اس کا پتی
لوگ کہتے تھے کہ نتھو کا سر اس لیے گنجا ہوا ہے کہ وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے اس بیان میں کافی صداقت ہے۔ کیونکہ سوچتے وقت نتھو سر کھجلایا کرتا ہے۔ چونکہ اس کے بال بہت کھردرے اور خشک ہیں اور تیل نہ ملنے کے باعث بہت خستہ ہو گئے ہیں۔ اس لیے بار بار کھجلانے سے اُس کے سر کے درمیانی حصّہ بالوں سے بالکل بے نیاز ہو گیا ہے۔ اگر اس کا سر ہر روز دھویا جاتا تو یہ حصّہ ضرور چمکتا۔ مگر میل کی زیادتی کے باعث اس کی حالت بالکل اُس توے کی سی ہو گئی ہے جس پر ہر روز روٹیاں پکائی جائیں۔ مگر اسے صاف نہ کیا جائے۔
نتھو بھٹے پر اینٹیں بنانے کا کام کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر اپنے خیالات کو کچی اینٹیں سمجھتا تھا اور کسی پر فوراً ہی ظاہر نہیں کیا کرتا تھا۔ اس کا یہ اصول تھا کہ خیال کو اچھی طرح پکا کر باہر نکالنا چاہیے تاکہ جس عمارت میں بھی وہ استعمال ہو اس کا ایک مضبوط حصّہ بن جائے۔
گاؤں والے اس کے خیالات کی قدر کرتے تھے۔ اور مشکل بات میں اس سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ لیکن اس قدر حوصلہ افزائی سے نتھو اپنے آپ کو اہم نہیں سمجھنے لگا تھا۔ جس طرح گاؤں میں شمبھو کا کام ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہنا تھا۔ اسی طرح اُس کا کام ہر وقت دوسروں کو مشورہ دیتے رہنا تھا۔ وہ سمجھتا تھا۔ کہ ہر شخص صرف ایک کام لیے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ شمبھو کے بارے میں چوپال پر جب کبھی ذکر چھڑتا۔ تو وہ ہمیشہ یہی کہا کرتا تھا۔ کھاد کتنی بدبودار چیزوں سے بنتی ہے پر کھیتی باڑی اس کے بنا ہو ہی نہیں سکتی۔ شمبھو کے ہر سانس میں گایوں کی باس آتی ہے، ٹھیک ہے، پر گاؤں کی چہل پہل اور رونق بھی اسی کے دم سے قائم ہے……. اگر وہ نہ ہو تو لوگوں کو کیسے معلوم ہو کہ گالیاں کیا ہوتی ہیں۔ اچھے بول جاننے کے ساتھ ساتھ بُرے بول بھی معلوم ہونے چاہئیں۔‘‘
نتھو بھٹے سے واپس آ رہا تھا۔ اور حسبِ معمول سر کھجلاتا گاؤں کے کسی مسئلے پر غور فکر کر رہا تھا۔ لالٹین کے کھمبے کے پاس پہنچ کر اس نے اپنا ہاتھ سر سے علیحدہ کیا۔ جس کی انگلیوں سے وہ بالوں کا ایک میل بھرا گچھا مروڑ رہا تھا۔ وہ اپنے جھونپڑے کے تازہ لپے ہُوئے چبوترے کی طرف بڑھنے ہی والا تھا کہ سامنے سے اُسے کسی نے آواز دی۔ نتھو پلٹا اور اپنے سامنے والے جھونپڑے کی طرف بڑھا۔ جہاں مادھو اسے ہاتھ کے اشارے سے بلا رہا تھا۔
جھونپڑے کے چھجے کے نیچے چبوترے پر مادھو۔ اس کا لنگڑا بھائی اور چوہدری بیٹھے تھے۔ اُن کے اندازِ نشست سے ایسا معلوم ہوتا تھا۔ کہ وہ کوئی نہایت ہی اہم بات سوچ رہے ہیں۔ سب کے چہرے کچی اینٹوں کے مانند پیلے تھے۔ مادھو تو بہت دنوں کا بیمار دکھائی دیتا تھا۔ ایک کونے میں طاقچے کے نیچے رُوپا کی ماں بیٹھی ہوئی تھی۔ غلیظ کپڑوں میں وہ میلے کپڑوں کی ایک گٹھڑی دکھائی دے رہی تھی۔
نتھو نے دُور ہی سے معاملے کی نزاکت محسوس کی اور قدم تیز کرکے اُن کے پاس پہنچ گیا۔ مادھو نے اشارے سے اُسے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔ نتھو بیٹھ گیا۔ اور اس کا ایک ہاتھ غیر ارادی طور پر اپنے بالوں کے اُس گچھے کی طرف بڑھ گیا جس کی جڑیں کافی ہل چکی تھیں۔ اب وہ ان لوگوں کی باتیں سننے کے لیے بالکل تیار تھا۔
مادھو اُس کو اپنے پاس بٹھا کر خاموش ہو گیا۔ مگر اس کے کپکپاتے ہوئے ہونٹ صاف ظاہر کر رہے تھے کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔ لیکن فوراً نہیں کہہ سکتا۔ مادھو کا لنگڑا بھائی بھی خاموش تھا۔ اور بار بار اپنی کٹی ہوئی ٹانگ کے آخری ٹنڈ منڈ حصّے پر جو گوشت کا ایک بدشکل لوتھڑا سا بنا ہوا تھا۔ ہاتھ پھیر رہا تھا۔ رُوپا کی ماں طاقچے میں رکھی ہُوئی مورتی کے مانند گونگی بنی ہُوئی تھی۔ اور چوہدری اپنی مونچھوں کو تاؤ دینا بھول کر زمین پر لکیریں بنا رہا تھا۔ نتھو نے خود ہی بات شروع کی۔ ’’تو…….. ‘‘
مادھو بولا۔ نتھو بات یہ ہے کہ…… بات یہ ہے کہ…… اب میں تمہیں کیا بتاؤں کہ بات کیا ہے….. میں کچھ کہنے کے قابل نہ رہا….. چوہدری! تم ہی جی کڑا کرکے سارا قصّہ سنا دو‘‘۔ ننھو نے گردن اُٹھا کر چوہدری کی طرف دیکھا مگر وہ کچھ نہ بولا۔ اور زمین پر لکیریں بناتا رہا۔ دوپہر کی اُداس فضا بالکل خاموش تھی۔ البتہ کبھی کبھی چیلوں کی چیخیں سُنائی دیتی تھیں۔ اور جھونپڑے کے داہنے ہاتھ گھُورے پر جو مُرغ کوڑے کو کُرید رہا تھا۔ کبھی کبھی کسی مُرغی کو دیکھ کر بول اُٹھتا تھا۔
