ایلسا نے جیسے ہی ریمپ پر پہلا قدم رکھا، روشنیوں نے اسے یوں گھیرا جیسے کسی دیوی کا نزول ہوا ہو۔ اس کی موجودگی نے فضا کو بدل کر رکھ دیا۔ ہال میں بیٹھے ہر شخص کی آنکھیں اس پر جمی تھیں، گویا وقت تھم گیا ہو۔ اس کے بدن پر سیاہ پٹیوں کا انوکھا امتزاج تھا، جو اس کے جسم کی پیچیدہ خوبصورتی کو نہ صرف نمایاں کر رہا تھا بلکہ اس کی ہر حرکت کو ایک جادوئی راز میں بدل رہا تھا۔ ہر پٹی، ہر خم، ایک کہانی تھی، ایک سوال تھا، اور ایک جواب بھی۔
ایلسا کا بدن جیسے آرٹ کا ایک زندہ شاہکار تھا۔ وہ چلتی تو اس کے قدموں کی گونج جیسے دلوں کو جھنجھوڑ دیتی۔ ہر پٹی ایک دھڑکن کو جنم دیتی، ہر زاویہ ایک آرزو کو بیدار کرتا۔ اس کے بدن کی حرارت اور اعتماد نے ہال کی فضاء کو ایسا کر دیا جیسے ہر دیوار میں جان آ گئی ہو۔ لیکن یہ محض ایک جسم کی کہانی نہیں تھی۔ یہ وجود کی آزادی، خوبصورتی کی حقیقت اور معاشرتی زنجیروں سے بغاوت کا اعلان تھا۔
ایلسا ہمیشہ سے اپنی حدود کو توڑنا چاہتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ انسان کا جسم صرف ایک پردہ نہیں بلکہ ایک پیغام ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ دنیا یہ سمجھے کہ خوبصورتی چھپانے کی نہیں بلکہ منانے کی چیز ہے۔ اس کے قدموں میں اعتماد تھا، مگر اس کے قدموں کی یہ گونج ہال میں موجود ہر فرد کے دل میں ایک سوال چھوڑ رہی تھی: کیا ہم اپنے وجود کو قبول کرنے سے ڈرتے ہیں؟
ہال میں بیٹھے کچھ لوگ ایلسا کی ہر حرکت کو شدت سے دیکھ رہے تھے، ان کے چہروں پر تعریف اور حیرت کے جذبات تھے۔ کچھ کی نظروں میں حسرت جھلک رہی تھی، اور کچھ کی پیشانی پر ناپسندیدگی کے بل پڑے ہوئے تھے۔ مگر ایلسا ان سب سے بے پرواہ تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا مقصد ان جذبات کو چھیڑنا ہے جنہیں معاشرتی روایات نے گہری نیند سلا دیا ہے۔
اس کے چہرے پر سکون بھری مسکراہٹ تھی جب اس نے اسٹیج چھوڑا۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ یہ طوفان لوگوں کو ان کی حقیقت سے آشنا کرنے کے لیے تھا۔ یہ لمحہ ایلسا کی جیت کا اعلان تھا، اس کی بغاوت کی تکمیل تھی۔ اس کے لیے یہ شو محض ایک فیشن ایونٹ نہیں بلکہ ایک انقلابی بیانیہ تھا۔
ایلسا نے ثابت کیا کہ خوبصورتی صرف دیکھنے کی چیز نہیں بلکہ محسوس کرنے کی طاقت ہے۔ اس کے قدموں کی گونج، اس کے بدن کا پیام، اور اس کی مسکراہٹ کا سکون ایک چیز کہہ رہا تھا:
"خود کو آزاد کرو، اپنے وجود کی حقیقت کو قبول کرو، اور اپنے اندر کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے لاؤ۔”
شاکرہ نندنی