جمغورہ الفریم
اس لڑکی میں تین شخصیتیں غلط ملط ہوگئی تھیں۔۔۔ ایک میری اس رشتہ کی بہن کی جو رات گئے تک میرے ساتھ بیٹھی شطرنج کھیلا کرتی، حتی کہ اس کے سب گھروالے سوجاتےاور ان کے خراٹوں کی آواز سےطول وعرض گونج اٹھتا، تب وہ بڑی خمار آلود نظروں سے میرے طرف دیکھتی اور پھر انگڑائی توڑ کر اپنی دائیں بانھ ایک جھٹکے سے میری طرف بڑھاتی اور اپنے ہاتھ کی پہلی دو انگلیاں کھول دیتی۔ میں اپنے حقے کی نے ان میں اٹکا دیتا۔ اس کے ہونٹوں پر بڑی پراسرا،پیاسی مسکراہٹ پھیل جاتی اور وہ نے کو اپنے ہونٹوں تک لے جاتی ہلکے ہلکے دو تین کش لگاتی اور پھر ناگن کی طرح سسکاریاں بھرتے ہوئے دھواں چھوڑتی ہوئی کہتی، ’’مزہ آتاہے، اُف! بڑا مزہ آتا ہے!‘‘
دوسری میری محبوبہ تھی جو مجھ سےہمیشہ روحانی محبت کی طلب گار رہتی۔ اور اس بات پر اصرار کرتی کہ میں یونان کے اس شاعر کی طرح اس سے محبت کروں جو اپنی محبوبہ کےقریب پہنچ کر اپنا جسم تیاگ دیا کرتا تھا۔
تیسری وہ خود تھی۔ اس بات کو تین صدیاں بیت چکی ہیں اور جمغورہ الفریم ویسے کا ویسا ہی ہے۔۔۔
جمغورہ الفریم اگر کمرہ تھاتو یقین جانیے بڑا ہی اداس اور ویران کمرہ تھا۔
سامنے والی دیوار پر دو کھڑکیاں تھیں جو دوسری طرف دور دور تک پھیلے ہوئے جنگل میں کھلتی تھیں۔ دونوں کھڑکیوں کے درمیان ایک کپ بورڈ تھا۔ جس کے ایک پٹ کے ساتھ پرانی وضع کاایک تالا لگاہواتھا اور پٹ بند تھا۔ دوسرا پٹ ٹوٹ کر نیچے لٹک رہاتھا۔ کپ بورڈ میں رکھی ہوئی تمام چیزیں نظر آرہی تھیں اور تمام چیزوں پر بے انتہا گرد پڑی ہوئی تھی اور کونوں میں جابجا جالے لٹک رہے تھے۔ وہ چیزیں مٹی اور دھات کے کچھ برتن تھے جن پر عجیب و غریب نقش کندہ تھے اور بالکل درمیان میں بیل کا ایک کٹا ہوا سر رکھا تھا جس کی کھلی ہوئی آنکھیں بڑی ہیبت ناک لگ رہی تھیں۔ کپ بورڈ اور کھڑکیوں کے آگے ایک بڑی سی مسہری پڑی تھی جس کے بچھونےکے کپڑوں میں لانتہا دھول تھیں اور بے شمار سلوٹیں۔
دائیں دیوار کے ساتھ ایک پرانا شکستہ میز پڑا تھا جس کے پائے اچھے خاصے ستونوں جیسے تھے جن پر طرح طرح کے نقش کھدے ہوئے تھے اور مردوں اور عورتوں کی شبیہیں بنی ہوئی تھیں۔ میز کے اوپر موٹی موٹی، ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں بکھری پڑی تھیں۔
کہتے ہیں تین صدی پہلے کچھ لوگ یہاں آئے تھے اور وہ جمغورہ الفریم میں داخل ہوئے۔ انھوں نے یہاں کھانا پکایا اور مسہری پر کچھ کھیتی باڑی کی۔ کسی نے انھیں باہر جاتے نہیں دیکھا مگر اب وہ اندر بھی نہیں ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے جسموں سے ننگے تھے۔ ان کی چمڑی سوکھ کر چٹخ گئی اور ہڈیاں دھول بن کر اڑگئیں۔
کھڑکیوں کے باہر دور دور تک پھیلے ہوئے جنگل کے کنارےایک فوارہ تھاجو اب بالکل سوکھ چکا ہے جس میں سے اب پگھلی ہوئی چاندی جیسا پانی نہیں اچھلتا اور قطرے موتیوں کی طرح نہیں بکھرتے۔