چند لمحات تک جھونپڑے کے چھجے کے نیچے سب خاموش رہے۔ اور نتھو معاملے کی نزاکت اچھی طرح سمجھ گیا…….. رُوپا کی ماں نے رونی آواز میں کہا۔ ’’میرے پھوٹے بھاگ!……… اس کو تو جو کچھا جڑنا تھا اُجڑی، مجھ ابھاگن کی ساری دنیا برباد ہو گئی…….. کیا اب کچھ نہیں ہوسکتا‘‘؟ مادھو نے کندھے ہلا دئیے اور نتھو سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’کیا ہو سکتا ہے؟…… بھئی میں یہ کلنک کا ٹیکہ اپنے ماتھے پر لگانا نہیں چاہتا…… میں نے جب اپنے لالو کی بات رُوپا سے پکی کی تھی تو مجھے یہ قصّہ معلوم نہیں تھا……… اب تم لوگ خود ہی وچار کرو کہ سب کچھ جانتے ہُوئے میں اپنے بیٹے کا بیاہ رُوپا سے کیسے کر سکتا ہوں‘‘؟
یہ سُن کر نتھو کی گردن اٹھی۔ وہ شاید یہ پوچھنا چاہتا تھا۔ کہ لالو کا بیاہ کیا ہو گیا۔ کہ رُوپا لالو کے قابل نہیں رہی وہ رُوپا اور لالو کو اچھی جانتا تھا۔ اور سچ پوچھو تو گاؤں میں ہر شخص ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ کون سی بات تھی جو اسے ان دونوں کے بارے میں معلوم نہ تھی۔ رُوپا اس کی آنکھوں کے سامنے پھُولی پھلی، بڑھی اور جوان ہُوئی۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اس نے اس کے گال پر ایک زور کا دھپّا بھی مارا تھا اور اس کو اتنی مجال نہ ہوئی تھی کہ چوں بھی کرے۔ حالانکہ گاؤں کے سب چھوکریاں چھوکرے گستاخ تھے اور بڑوں کا بالکل ادب نہ کرتے تھے۔ رُوپا تو بڑی بھولی بھالی لڑکی تھی۔ باتیں بھی بہت کم کرتی تھی اور اس کے چہرے پر بھی کوئی ایسی علامت نہ تھی۔ جس سے یہ پتہ چلتا کہ وہ کوئی شرارت بھی کر سکتی ہے پھر آج اس کی بابت یہ باتیں کیوں ہو رہی تھیں۔
نتھو کو گاؤں کے ہر جھونپڑے اور اس کے اندر رہنے والوں کا حال معلوم تھا۔ مثال کے طور پر اُسے معلوم تھا کہ چوہدری کی گائے نے صبح سویرے ایک بچھڑا دیا ہے اور مادھو کے لنگڑے بھائی کی بیساکھی ٹوٹ گئی ہے۔ گاما حلوائی اپنی مونچھوں کے بال چن رہا تھا کہ اُس کے ہاتھ سے آئینہ گر کر ٹوٹ گیا۔ اور ایک سیر دودھ کے پیسے نائی کو بطور قیمت دینا پڑے…..اسے یہ بھی معلوم تھا۔ کہ دواپلوں پر پوسرام اور گنگو کی چخ پخ ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ اور سالگ رام نے اپنے بچوں کو پاپڑ بھون کر کھلائے تھے۔ حالانکہ وید جی نے منع کیا تھا کہ ان کو مرچوں والی کوئی چیز نہ دی جائے۔ نتھو حیران تھا کہ ایسی کونسی بات ہے جو اسے معلوم نہیں۔ یہ تمام خیالات اُس کے دماغ میں ایک دم آئے اور وہ مادھو کاکا سے اپنی حیرت دُور کرنے کی خاطر کوئی سوال کرنے ہی والا تھا کہ چوہدری نے زمین پر طوطے کی شکل یکرتے ہوئے کہا۔ ’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا……. تھوڑے ہی دنوں میں وہ بچے کی ماں بن جائے گی۔‘‘
تو یہ بات تھی۔ نتھو کے دل پر ایک گھونسہ سا لگا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ دوپہر کی دھوپ میں اُڑنے والی ساری چیلیں اُس کے دماغ میں گھُس کر چیخنے لگی ہیں۔ اس نے اپنے بال زیادہ تیزی سے مروڑنے شروع کر دئیے۔ مادھو کاکا، نتھو کی طرف جھُکا اور بڑے دُکھ بھرے لہجے میں اس سے کہنے لگا ’’بیٹاتمہیں یہ بات تو معلوم ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کی بات رُوپا سے پکی کی تھی۔ اب میں تم سے کیا کہوں….. ذرا کان ادھر لاؤ۔ اُس نے ہولے سے نتھو کے کان میں کچھ کہا۔ اور پھر اُسی لہجے میں کہنے لگا۔ ’’کتنی شرم کی بات ہے۔ میں تو کہیں کا نہ رہا۔ یہ میرا بڑھاپا اور یہ جان لیوا دُکھ اور تو اور لالو کو بتاؤ کتنا دُکھ ہوا ہو گا…… تمہیں انصاف کرو۔ کہ لالو کی شادی اب اس سے ہو سکتی ہے…….. لالو کی شادی تو ایک طرف رہی، کیا ایسی لڑکی ہمارے گاؤں میں رہ سکتی ہے……. کیا اس کے لیے ہمارے یہاں کوئی جگہ ہے؟‘‘
نتھو نے سارے گاؤں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ اور اُسے ایسی جگہ نظر نہ آئی جہاں رُوپا اپنے باپ سمیت رہ سکتی تھی۔ البتہ اس کا ایک جھونپڑا تھا جس میں وہ چاہے کسی کو بھی رکھتا۔ پچھلے برس اُس نے کوڑھی کو اس میں پناہ دی تھی۔ حالانکہ سارا گاؤں اُسے روک رہا تھا۔ اور اُسے ڈرا رہا تھا۔ کہ دیکھو یہ بیماری بڑی چھوت والی ہوتی ہے ایسی نہ ہو کہ تمہیں چمٹ جائے لیکن وہ اپنی مرضی کا مالک تھا۔ اس نے وہی کچھ کیا جو اس کے من نے اچھا سمجھا۔ کوڑھی اس کے گھر میں پورے چھ مہینے رہ کر مر گئی لیکن اُسے بیماری ویماری بالکل نہ لگی۔ اگر گاؤں میں رُوپا کے لیے کوئی جگہ نہ رہے تو کیا اس کا یہ مطلب تھا کہ اُسے ماری ماری پھرنے دیا جائے۔ ہر گز نہیں، نتھو اس بات کا قائل نہیں تھا کہ دُکھی پر….. اور دُکھ لاد دئیے جائیں۔ اس کے جھونپڑے میں ہر وقت اُس کے لیے جگہ تھی۔
