- Advertisement -

خمار بارہ بنکوی کی دسویں برسی پر

رضوان احمد کا ایک اردو مضمون

خمار بارہ بنکوی کا انتقال 20فروری 1999ءکو ہوا تھا،لیکن جن اشخاص نے ان کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے یا جنہوں نے ان کو مشاعروں میں سنا ہے وہ ان کی یاد سے ایک دن کے لیے بھی دامن کش نہیں ہو سکے ہوں گے۔

اگرچہ وہ بارہ بنکی کے ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا نام محمد حیدر خان تھا لیکن 18سال کی عمر سے ہی انہوں نے شاعری شروع کر دی اور اس کے بعد وہ صرف خمار بارہ بنکوی ہی رہ گئے۔

خمار بارہ بنکوی بڑے شاعر تھے یا نہیں اس کا فیصلہ کرنے کا حق مجھے نہیں ہے۔ میں تو صرف اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ مجھے ان کی ہم وطنی کا شرف حاصل ہے اور اس کے علاوہ مجھے بہت بچپن سے ہی ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔میں نے جب انہیں دیکھا تو اس وقت میری عمر دس بارہ سال سے زیادہ نہیں رہی ہو گی۔ یہ عمر کھیلنے کھانے کی ہو تی ہے۔ میرا بھی بچپن تھا لیکن اس زمانے میں خمار بارہ بنکوی کے فلمی گانوں کی وجہ سے انہیں بچہ بچہ جانتا تھا۔ اس دور میں ان کے گانے

تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی

یا پھر

زمانہ خراب ہے بھلا نہیں دینا

گلی گلی میں گونج رہے تھے اور خمار بارہ بنکوی کا نام ہر شخص کی زبان پر تھا۔ میرے آبائی گاؤں موئی جو کہ اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں ہے، وہاں شعر و شاعری کا کافی چرچا تھا۔ وہاں سال میں ایک بار مشاعرہ بھی ہو تا تھا جس میں قرب و جوار کے شعرا تشریف لاتے تھے۔ اسی میں پہلی بار خمار بارہ بنکوی صاحب بھی تشریف لائے تھے اور انہوں نے جو غزل پڑھی تھی اس کے اشعار مجھے اب تک یاد ہیں:

اب بخش یا نہ بخش مجھے اے میرے کریم
تیرے کرم کی آس پہ اترا کے پی گیا
بے اختیار توبہ سر بزم توڑ دی
ناصح نے ضد دلائی تو جھنجھلا کے پی گیا
توبہ کا تھا خیال مگر کیا کریں خمار
ساقی نے خود پلائی تو شرما کے پی گیا

اس کے کچھ دنوں بعد ہی مجھے بارہ بنکی ضلع کے ہی دیو ہ شریف کے میلے میں منعقدہ آل انڈیا مشاعرہ میں انہیں سننے کا موقع ملا تھا۔ البتہ باقاعدہ ملاقات دو تین برسوں بعد کانپور میں ہوئی، جہاں میں طالب علم کی حیثیت سے مقیم تھا۔ وہ حلیم کالج کے مشاعرے میں تشریف لائے تھے۔ کانپور کے بے حد مشہور شاعر نشور واحدی صاحب تھے وہ انہیں کے یہاں مقیم تھے اور میں بھی ان سے ملنے کی غرض سے وہاں گیا تھا۔ لیکن تعارف کرانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی تو نشور صاحب نے میرا تعارف کروایا تو وہ بے حد گرم جوشی سے ملے۔ اس کے بعد سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ خمار بارہ بنکوی کے مزاج میں قلندری تھی اسی لیے ایک درجن فلموں میں گانے لکھنے کے باوجود وہ چمک دمک والی دنیامیں زیادہ دنوں تک نہیں ٹک سکے اور پھر مشاعروں کو ہی پیشہ بنا لیا۔

خمار صاحب مخصوص انداز کے شاعر تھے۔ان کا اپنا لب و لہجہ تھا۔ لیکن وہ جگر اسکول کے شاعر کہلانا پسند کرتے تھے اور حقیقت یہی ہے کہ وہ محفلِ جگر کی آخری شمع تھے۔ مشاعروں میں ان کی مقبولیت بے پناہ تھی۔ جگر مراد آبادی کے بعد شاید خمار ہی مشاعروں کے سب سے مقبو ل شاعر تھے اور انہوں نے اپنی شاعری کے معیار کو کبھی گرنے نہیں دیا۔ انہوں نے بھارت کے تو تقریباً تمام شہروں میں مشاعرے پڑھے اور بیرون ملک پاکستان کے علاوہ خلیجی ممالک، سعودی عرب، برطانیہ، امریکہ اور کناڈا وغیرہ کے بھی مشاعروں میں تشریف لے گئے اور وہاں اپنے کلام کی دھاک جمائی۔

خمار ان کا تخلص ہی نہیں تھا بلکہ وہ رندِ بلا نوش تھے، لیکن جب تائب ہوئے تو عالم یہ تھا کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ میں نے انہیں پی کر بہکتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، بلکہ مے نوشی کے بعد وہ اور بھی شانت اور گمبھیر ہو جاتے تھے۔ سب سے دلچسپ واقعہ یہ تھا کہ جب وہ امریکہ کے مشاعروں میں تشریف لے گئے اور ایک ڈیڑھ ماہ قیام کرنے کے بعد وہاں سے واپس آئے تو شرابِ ناب سے تائب ہو چکے تھے۔ میں نے ان سے امریکہ کے بارے میں ان کے تاثرات پوچھے تو کہنے لگے کہ بیٹامیں غلط عمر میں صحیح جگہ پر پہنچ گیا تھا اور پھر تائب ہونے کے بعد انہوں نے ایک غزل میں یہ مقطع کہا:

