ظلم مٹتا نہیں معافی سے
چین آتا ہے بس تلافی سے
جب سے لازم ہوا ہے وہ مجھ پر
لوگ لگنے لگے اضافی سے
اس کو بھاتی ہیں جھیل سی آنکھیں
میرے دو نین ہیں غلافی سے
یوں تو کرتا ہے جاں فِدا مجھ پر
کام لیتا ہے ___انحرافی سے
کیسے کہہ دوں خفا نہیں ہو تم
سن کے الفاظ اختلافی سے
میرے زخموں پہ رکھ دیا مرہم
وہ جو لایا تھا ربِّ شافی سے
اس پہ چنداں اثر نہیں ہوتا
سر ہلاؤں بھی گر منافی سے
منزّہ سیّد