وہ چھ مہینے تک ایک کوڑھی کی تیمارداری کر سکتا تھا اور رُوپا کوڑھی تو نہیں تھی…….. کوڑھی تو نہیں تھی، یہ سوچتے ہوئے نتھو کا دماغ ایک گہری بات سوچنے لگا…… رُوپا کوڑھی نہیں تھی، اس لیے وہ ہمدردی کی زیادہ مستحق بھی نہیں تھی۔ اُسے کیا روگ تھا؟……. کچھ بھی نہیں جیسا کہ یہ لوگ کہہ رہے تھے وہ تھوڑے ہی دنوں میں بچے کی ماں بننے والی تھی، پر یہ بھی کوئی روگ ہے۔ اور کیا ماں بننا کوئی پاپ ہے؟ ہر لڑکی عورت بننا چاہتی ہے اور عورت ماں اُس کی اپنی استری ماں بننے کے لیے تڑپ رہی تھی۔ اور وہ خود یہ چاہتا تھا کہ وہ جلدی مان بن جائے۔ اس لحاظ سے بھی رُوپا کا ماں بننا کوئی ایسا جُرم نہیں تھا جس پر اُسے کوئی سزا دی جائے یا پھر اسے رحم کا مستحق قرار دیا جائے۔ وہ ایک کے بجائے دو بچے جنے۔ اس سے کسی کا کیا بگڑتا تھا۔ وہ عورت ہی تو تھی۔ مندر میں گڑی ہُوئی دیوی تو تھی نہیں۔ اور پھر یہ لوگ خواہ مخواہ کیوں اپنی جان ہلکان کر رہے تھے۔ مادھو کاکا کے لڑکے سے اس کی شادی ہوتی تو بھی کبھی نہ کبھی بچہ ضرور پیدا ہوتا۔ اب کونسی آفت آ گئی تھی۔ یہ بچہ جو اب اس کے پیٹ میں تھا۔ کہیں سے اُڑ کر تو نہیں آ گیا۔ شادی بیاہ ضرور ہوا ہو گا۔ یہ لوگ باہر بیٹھے آپ ہی فیصلہ کر رہے ہیں۔ اور جس کی بابت فیصلہ ہو رہا ہے۔ اُس سے کچھ پوچھتے ہی نہیں۔ گویا وہ بچہ نہیں۔ بلکہ یہ خود جن رہے ہیں۔ عجیب بات تھی۔ اور پھر ان کو بچے کی کیا فکر پڑ گئی تھی۔ بچے کی فکر یا تو ماں کرتی ہے یا اس کا باپ……… باپ؟….. اور مزہ دیکھیے کہ کوئی بچے کے باپ کی بات ہی نہیں کرتا تھا۔
یہ سوچھتے ہوئے نتھو کے دماغ میں ایک بات آئی۔ اور اُس نے مادھو کاکا سے کہا۔ ’’جو کچھ تم نے کہا۔ اُس سے مجھے بڑا دُکھ ہوا۔ پر تم نے یہ کیسے کہہ دیا۔ کہ رُوپا کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں…….. ہم سب اپنے اپنے جھونپڑوں کو تالے لگا دیں تو بھی اس کے لیے ایک دروازہ کھُلا رہتا ہے۔‘‘ چوہدری نے زمین پر طوطے کی آنکھ بناتے ہوئے کہا۔ ’’توبہ کا!‘‘
نتھو نے جواب دیا۔ ’’اُن کے لیے جو پاپی ہوں……. رُوپا نے کوئی پاپ نہیں کیا۔ وہ نردوش ہے!‘‘
چوہدری نے حیرت سے مادھو کاکا کی طرف دیکھا اور کہا۔’’اس نے پوری بات نہیں سُنی۔‘‘ مادھو کا لنگڑا بھائی اپنی کٹی ہوئی ٹانگ پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ نتھو رُوپا کی ماں سے مخاطب ہوا۔ ’’ابھی سُن لیتا ہوں……. رُوپا کہاں ہے؟‘‘ رُوپا کی ماں نے اپنی کھُردری انگلیوں سے آنسو پونچھے اور کہا۔ ’’اندر بیٹھی اپنے نصیبوں کو رو رہی ہے۔‘‘ یہ سن کر نتھو نے اپنا سر ایک بار زور سے کھجلایا اور اُٹھ کر کمرے کے اندر چلا گیا۔
رُوپا اندھیری کوٹھڑی کے ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اُس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ میلے کچیلے کپڑوں میں اندھیرے کے اندر وہ گیلی مٹی کا ڈھیر سا دکھائی دے رہی تھی۔ جو باتیں باہر ہو رہی تھیں۔ ان کا ایک ایک لفظ اُس نے سُنا تھا حالانکہ اُس کے کان اُس کے اپنے دل کی باتیں سننے میں لگے ہوئے تھے۔ جو کسی طرح ختم ہی نہ ہوتی تھیں۔ نتھو اندر آنے کے لیے اُٹھا۔ تو وہ دوڑ کر سامنے کی کھٹیا پر جا پڑی اور گدڑی میں اپنا سر منہ چھپا لیا۔ نتھو نے جب دیکھا کہ رُوپا چھُپ گئی ہے تو اسے بڑی حیرت ہُوئی۔ اُس نے پوچھا۔ ’’ارے مجھ سے کیوں چھپتی ہو؟‘‘
رُوپا رونے لگی اور اپنے آپ کو کپڑے میں اور لپیٹ لیا۔ وہ بغیر آواز کے رو رہی تھی۔ مگر نتھو کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ رُوپا کے آنسو اس کے تپتے ہوئے دل پر گر رہے ہیں۔ اس نے گدڑی کے اس حصّہ پر ہاتھ پھیرا جس کے نیچے رُوپا کا سر تھا۔ اور کہا۔ تم مجھ سے کیوں چھپتی ہو؟ رُوپا نے سسکیوں میں جواب دیا رُوپا نہیں چھپتی نتھو!…… وہ اپنے پاپ کو چھپا رہی ہے۔‘‘
نتھو اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اور کہنے لگا ‘‘۔ کیسا پاپ….. تم نے کوئی پاپ نہیں کیا……. اور اگر کیا بھی ہو تو اُسے چھپانا چاہئے۔ یہ تو خود ایک پاپ ہے…… میں تم سے صرف ایک بات پوچھنے آیا ہوں۔ مجھے یہ بتا دو کہ کس نے تمہاری سدا ہنستی آنکھوں میں یہ آنسو بھر دیے ہیں۔ کس نے اس بالی عمر میں تمہیں پاپ اور پن کے جھگڑے میں پھنسا دیا ہے؟‘‘ ’’میں کیا کہوں؟ رُوپا یہ کہہ کر گدڑی میں اور سمٹ گئی۔ نتھو بولتا تھا اور رُوپا کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی اسے اکٹھا کر رہا ہے اُسے سکیڑ رہا ہے۔
