تماشائے عبرت
یعنی وہ
قومی مسدس
جس کو علامہ شبلی نے قومی تھیٹر علی گڑھ میں اپنے پر درد و پُر سوز لہجہ میں پڑھا تھا
آج کی رات یہ کیوں جمع ہیں احباب بہم
بھیڑ کیا ہے نظر آتا ہے یہ کیسا عالم
نوجوانان ہنر پرور و ارباب ہمم
جوق کے جوق چلے آتے ہیں کیسے پیہم
کچھ سمجھ میں نہیں آتا جو سب سمجھے ہیں
شاید اس بزم کو یہ بزم طرب سمجھے ہیں
ہے گمان ان کو کہ آیا ہے تھئیٹر کوئی
یا کہ اس سے بھی تماشا ہے یہ بڑھ کر کوئی
اس سبھا میں بھی نظر آئے گا اندر کوئی
مسخرہ بن کے بھی آئے گا مقرر کوئی
نقل وہ ہو گی کہ دیکھی نہ سنی ہو گی کبھی
سیر وہ آج کریں گے کہ نہ کی ہو گی کبھی
کوئی کہتا ہے تھیٹر تو نہیں ہے لیکن
ساز و نغمہ بھی نہ ہو ساتھ نہیں ہے ممکن
راتیں کاٹی ہیں اسی شوق میں تارے گن گن
دیکھیں کیا سیر دکھائیں یہ بزرگان مِسن
کچھ نہ کچھ تازہ کرامات تو ہو گی آخر
بوڑھے غمزوں میں کوئی بات تو ہو گی آخر
دوستو کیا تمہیں سچ مچ ہے تھیئٹر کا یقین
کیا یہ سمجھے تھے کہ پردہ کوئی ہو گا رنگین
نظر آئے گی جو سوئی ہوئی اک زہرہ جبین
آئے گا پھول کے لینے کو ارم کا گلچین
قوم کی بزم کو یوں کھیل تماشا سمجھے
ہائے گر آپ یہ سمجھے بھی تو بیجا سمجھے
ہائے افسوس کہ ہو قوم تو یوں خستہ و زار
مرض الموت میں جس طرح سے کوئی بیمار
نہ معالج ہو کوئی پاس نہ سر پر غمخوار
نظر آتے ہوں دم نزع کے سارے آثار
واں تو یہ حال کہ مرنے بھی کچھ دیر نہیں
آپ ادھر سیر تماشے سے ابھی سیر نہیں
نوحہ غم ہے، یہاں نغمہ عشرت کیسا
ہے یہ عبر کا سماں جوش مسرت کیسا
ہے جنوں خیز یہ ہنگامہ عبرت کیسا
قوم کا حال ہے غفلت کی بدولت کیسا
ہے عجب سیر اگر دیدہ بینا دیکھے
دیکھنا ہو جسے عبرت کا تماشا دیکھے
ہائے کیا سین ہے یہ بھی کہ گر وہ شرفا
صاحب افسر و اورنگ تھے جن کے آبا
قوم کے عقدہ مشکل کے ہیں جو عقدہ کشا
ایکٹر بن کے وہ اسٹیج پر ہیں جلوہ نما
قوم کے خوابِ پریشاں کی یہ تعبیریں ہیں
ایکٹر یہ نہیں عبرت کی یہ تصویریں ہیں
بانی مدرسہ وہ سید والا گوہر
وہ مینیجنگ کمیٹی کے معزز ممبر
شبلی غمزدہ وہ شاعر اعجاز اثر
اور یہ نو بادہ اقبال کے سب برگ و ثمر
نہ تکلیف کے کچھ انداز نہ کچھ جاہ کی شان
بزم میں آئے ہیں اس حال سے اللہ کی شان
اپنے رتبوں کا نہ کچھ دھیان نہ کچھ وضع کا پاس
دوستوں سے نہ جھجک اور نہ دشمن سے ہراس
گرچہ سب کہتے ہیں حاصل نہیں کچھ بھی جز یاس
ہائے کیا دھن ہے کہ پھر بھی تو نہیں ٹوٹتی آس
غرض مطلب کی ہے تصویر سراپا ان کا
ہاتھ خود کاسہ دریوزہ ہے گویا اُن کا
ان کا ہر لفظ ہے اک مرثیہ جاں فرسا
قوم کی شان دکھا دیتی ہے ایک ایک ادا
دیکھ اے قوم جو اب تک نہ تھا تو نے دیکھا
اپنے بگڑے ہوئے انداز کا پورا خاکا
گرچہ تدبیر بھی ہم سے نہیں کچھ کی جاتی
ہائے حالت بھی تو تیری نہیں دیکھی جاتی
یوں بھلانے کو تو ہم دل سے بھلاتے ہیں مگر
یاد آ جاتے ہیں پھر بھی ترے اگلے جوہر
وہ بھی اک دن تھا کہ جس سمت سے ہوتا تھا گذر
ساتھ چلتے تھے جلو میں ترے اقبال و ظفر
تو کبھی روم میں قیصر کو مٹا کر آئی
کبھی یورپ میں نئے فتنے اٹھا کر آئی
تھے نقیبوں میں ترے دولت و اقبال و حشم
ترے حملوں سے دہل جاتا تھا سارا عالم
ایشیا کو جو کیا تو نے مرقع برہم
جا کے یورپ کے افق پر بھی اڑایا پرچم
کر دیا دفتر ِ تاتار کو ابتر تو نے
نیزہ گاڑا تھا جگر گاہ تتر پر تو نے
کون تھا جس نے فارس و یوناں تاراج
کس کی آمد میں فدا کر دیا جیپال نے راج
کس کو کسریٰ نے دیا تخت و زر وافر و تاج
کس کے دربار میں تاتار سے آتا تھا خراج
تجھ پہ اے قوم اثر کرتا ہے افسوں جن کا
یہ وہی تھے کہ رگوں میں ہے ترے خوں جن کا
ہم نے مانا بھی کہ دل سے بھلا دیں قصے
یہ سمجھ لیں کہ ہم ایسے ہی تھے اب ہیں جیسے
یہ بھی منظور ہے ہم کو کہ ہمارے بچے
دیکھنے پائیں نہ تاریخ عرب کے صفحے
کبھی نہ بھولے بھی سلف کو نہ کریں یاد اگر
یادگاروں کو زمانے سے مٹا دیں کیونکر
مردہ شیراز و صفاہان کے وہ زیبا منظر
بیت حمرا کے وہ ایوان وہ دیوار وہ در
مصر و غرناطہ و بغداد کا ایک ایک پتھر
اور وہ دہلی مرحوم کے بوسیدہ کھنڈر
ان کے ذروں میں چمکتے ہیں وہ جوہر اب تک
داستانیں انہیں سب یاد ہیں ازبر اب تک
ان سے سن کے کوئی افسانہ یارانِ وطن
یہ دکھا دیتی ہیں آنکھوں کو وہی خواب کہن
تیرے ہی نام کا اے یہ گاتے ہیں بھجن
تیرے ہی نغمہ پُر درد کے ہیں یہ ارگن
پوچھتا ہے جو کوئی ان سے نشانی تیری
یہ سنا دیتے ہیں سب رام کہانی تیری
شبلی نعمانی