آخری خواہش
ندی کنارے خواب پڑا تھا،
ٹوٹا پھوٹا، بے سد ھ ، بیکل
لہریں مچل کراس کو تکتیں،
سانجھ سویرے، آ کر پل پل
سیپی چنتے چنتے میں بھی جانے کیوں چھو بیٹھی اس کو
یہ احساس ہوا کہ اُس میں، روح ابھی تک جاگ رہی ہے
ہاتھ کو میرے اس کی حرارت دھیرے دھیرے تاپ رہی ہے
تب آغوش میں اس کو اُٹھایا،
اک اوندھی کشتی کے نیچے ، تھوڑا سا رکھا تھا سایہ
نرم سی گیلی ریت کا میں نے بستر ایک بچھایا
سانس دیا ہونٹوں سے اس کو
تب کچھ ہوش میں آیا
پھر اکھڑے اکھڑے جملوں میں اس نے یہ بتلایا
پھینک گئے ہیں اس کو اپنے ، سنگی ساتھی بھائی،
سن کر اس کی پوری کہانی،دیر تک مجھ کو سانس نہ آئی
آخری خواہش مجھ کو دے کر،
نیناں میں چاہت کو سمو کر
نیند ہمیشہ کی جا سویا،
اپنے دکھ کو مجھ میں بویا
پلک پلک، موتی بنتی ہوں،
سارے بدن کو پھونک چکی ہوں
لیکن میری ،روح بچی ہے
دور اسی ندیا کے کنارے ، آج بھی بیٹھی سوچ رہی ہے
شاید سیپیاں چنتے چنتے ، کوئی مجھے چن کر لے جائے
ٹھنڈی ریت پہ خواب بچھائے
میرے بند پپوٹے چھوکر،
شاید وہ،اوجھل ہو جائے
گہری گہری جھیل کی تہہ سے ،
کبھی نہ باہر آ نے پائے ۔۔۔!!!
فرزانہ نیناں