نتھو نے بڑی مشکل سے رُوپا کے منہ سے کپڑا ہٹایا اور اُس کو اُٹھا کر بٹھا دیا۔رُوپا نے دونوں ہاتھوں میں اپنے منہ کو چھپا لیا اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ اس سے نتھو کو بہت دُکھ ہوا۔ ایک تو پہلے اُسے یہ چیز ستا رہی تھی کہ ساری بات اُس کے ذہن میں مکمل طور پر نہیں آتی۔ اور دوسرے رُوپا اُس کے سامنے رو رہی تھی۔ اگر اُسے ساری بات معلوم ہوتی تو وہ اُس کے یہ آنسو روکنے کی کوشش کر سکتا تھا۔ جو میلی گدڑی میں جذب ہو رہے تھے۔ مگر اس کو سوائے اس کے اور کچھ معلوم نہیں تھا۔ کہ رُوپا تھوڑے ہی دنوں میں بچے کی ماں بننے والی ہے۔
اُس نے پھر اُس سے کہا۔ ’’رُوپا تم مجھے بتاتی کیوں نہیں ہو…….. نتھو بھیّا تم سے پوچھ رہا ہے اور وہ کوئی غیر تھوڑی ہے، جو تم یوں اپنے من کو چھپا رہی ہو….. تم روتی کیوں ہو۔ غلطی ہو ہی جایا کرتی ہے…….. لالو کی کسی اور سے شادی ہو جائے گی اور تم اپنی جگہ خوش رہو گی….. تمہیں دنیا کا ڈر ہے تو میں کہوں گا کہ تم بالکل بیوقوف ہو، لوگوں کے جو جی میں آئے کہیں تمہیں اس سے کیا……. رونے دھونے سے کچھ نہیں ہو گا رُوپا، آنسو بھری آنکھوں سے نہ تم مجھے ہی ٹھیک طور سے دیکھ سکتی ہو اور نہ اپنے آپ کو…… رونا بند کرو اور مجھے ساری بات بتاؤ۔‘‘
رُوپا کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ اس سے کیا کہے، وہ دل میں سوچتی تھی کہ اب ایسی کون سی بات رہ گئی ہے جو دنیا کو معلوم نہیں۔ یہی سوچتے ہوئے اس نے نتھو سے کہا۔ ’’نتھو بھیّا، مجھ سے زیادہ تو دوسروں کو معلوم ہے میں تو صرف اتنا جانتی ہُوں۔ کہ جو کچھ میں سوچتی تھی ایک سپنا تھا، یوں تو ہر چیز سُپنا ہوتی تھی۔ پر یہ سپنا بڑا ہی عجیب ہے۔ کیسے شروع ہوا۔ کیونکر ختم ہُوا۔ اس کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا بس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام دن جو میں کبھی خوشی سے گزارتی تھی۔ آنکھوں میں آنسو بننا شروع ہو گئے ہیں…… میں گھڑا لے کر اچھلتی کودتی، گاتی کنوئیں پر پانی بھرنے گئی۔ پانی بھر کر جب واپس آنے لگی تو ٹھوکر لگی اور گھڑا چکنا چور ہو گیا۔ مجھے بڑا دُکھ ہوا۔ میں نے چاہا کہ اس ٹوٹے ہوئے گھڑے کے ٹکڑے اٹھا کر جھولی میں بھر لوں پر لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا، نقصان میرا ہوا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ مجھ سے ہمدردی کرتے۔ پر انھوں نے الٹا مجھے ہی ڈانٹنا شروع کر دیا۔ گویا گھڑا ان کا تھا اور توڑنے والی میں تھی اور اس روڑے کا کوئی قصور ہی نہ تھا جو راستے میں پڑا تھا۔ اور جس سے دوسرے بھی ٹھوکر کھا سکتے تھے…… تم مجھ سے کچھ نہ پوچھو مجھے کچھ یاد نہیں رہا۔‘‘
نتھو کی انگلیاں زیادہ تیزی سے بالوں کا گچھا مروڑنے لگیں۔ اُس نے بڑے اضطراب سے کہا۔ ’’میں صرف پوچھتا ہوں کہ وہ ہے کون؟‘‘ ’’کون؟‘‘ ’’وہی…… وہی…….‘‘ رُوپا اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکی۔ رُوپا کے سینے سے ایک بے اختیار آہ نکل گئی وہ پہلے جتنا نزدیک تھا اب اتنا ہی دُور ہے!‘‘ ’’میں اُس کا نام پوچھتا ہُوں….. اور جانتی ہو میں تم سے اس کا نام کیوں پوچھتا ہوں؟…… اس لیے کہ وہ تمہارا پتی ہے…… اور تم اُس کی پتنی ہو…… تم اُس کی ہو اور وہ تمہارا……. یہ…….. ‘‘
نتھو اُس کے آگے کچھ کہنے ہی والا ہے کہ رُوپا نے دیوانہ وار اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور پھٹے ہوئے لہجہ میں کہا۔ ’’ہولے ہولے بولو نتھو۔ ہولے ہولے بولو، کہیں وہ…. جو میرے ہردے میں نیاجیو ہے، نہ سن لے کہ اس کی ماں پاپن ہے…. نتھو اسی ڈر کے مارے تو میں زیادہ سوچتی نہیں، زیادہ غم نہیں کرتی کہ اُس کو کچھ معلوم نہ ہو…….. پر بیٹھے بیٹھے کبھی میرے من میں آتا ہے کہ ڈوب مروں اپنا گلا گھونٹ لوں، یا پھر زہر کھا کے مر جاؤں…….. ‘‘
نتھو نے اٹھ کر ٹہلنا شروع کر دیا۔ وہ سوچ رہا تھا۔ ایک دو سیکنڈ غور کرنے کے بعد اس نے کہا۔ ’’کبھی نہیں، میں تمہیں کبھی مرنے نہ دوں گا۔ تم کیوں مرو۔ یوں تو موت سے چھٹکارا نہیں ، سب کو ایک دن مرنا ہے۔ پر اسی لیے تو جینا بھی ضروری ہے……. میں کچھ پڑھا نہیں، میں کوئی پنڈت نہیں، پر جو کچھ میں نے کہا ہے ٹھیک ہے، تم مجھے اس کا نام بتا دو۔ میں تمہیں اُس کے پاس لے چلوں گا۔ اور اسے مجبور کروں گا۔ کہ وہ تمہارے ساتھ بیاہ کر لے اور تمہیں اپنے پاس رکھے….. وہی تمہارا پتی ہے!‘‘