خمار اب تخلص بھی اپنا بدل لو
بنے ہو جو مے کش سے اللہ والے

خمار بارہ بنکوی اپنی طرز کے بالکل منفرد شاعر تھے۔ ان کے یہاں کلاسیکی زبان کا جو رچاؤ ملتا ہے اس نے ان کی شاعری کو سہل ممتنع بنا دیا ہے اور ان کی پوری شاعری میں یہ کیفیت جاری و ساری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سردار جعفری کو بھی کہنا پڑا:

”غزل جس کا ہر شعر ہوا کے نرم اور لطیف جھونکے کی طرح آئے اور گزر جائے اور دل میں تازگی کی ایک کیفیت پیدا کر جائے،یہ ہے خمار کی شاعری۔ اس میں غزل کی کئی سو برس کی روایات کی تہذیب اور شائستگی ہے اور سہل بیانی کا ایسا جادو ہے جو فریب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ یقین کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے کہ ایسا شعر تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں، مگر غالب اور اقبال کے رنگ میں کہنا آسان ہے اور اس رنگ میں کہنا مشکل ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں فکر اور خیال کی اور تشبیہ و استعارہ کی تراش و خراش ایک سرے سے ہے ہی نہیں جس کی نقل کی جائے۔ یہ میر اور ان کے ہم عصروں کی روایات ہے جن کے یہاں خارجی ارآئش برائے نام تھی۔ یہ شاعری شاعر کی اپنی طبیعت کی شگفتگی اور شخصیت کی دلنوازی سے آراستہ ہے اور اس شخصیت کی نقل کرنا منہ چڑھانے کے برابر ہے۔ “ (آتش تر۔ صفحہ 7-8)

بلکہ اس سے آگے چل کر سردار جعفری یہ بھی کہتے ہیں ” خمار کے معنوی اور شعری خاندان کا سلسلہ غالب، اقبال اور جوش سے نہیں ملتا، جگر مراد آبادی کا عکس زیادہ ہے، مگر یہ صرف عکس ہی ہے اصلیت خمار اور ان کی شاعری ہے۔ “

خمار بارہ بنکوی تو ایک قلندر تھے انہوں نے کبھی اپنی شاعری کے بارے میں بلند بانگ دعوے نہیں کیے لیکن رقص مے کے افتتاحیہ میں لکھا:

”میں نے جملہ اصناف سخن کا تجزیہ کرنے کے بعد اپنے محسوسات کے اظہارکے لیے کلاسیکی غزل ہی کو سب سے زیادہ موزوں اور مناسب پایا۔ چنانچہ غزل کے خدمت گزاروں میں شامل ہو گیا۔ وقت نے کئی کروٹیں بدلیں مگر میں نے غزل کا دامن نہیں چھوڑا۔“

بلا مبالغہ ان کے اشعار دل سے نکلے ہیں اور دل کو چھو لیتے ہیں:

برسے بغیر ہی جو گھٹا کھل کر رہ گئی
اک بے وفا کا عہدِ وفا یاد آگیا

ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں
پھر اندھیرے کہاں قیام کریں

حالِ دلِ ان سے کہہ کہ جب لوٹے
ان سے کہنے کی بات یاد آئی

وہ سوا یاد آئے بھلانے کے بعد
زندگی بڑھ گئی زہر کھانے کے بعد

کھوئے ہوئے تھے دیر سے وہ میری یاد میں
مجھ پر نظر پڑی تو خفا ہو کر رہ گئے

حد سے بڑھے تو علم بھی ہے جہل دوستو
سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ جانتے نہیں

بعد تر ک تعلق یہ کیا ہو گیا
ربط پہلے سے بھی کچھ سوا ہو گیا

آ پ کو جاتے نہ دیکھا جائے گا
شمع کو پہلے بجھاتے جائیے

آسودگی سے عشق جواں کو بچائیے
کوئی جو مان جائیے تو خود روٹھ جائیے
جشن سجود پائے صنم پہ منائیے

یہ کفر ہے تو کفر پہ ایمان لائیے
آنکھوں کے چراغوں میں اجالے نہ رہیں گے

آجاؤ کہ پھر دیکھنے والے نہ رہیں گے

خمار بارہ بنکوی جب تصوف کی جانب رجوع ہوئے تو انہوں نے ایسے اشعار بھی کہے:

خود کو پاتا ہوں بہت آلِ محمد سے قریب
زندگی جب میری فاقوں میں بسر ہو تی ہے

خطائیں کرتے کرتے توبہ کر لی ہے خمار اکثر
تڑپ کر رہ گئی ہے رحمت پرور دگار اکثر

اے محتسب عذابِ جہنم بجا مگر
اک چیز اور رحمتِ پروردگار ہے

خمار بارہ بنکوی عشق و سرمستی کے شاعر ہیں۔ انہیں بارہ بنکی کے مشہور بزرگ حضرت وارث علی شاہ سے بے حد عقیدت تھی اور حضرت وارث علی شاہ کا ایک مقولہ ہے ”عشق میں جب تک آدمی کافر نہیں ہو تا، مسلماں نہیں ہو تا“ اور خمار اس کا اظہا ریوں کرتے ہیں:

یہ مصرع نہیں وظیفہ مرا ہے
خدا ہے محبت، محبت خدا ہے

20فروری سنہ 1999کو 80سال کی عمر میں خمار کا سفر ختم ہو گیا اور بارہ بنکی میں ان کی تجہیز و تکفین ہوئی اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہو گئے:

دعا یہ ہے نہ ہوں گمراہ ہم سفر میرے

رضوان احمد
پٹنہ
February 18, 2009

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
رضوان احمد کا اردو مضمون