عنوانیوں "سے بچا رہا ہوں جو اِس سامی بک کے قول کے مطابق، شباب کی عصمت و پارسائی کو غارت کر دیتے ہیں! حالانکہ وہ شادی کی غیر شاعرانہ اور شباب آزار حرکت سے آلودہ دامن ہو چکا ہے ! تعجب ہے، ایسا گنہگارِ شباب شخص تو شباب کے تقدّس و روحانیت کو، اِس طرح حقیقت کی روشنی میں لے آئے اور میں ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے کسی قدر غصہ کے انداز میں کہا "میں واقعتاً ایک معصومِ شباب ہو کر، شباب کے حقیقی معارف سے بیگانہ ہوں؟ مگر کچھ پروا نہیں ‘‘۔۔۔۔۔۔ اُس نے سوچتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ "میرے لیے ایک امتیازی فخر اب بھی محفوظ ہے۔۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ اصل چیز عمل ہے، اور میرے لیے، خدا کا شکر ہے کہ عملی دنیا کا دروازہ اب تک کھلا ہے جس میں سامی بک کبھی داخل نہیں ہو سکتا۔ میں ہمیشہ شادی سے بھاگتا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔زہرہ۔۔۔۔۔۔۔ اُسے بچپن کی کوئی بات یاد آ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "اب تو زہرہ جوان ہو گئی ہو گی، وہ بھی کیا زمانہ تھا، جب ہم اکٹھے کھیلتے تھے ! اب تو وہ پوری عورت ہو گئی ہو گی۔ آج کل لڑکیاں بہت جلد جوان ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ خیر کسی دن جاؤں گا۔۔۔۔۔ اوہو! یہ تومیں بھُول ہی گیا تھا۔ صباح کے ایڈیٹر اُسی کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یہاں آئے، ایک ہفتہ سے زیادہ ہوا مگر میں اب تک اُن سے نہیں ملا، جاؤں گا تو بڑے میاں سر کھالیں گے ! نہ معلوم یہ اِتنے بکّی کیوں ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔ خیر، چچا ہوتے مجھے اُن کی عزت کرنی چاہیئے، اور وہ بھی تو مجھ پر کتنے مہربان ہیں! جب میں اُن سے کہوں گا کہ میں نے سامی بک کے خیالات پر عمل درآمد کرنے کی ٹھان لی ہے تو وہ کیسے متعجب ہوں گے !۔۔۔۔۔۔۔۔ بیحد متعجب اور کوئی تعجب نہیں، اگر وہ نصیحتوں کے تلخ گھونٹ بھی حلق سے نیچے اتارنا چاہیں! بہر کیف، اب میں اپنی جگہ سے بال برابر تو ہٹوں گا نہیں میں دُنیا کو عملاً دِکھانا چاہتا ہوں کہ شباب کی عصمت کیا ہوتی ہے ؟ اور اُسے کیونکر محفوظ رکھتے ہیں؟ انشاءاللہ! اُس نے کسی قدر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ "وہ دِن دُور نہیں، جب میں لوگوں کے خیالات کے سٹیج پر ایک "فرشتۂ شباب ” بن کر نمودار ہوں گا۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے تئیں اِس بات کا مستحق بناؤں گا کہ دُنیا بھر کے افسانہ نگار اور شاعر اپنی رومانی روایات میں مجھے ایک "رب النوع "کی حیثیت سے یاد کریں! مگر۔۔۔۔۔ دُنیا سے کیا غرض ہے ؟ مجھے تو صرف اپنی ذات، اور اپنے شباب سے سروکار ہے، خیر جہاں یہ شعریت، میرے شباب کو چار چاند لگا دے گی، وہاں کیا ہرج ہے، اگر دُنیا کی بد مذاقی کی آنکھوں میں چکا چوند پیدا کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال اب مجھے چچا نیازی سے ضرور ملنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔
"آفندم! کیا اور قہوہ حاضر کیا جائے ؟ ایں یہ تو۔ ”
ایک حبشی خواجہ سرا کی آواز، کمرہ میں گونج اُٹھّی اور وہ پیالی کے ٹکڑے اُٹھانے لگا۔ "اے۔۔۔۔۔۔۔۔ ! تجھے معلوم ہے نا، چچا نیازی نے نیا مکان کہاں بنوایا ہے ؟ سُنا برخوردار! نشاطی نے حسب عادت مذاقیہ لہجہ میں کہا اور حبشی غلام نے اِس عزّت افزائی پر خوش ہو کر دانت نکال دئیے۔
کیوں آفندی! کیا اپنی دلہن کو دیکھنے جائیے گا؟ منہ لگے خواجہ سرا نے پوچھا اور پھر اپنے سیاہ ہونٹوں سے سپید سپید دانت چمکاتے ہوئے پیالی کے ٹکڑے اُٹھانے لگا۔ "ابے دلہن کیسی؟ بدمعاش کہیں کا! ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نشاطی نے ایک ڈانٹ بتائی۔
"آفندی! یہاں تو سب میں مشہور ہے کہ آپ کی شادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
"چل دور ہو پاجی! جا کے موٹر باہر نکال۔ ”
اور خواجہ سرا بدستور خواہ مخواہ، دانتوں کی نمائش کرتا ہوا کمرہ سے باہر نکل گیا۔

اختر شیرانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button