نتھو پھر رُوپا کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔ ’’لو میرے کان میں کہہ دو……. وہ کون ہے؟……. رُوپا کیا تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں، کیا تمہیں یقین نہیں آتا۔ کہ میں تمہارے لیے کچھ کر سکوں گا۔‘‘ رُوپا نے جواب دیا۔ ’’تم میرے لیے سب کچھ کر سکتے ہو نتھو، پر جس آدمی کے پاس تم مجھے لے جانا چاہتے ہو۔ کیا وہ بھی کچھ کرے گا؟…….. وہ مجھے بھول بھی چکا ہو گا۔‘‘ نتھو نے کہا۔ ’’تمہیں دیکھتے ہی اُسے سب کچھ یاد آ جائے گا……. باقی چیزوں کی یاد اسے میں دلا دوں گا….. تم مجھے اُس کا نام تو بتاؤ……….. یہ ٹھیک ہے کہ استری اپنے پتی کا نام نہیں لیتی۔ پر ایسے موقع پر تمہیں کوئی لاج نہ آنی چاہیے۔‘‘
رُوپا خاموش رہی، اس پر نتھو اور زیادہ مضطرب ہو گیا۔ ’’میں تمہیں ایک سیدھی سادی بات سمجھاتا ہوں اور تم سمجھتی ہی نہیں ہو، پگلی، جو تمہارے بچے کا باپ ہے وہی تمہارا پتی ہے……. اب میں تمہیں کیسے سمجھاؤں۔ تم تو بس آنسو بہائے جاتی ہو، کچھ سنتی ہی نہیں ہو….. میں پوچھتا ہوں، اس کا نام بتانے میں ہرج ہی کیا ہے……. لو، تم نے اور رونا شروع کر دیا۔ اچھا بھئی میں زیادہ باتیں نہیں کرتا۔ تم یہ بتا دو کہ وہ ہے کون…….. تم مان لو۔ میں اس کا کان پکڑ کر سیدھے راستے پر لے آؤں گا۔‘‘
رُوپا نے سسکیوں میں کہا۔ ’’تم بار بار پتی نہ کہو نتھو………. میری جوانی میری آشا، میری دنیا، کبھی کی ودھوا ہو چکی ہے….. تم میری مانگ میں سیندور بھرنا چاہتے ہو اور میں چاہتی ہوں کہ سارے بال ہی نوچ ڈالوں……. نتھو اب کچھ نہیں ہو سکے گا……. میری جھولی کے بیر زمین پر گر کر….. سب کے سب موری میں جا پڑے ہیں۔ اب انھیں باہر نکالنے سے کیا فائدہ…….. اس کا نام پوچھ کر تم کیا کرو گے……. لوگ تو میرا نام بھول جانا چاہتے ہیں۔‘‘ نتھو تنگ آگیا۔ اور تیز لہجے میں کہنے لگا۔ ’’تم….. تم بیوقوف ہو……. میں تم سے کچھ نہیں پوچھوں گا۔‘‘
وہ اُٹھ کر جانے لگا تو رُوپا نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روکا۔ ایسا کرتے ہوئے اُس کا رنگ زرد پڑ گیا۔ نتھو نے اُس کی گیلی آنکھوں کی طرف دیکھا۔ ’’بولو؟‘‘ رُوپا بولی۔ ’’نتھو بھیّا، مجھے مارو، خوب پیٹو۔ شاید اس طرح میں اُس کا نام بتا دوں…… تمہیں یاد ہو گا۔ ایک بار میں نے بچپن میں مندر کے ایک پیڑ سے کچے آم توڑے تھے۔ اور تم نے ایک ہی چانٹا مار کر مجھ سے سچی بات کہلوائی تھی……. آؤ مجھے مارو……. یہ چور جسے میں نے اپنے من میں پناہ دے رکھی ہے بغیر مار کے باہر نہیں نکلے گا۔‘‘
نتھو خاموش رہا۔ ایک لحظے کے لیے اس نے کچھ سوچا۔ پھر ایکا ایکی اس نے رُوپا کے پیلے گال پر اس زور سے تھپڑ مارا کہ چھت کے چند سوکھے اور گرد سے اٹے تنکے دھمک کے مارے نیچے گر پڑے۔ نتھو کی سخت انگلیوں نے رُوپا کے گال پر کئی نہریں کھود دیں۔
نتھو نے گرج کر پوچھا۔ ’’بتاؤ وہ کون ہے؟‘‘
جھونپڑے کے باہر مادھو کے لنگڑے بھائی کی آدھی ٹانگ کانپی۔ چوہدری جس تنکے سے زمین پر ایک اور طوطے کی شکل بنا رہا تھا۔ ہاتھ کانپنے کے باعث دُہرا ہو گیا۔ مادھو کاکا نے کلنگ کی طرح اپنی گردن اونچی کرکے جھونپڑے کے اندر دیکھا۔ اندر سے نتھو کی خشم آلود آواز آ رہی تھی۔ مگر یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں مادھو کاکا، چوہدری اور لنگڑے کیشو نے آپس میں کئی باتیں کیں۔ آخر میں مادھو کاکا کا بھائی بیساکھی ٹیک کر اٹھا۔ وہ جھونپڑے میں جانے ہی والا تھا کہ نتھو باہر نکلا۔ کیشو ایک طرف ہٹ گیا۔ نتھو نے پلٹ کر اپنے پیچھے دیکھا اور کہا کہ آؤ رُوپا ’’پھر اُس نے رُوپا کی ماں سے کہا۔ ’’ماں تم بالکل چنتا نہ کرو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم شام تک لوٹ آئیں گے۔‘‘
کسی نے نتھو سے یہ نہ پوچھا کہ وہ رُوپا کو لے کر کدھر جا رہا ہے۔ مادھوکاکا کچھ پوچھنے ہی والا تھا۔ کہ نتھو اور رُوپا دونوں چبوترے پر سے اُتر کر موری کے اُس پار جا چکے تھے۔ چنانچہ وہ اپنی مونچھ کے سفید بال نوچنے میں مصروف ہو گیا۔ اور چوہدری کُبڑے تنکے کو سیدھا کرنے لگا۔
بھٹے کے مالک لالہ گنیش داس کا لڑکا ستیش جسے بھٹے کے مزدور چھوٹے لالہ جی کہا کرتے تھے۔ اپنے کمرے میں اکیلا چائے پی رہا تھا۔ پاس ہی تپائی پر ایک کھلی ہُوئی کتاب رکھی تھی۔ جسے غالباً وہ پڑھ رہا تھا۔ کتاب کی جلد کی طرح اُس کا چہرہ بھی جذبات سے خالی تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نے اپنے چہرے پر غلاف چڑھا رکھا ہے، وہ ہر روز اپنے اندر ایک نیا ستیش پاتا تھا۔ وہ جاڑے اور گرمیوں کے درمیانی موسم کی طرح متغیر تھا۔ وہ گرم اور سرد لہروں کا ایک مجموعہ تھا۔ دوسرے دماغ سے سوچتے تھے لیکن وہ ہاتھوں اور پیروں سے سوچتا تھا۔ جہاں ہر شے کھیل نظر آتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنی زندگی کو گیند کی ماننداچھال رہا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اچھل کود ہی زندگی کا اصل مقصد ہے اُس کو مسلنے میں بہت زیادہ مزا آتا ہے۔ ہر شے کو وہ مسل کر دیکھتا تھا۔
عورتوں کے متعلق اس کا نظریہ یہ تھا کہ مرد خواہ کتنا ہی بوڑھا ہو جائے مگر اُس کو عورت جوان ملنی چاہیے۔ عورت میں جوانی کو وہ اتنا ہی ضروری خیال کرتا تھا۔ جتنا اپنے ٹینس کھیلنے والے ریکٹ میں بنے ہوئے جال کے اندر تناؤ کو۔ دوستوں کو کہا کرتا تھا۔ ’’زندگی کے ساز کا ہر تار ہر وقت تنا ہونا چاہیے۔ تاکہ ذرا سی جنبش پر بھی وہ لرزنا شروع کر دے۔‘‘
یہ لرزش، یہ کپکپاہٹ جس سے ستیش کو اس قدر پیار تھا۔ دراصل اُس کے گندے خون کے کھولاؤ کا نتیجہ تھی۔ جنسی خواہشات اُس کے اندر اس قدر زیادہ ہو گئی تھیں کہ جوان حیوانوں کو دیکھ کر بھی اُسے لذت محسوس ہوتی تھی۔ وہ جب اپنی گھوڑی کے جوان بچے کے کپکپاتے ہوئے بدن کو دیکھتا تھا تو اسے ناقابلِ بیان مسّرت حاصل ہوتی تھی۔ اُس کو دیکھ کر کئی بار اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ وہ اپنا بدن اس کے تروتازہ بدن کے ساتھ گھسے۔
ستیش چائے پی رہا تھا اور دل ہی دل میں چائے دانی کی تعریف کر رہا تھا۔ جو بے داغ سفید چینی کی بنی ہوئی تھی۔ ستیش کو داغ پسند نہیں تھے۔ وہ ہر شے میں ہمواری پسند کرتا تھا۔ صاف بدن عورتوں کو دیکھ کر وہ اکثر کہا کرتا تھا۔ ’’میری نگاہیں اس عورت پر کئی گھنٹے تیرتی رہیں……. وہ کس قدر ہموار تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا۔ کہ شفاف پانی کی چھوٹی سی جھیل ہے۔
یہ کمرہ جس میں اس وقت ستیش بیٹھا ہوا تھا خاص طور پر اس کے لیے بنوایا گیا تھا۔ کمرے کے سامنے ٹینس کورٹ تھا۔ یہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہر روز شام کو ٹینس کھیلتا تھا۔ آج اُس نے اپنے دوستوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ ٹینس کھیلنے نہیں آئے گا۔ کیونکہ اُسے آج ایک دلچسپ کھیل کھیلنا تھا۔ بھنگی کی نوجوان لڑکی جس کے متعلق اُس نے ایک روز اپنے دوست سے یہ کہا تھا۔ ’’تم اسے دیکھو….. سچ کہتا ہوں تمہاری نگاہیں اس کے چہرے پر سے پھسل پھسل جائیں گی۔ میری نگاہیں اُس کو دیکھنے سے پہلے، اس کے کھردرے بالوں کو تھا لیتی ہیں تاکہ پھسل نہ جائیں‘‘…….. آج ایک مدت کے بعد ٹینس کورٹ میں اُس سے خفیہ ملاقات کرنے کے لیے آ رہی تھی۔
وہ چائے پی رہا تھا اور اس کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چائے میں اُس جوان لڑکی کے سانولے رنگ کا عکس پڑ رہا تھا۔ اُس کے آنے کا وقت ہو گیا تھا۔ باہر سوکھے پتے کھڑکے تو ستیش نے پیالی میں سے چائے کا آخری گھونٹ پیا۔ اور اس کی آمد کا انتظار کرنے لگا……! ایک لمبا سا سایہ ٹینس کورٹ کے جھاڑو دئیے ہُوئے سینے پر متحرک ہُوا۔ اور لڑکی کی بجائے نتھو نمودار ہوا۔
ستیش نے غور سے اس کی طرف دیکھا کہ آنے والا بھٹے کا ایک مزدور ہے نتھو اپنے بالوں کا ایک گچھا انگلیوں سے مروڑ رہا تھا اور ٹینس کورٹ کی طرف بڑھا رہا تھا۔ ستیش کی کُرسی برآمدے میں بچھی تھی۔ پاس پہنچ کر نتھو کھڑا ہو گیا اور ستیش کی طرف یوں دیکھنے لگا۔ گویا چھوٹے لالہ جی کو اُس کی آمد کی غرض و غایت اچھی طرح معلوم ہے۔
ستیش نے پوچھا ’’کیا ہے؟‘‘
نتھو خاموشی سے برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔ ’’چھوٹے لالہ جی! میں اُسے لے کر آیا ہوں۔ اب آپ اُسے اپنے پاس رکھ لیجیے، گاؤں والے اُسے بہت تنگ کر رہے ہیں۔‘‘ ستیش حیران ہو گیا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ نتھو کیا کہہ رہا ہے۔ اُس نے پوچھا۔ ’’کسے؟…… کسے تنگ کر رہے ہیں۔‘‘ نتھو نے جواب دیا۔ ’’آپ……. آپ……… رُوپا کو…… آپ کی پتنی کو۔‘‘
’’میری پتنی؟‘‘ ستیش چکرا گیا۔ ’’میری پتنی……. تیرا دماغ تو نہیں بہک گیا…… یہ کیا بک رہا ہے‘‘…… یہ کہتے ہی اُس کے اندر…… بہت اندر رُوپا کا خیال پیدا ہوا۔ اور اُسے یاد آیا۔ کہ پچھلے ساون میں وہ ایک موٹی موٹی آنکھوں اور گدارئے ہوئے جسم والی ایک لڑکی سے کچھ دنوں کھیلا تھا۔ وہ دودھ لے کر شہر میں جایا کرتی تھی۔ ایک بار اُس نے دودھ کی بوندیں اُس کے اُبھرتے ہوئے سینے پر ٹپکتی دیکھی تھیں اور…….. ہاں ہاں یہ رُوپا وہی لڑکی تھی۔ جس کے بارے میں اُس نے ایک بار یہ خیال کیا تھا کہ وہ دودھ سے زیادہ ملائم ہے۔ اس کو حیرت بھی ہوتی تھی کہ یہ اینٹیں بنانے والے ایسی نرم و نازک لڑکیاں کیسے پیدا کر لیتے ہیں۔ وہ بھنگی کی لڑکی کو بھول سکتا تھا۔ سو شیلا کو فراموش کر سکتا تھا، جو ہر روز اُس کے ساتھ ٹینس کھیلتی تھی۔ وہ ہسپتال کی نرس کو بھول سکتا تھا جس کے سفید کپڑوں کا وہ معترف تھا۔ وہ اس…… لیکن رُوپا کو نہیں بھول سکتا تھا۔ اُسے اچھی طرح یاد ہے کہ دوسری یا تیسری ملاقات پر جب کہ رُوپا نے اپنا آپ اس کے حوالے کر دیا تھا۔ تو اس کی ایک بات پر اُسے بہت ہنسی آئی تھی۔ رُوپا نے اس سے کہا تھا۔ ’’چھوٹے لالہ جی!کل سندری چمارن کہہ رہی تھی۔ ’’جلدی جلدی بیاہ کر لے ری۔ بڑا مزا آتا ہے….. اسے کیا پتہ کہ میں بیاہ کر بھی چکی ہوں‘‘…….. مگر رُوپا تھی کہاں؟ ستیش کی حیوانی حِس اس کا نام سنتے ہی بیدار ہو چکی تھی۔ گو ستیش کا دماغ معاملہ کی نزاکت کو سمجھ گیا تھا۔ مگر اس کا جسم صرف اپنی دلچسپی کی طرف متوجہ تھا۔
ستیش نے پوچھا ’’کہاں ہے رُوپا ؟‘‘ نتھو اُٹھ کھڑا ہوا۔ ’’باہر کھڑی ہے…… میں ابھی اُسے لاتا ہوں۔‘‘ ستیش نے فوراً رُعب دار لہجے میں کہا۔ ’’خبردار جو اُسے تو یہاں لایا…. جا بھاگ جا یہاں سے۔‘‘ ’’پر…. پر…… چھوٹے لالہ جی وہ…….. وہ آپ کی پتنی ہو چکی ہے….. بچے کی ماں بننے والی ہے اور بچہ آپ ہی کا تو ہو گا…… آپ ہی کا تو ہو گا۔‘‘ نتھو نے تتلاتے ہوئے کہا۔
تو رُوپا حاملہ ہو چکی تھی….. ستیش کو قدرت کی یہ ستم ظریفی سخت ناپسند تھی اُس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ عورت اور مرد کے تعلقات کے ساتھ ساتھ یہ حمل کا سلسلہ کیوں جوڑ دیا ہے۔ مرد جب کسی عورت کی خاص خوبی کا معترف ہوتا ہے تو اس کی سزا بچے کی شکل میں کیوں طرفین کو بھگتنا پڑتی ہے……. رُوپا بچے کے بغیر کتنی اچھی تھی۔ اور وہ خود اس بچے کے بغیر کتنے اچھے طریقے پر، رُوپا کے ساتھ تعلقات قائم رکھ سکتا تھا۔ اس سلسلہ تولید کی وجہ سے کئی بار اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ عورت ایک بیکار شے ہے یعنی اس کو ہاتھ لگاؤ اور یہ بچہ پیدا ہو جاتا ہے یہ بھی کوئی بات ہے۔ اب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس بچے کا کیا کرے جو پیدا ہو رہا تھا تھوڑی دیر غور کرکے اُس نے نتھو کو اپنے پاس بٹھایا اور بڑے آرام سے کہا۔
’’تم رُوپا کے کیا لگتے ہو……. خیر چھوڑو اس قصّے کو……. دیکھو، یہ بچے وچے کی بات مجھے پسند نہیں، مفت میں ہم دونوں بدنام ہو جائیں گے، تم ایسا کرو، رُوپا کو یہاں چھوڑ جاؤ……. میں اُسے آج ہی کسی ایسی جگہ بھجوا دوں گا جہاں یہ بچہ ضائع کر دیا جائے….. اور رُوپا کو میں کچھ روپے دے دوں گا۔ وہ خوش ہو جائے گی…….. تمہارا انعام بھی تمہیں مل جائے گا……. ٹھہرو‘‘ یہ کہہ کر ستیش نے اپنی جیب سے بٹوہ نکالا اور دس روپے کا نوٹ نتھو کے ہاتھ میں دے کر کہا۔ ’’یہ رہا تمہارا انعام….. جاؤ عیش کرو۔‘‘
نتھو چپکے سے اٹھا۔ دس روپے کا نوٹ اس نے اچھی طرح مٹھی میں دبا لیا اور وہاں سے چل دیا۔ ستیش نے اطمینان کا سانس لیا کہ چلو چھٹی ہوئی۔ اب وہ بھنگی کی لڑکی کی بابت سوچنے لگا کہ اگر اسے بھی……. مگر یہ کیا، نتھو رُوپا کے ساتھ واپس آ رہا تھا۔
رُوپا کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ اور وہ یوں چل رہی تھی جیسے اُسے بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ ستیش نے سوچا۔ ’’یہ بچہ پیدا کرنا بھی ایک اچھی خاصی مصیبت معلوم ہوتی ہے۔
نتھو اور رُوپا دونوں برآمدے کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو گئے۔ ستیش نے رُوپا کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ ’’دیکھو رُوپا، میں نے…… اس کو سب کچھ سمجھا دیا ہے۔ تم فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا……. سمجھیں…….. کیوں بھئی تم نے سب کچھ بتا دیا نا؟‘‘
نتھو نے دس روپے کا نوٹ خاموشی سے ستیش کی طرف بڑھایا اور کہا۔ ’’چھوٹے لالہ جی! کاغذ کے اس ٹکڑے سے آپ مجھے خریدنا چاہتے ہیں۔ میں تو ایک بہت بڑا سودا کرنے آیا تھا۔‘‘ ستیش نے سمجھا کہ نتھو شاید دس روپے سے زیادہ مانگتا ہے۔’’کتنے چاہئیں تجھے….. میرے پاس اس وقت پچاس ہیں لینا ہو تو لے جاؤ۔‘‘
نتھو نے رُوپا کی طرف دیکھا۔ رُوپا کی آنکھوں سے آنسو نکل کر سیمنٹ سے لپی ہُوئی سیڑھیوں پر ٹپک رہے تھے۔ اس کے دل پر یہ قطرے پگھلے ہوئے سیسے کی طرح گر رہے تھے۔ ستیش کی طرف اُس نے مڑ کر کہا۔ ’’چھوٹے لالہ جی، یہ آپ کی پتنی ہے، آپ اس کے بچے کے باپ ہیں…… جیسے بڑے لالہ جی آپکے پتا ہیں…… رُوپا کے لیے اور کوئی جگہ نہیں ہے وہ آپکے پاس رہے گی اور آپ اُسے پتنی بنا کر رکھیں گے…… سب گاؤں والے اسے دھتکار رہے ہیں، کس لیے….. اس لیے کہ وہ آپ کا بچہ اپنے پیٹ میں لیے پھرتی ہے…… آپ کو تھامنا پڑے گا۔ اس لڑکی کا ہاتھ جس نے آپ کو اپنا سب کچھ دے دیا……. آپ کا دل پتھر کا نہیں ہے چھوٹے لالہ جی! اور اس چھوکری کا دل بھی پتھر نہیں ہے……. آپ نے اس کو سہارا نہ دیا تو اور کون دے گا، یہ آتی نہیں تھی۔ رو رو کے اپنی جان ہلکان کر رہی تھی۔ میں نے اُسے سمجھایا اور کہا، پگلی تو کیوں روتی ہے، تیرا پتی جیتا ہے چل میں تجھے اُس کے پاس لے چلوں۔
ستیش کو پتی پتنی کا مطلب ہی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ’’دیکھو بھائی! زیادہ بکواس نہ کرو، تم یوں ڈرا دھمکا کر مجھ سے زیادہ روپیہ وصول نہیں کر سکتے۔ میں ایک سو روپیہ دینے پر راضی ہوں۔ مگر شرط یہ ہے کہ بچہ ضائع کر دیا جائے۔ اور تم جو مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں اسے اپنے گھر میں بسالوں تو یہ ناممکن ہے…… میں اس کا پتی خواب میں بھی نہیں بنا اور نہ یہ میری کبھی پتنی بنی ہے……. سمجھے؟ سو روپیہ لینا ہو تو کل آکے یہاں سے لے جانا، اب یہاں سے نو دو گیارہ ہو جاؤ۔‘‘ نتھو بھنّا گیا۔
’’اور…… اور…… یہ بچہ کیا آسمان سے گرا ہے؟……. اُس کی آنکھوں میں آنسو بھوت پرتیوں نے بھر دئیے ہیں…… میرا دل……. میرا دل کون مسل رہا ہے….. یہ روپے……. یہ سو روپے کیا آپ خیرات کے طور پر دے رہے ہیں……. کچھ ہوا ہے تو یہ سب کچھ ہو رہا ہے….. کوئی بات ہے تو یہ ہلچل مچ رہی ہے…….. آپ اس بچے کے باپ ہیں تو کیا اس کے پتی نہیں؟……. میری عقل کو کچھ ہو گیا ہے یا آپ کی سمجھ کو……. ‘‘ ستیش یہ تقریر برداشت نہ کر سکا۔ ’’اُلّو کے پٹھے! تو جاتا ہے کہ نہیں یہاں سے کھڑا اپنی منطق چھانٹ رہا ہے، جا جو کرنا ہے کرلے…….. دیکھوں تو میرا کیا بگاڑ لے گا۔‘‘ نتھو نے ہولے سے کہا۔ ’’میں تو سنوارنے آیا تھا چھوٹے لالہ جی……. آپ ناحق کیوں بگڑ رہے ہیں، آپ کیوں نہیں اس کا ہاتھ تھام لیتے یہ آپ کی پتنی ہے۔‘‘
’’پتنی کے بچے اب تو اپنی بکواس بند کرے گا یا نہیں…….. بچہ بچہ کیا بک رہا ہے ….. جا لے جا اپنی اس کچھ لگتی کو، ورنہ یاد رکھ، کھال ادھیڑ دوں گا۔‘‘ نتھو کے سب پٹھے اکڑ گئے، بھگوان کی قسم ، مجھ میں اتنی شکتی ہے کہ یوں ہاتھوں میں دبا کر تیرا سارا لہو نچوڑ دوں……. میری کھال تیرے ان نازک ہاتھوں سے نہیں ادھڑے گی….. میں تیری بوٹی بوٹی نوچ سکتا ہوں …… پر میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں تجھے ہاتھ تک نہیں لگانا چاہتا …….. تو رُوپا کے بچے کا باپ ہے، تو رُوپا کا پتی ہے۔ اگر میں تجھ پر ہاتھ اٹھایا تو مجھے ڈر ہے کہ رُوپا کے دل کو دھکا لگے گا…….. تو عورتوں سے ملتا جلتا ہے پر تو عورت کا دل نہیں رکھتا۔‘‘ ستیش آپے سے باہر ہو گیا۔ اور چیخنے لگا۔ ’’تیری اور تیری روپا کی ایسی تیسی……. نکل یہاں سے باہر۔‘‘
نتھو بڑھ کر رُوپا کے آگے کھڑا ہو گیا۔ اور ستیش کے پاس……. بالکل پاس جا کر کہنے لگا۔ ’’چھوٹے لالہ جی مجھے معاف کر دیجیے گا۔ میں نے ایسی باتیں کہہ دی ہیں جو مجھے نہیں کہنا چاہیے تھیں……. مجھے معاف کر دیجیے مگر رُوپا کا ہاتھ تھام لیجیے…… آپ اس کے پتی ہیں، اس کے بھاگ میں آپ کے بنا اور کوئی مرد نہیں لکھا گیا۔ یہ آپ کی ہے….. اب آپ اسے اپنا بنا لیں………. یہ دیکھئے میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں۔‘‘
’’کیسے واہیات آدمی سے واسطہ پڑا ہے۔ ’’ستیش نے کمرے کے اندر جاتے ہوئے کہا۔ کہتا ہوں میں رُوپا ووپا کو نہیں جانتا۔ مگر یہ خواہ مخواہ اسے میرے پلے باندھ رہا ہے……. جاؤ جاؤ ہوش کی دوا کرو۔‘‘ کمرے کا صرف ایک دروازہ کھُلا تھا۔ جس میں سے ستیش اندر داخل ہوا تھا۔ اندر داخل ہو کر اُس نے یہ دروازہ بند کر دیا۔ نتھو نے دروازے کی لکڑی کی طرف دیکھا تو اسے ستیش کے چہرے اور اس میں کوئی فرق نظر نہ آیا۔
نتھو نے اپنے سر کے بال مروڑنے شروع کر دئیے اور جب پلٹ کر اُس نے رُوپا سے کچھ کہنا چاہا تو وہ جا چکی تھی…… اور وہ اس کا پیچھا کرنے کے لیے بھاگا۔مگر وہ جا چکی تھی۔ باہر نکل کر اُس نے رُوپا کو بہت دُور درختوں کے جھنڈ میں غائب ہوتے دیکھا۔ وہ اس کے پیچھے یہ کہتا ہوا بھاگا۔ ’’رُوپا….. رُوپا، ٹھہر جا…… میں ایک بار پھر اُسے سمجھاؤں گا….. وہی تیرا پتی ہے……. اس کا گھر ہی تیری اصل جگہ ہے۔
وہ بہت دیر تک بھاگتا رہا۔ مگر رُوپا بہت دور نکل گئی تھی……. اُس روز سے آج تک نتھو، رُوپا کی تلاش میں سرگردان ہے مگر وہ اُسے نہیں ملتی۔ وہ لوگوں سے کہتا ہے ۔ ’’میں رُوپا کے پتی کو جانتا ہوں…… تم اسے ڈھونڈ کر لاؤ، میں اُسے اس کے پتی سے ملا دوں گا۔‘‘ لوگ یہ سُن کر ہنس دیتے ہیں…….. بچے جب بھی نتھو کو دیکھتے ہیں تو اس سے پوچھتے ہیں۔ اُس کا پتی کون ہے نتھو بھیّا۔‘‘ تو نتھو ان کو مارنے کے لیے دوڑتا ہے۔
سعادت حسن منٹو