فوارے کے پاس ہی ٹنڈ منڈ زمین پر ایک خارش زدہ کتیا بیٹھی اپنے کان کھجاتی رہتی ہے اور کبھی کبھار کھڑکیوں کی طرف دیکھ کر بڑی دل دوز آواز میں بھونک دیتی ہے۔
جمغورہ الفریم اداس اور ویران ہے۔ اس کے فرش پر ایک لاش رکھی ہے جس کا انگ انگ کسا ہوا ہے اور خون کے دھبوں سے سارافرش سیاہی مائل ہوگیا ہے۔
مردہ جسم کے کئی حصے غائب ہیں۔ پرانی کتابیں جو میز پر رکھی ہیں ان میں سے ایک کتاب (جسے ابھی دیمک نےاچھی طرح چٹ نہیں کیا ہے) میں لکھا ہے کہ کھڑکی کے نیچے فوارے کے پاس بیٹھی خارش زدہ کتیا نے میرے جسم کے کئی حصے بھنبھوڑ کر کھالیئے ہیں۔ اور ابھی اور حصے ملنے کی امید میں بیٹھی اپنے کان کھجا رہی ہے۔
میں اس لڑکی کی تلاش میں جو تین صدیاں پہلے مجھ سے بچھڑ گئی تھیں یہاں تک نکل آیا ہوں۔ دروازہ شاید میرے ہی انتظار میں کھلاہوا تھا۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی عجیب ناگوار سی بدبو نتھنوں میں گھسی تھی۔ میں لپک کر باہر پلٹا کاریڈور میں سے ہوکر کہیں اور جانا چاہا۔ کافی مسافت طے کی۔ کئی غلام گردشیں گلیاں اور گلیاں عبور کیے اور بڑی مشکل سے کسی کمرے کادروازہ دکھائی دیا۔ میں جھٹ سے اندر گھس گیا مگر میری حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ یہ وہی کمرہ تھا جس کے تعفن سے گھبرا کر میں باہر بھاگا تھا۔
تیز بدبو نے میرے دماغ کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا۔ میں پھر باہر کو بھاگا۔ پھر گلیاروں میں بھٹکتا رہا۔ حتی کہ بھاگ بھاگ کر میرا دم پھول گیا۔ میری پنڈلیوں کی نسیں ابھرآئیں اورمیں ہانپتا ہوا آخر ایک کمرے میں داخل ہوا۔ اور یہ پھر وہی کمرہ تھا۔
میں نے یہ عمل سات بار دوہرایا اورساتوں بارمیں اس کمرے کی قید سےرہائی پانےمیں ناکام رہا۔ آخر مجھے ماننا پڑا کہ یہ واقعی جمغورہ الفریم ہے۔
اب اسکے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ میں کھڑکی کے پاس جاکر کھڑا ہوجاؤں تاکہ تازہ ہوا اس تعفن بھری بو سے مجھے محفوظ رکھے۔
نیچے ایک کنول کے پھول سے مشابہ فوارہ تھاجو کافی عرصے سے سوکھا پڑاتھا۔ اور گرد سوکھی اور جلی ہوئی جھاڑیاں تھیں۔ ٹنڈ منڈ درخت تھے۔ اجڑی اجڑی سی زمین تھی اور مٹی مٹی سی روشیں تھیں۔ جن سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ یہ کبھی چمن رہا ہوگا۔ فوراہ سے پگھلی ہوئی چاندی جیسا پانی اچھل کر موتیوں کی طرح بکھرجاتا ہوگااور جلی ہوئی جھاڑیوں پر رنگارنگ پھلو مسکراتے ہوں گے اور درختوں کے پتوں پر سے خوش رنگ چڑیاں اڑ کر فوارے کے پانی میں اپنی چونچیں ڈبوکر پھر درختوں کے پتوں میں گم ہوجاتی ہوں گی۔
’’یہ ماضی ہے۔‘‘
’’یہ ماضی ہے۔‘‘
’’یہ ماضی ہے۔‘‘
ایک طرف سے آواز آئی۔ میں نے گردن بڑھاکر اسطرف دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ کوئی ان سنی آواز نہ تھی بلکہ کوئی بے چہرہ آدمی پرانی کھڑکھڑا سائیکل چلاتا ہوا ادھر آرہا تھا۔ اور یہ آواز اس سائیکل کے ڈھیلے پہیوں اور غیر متحرک پرزوں کی رگڑ سے پیدا ہو رہی تھی۔ بے چہرہ آدمی جب کھڑکی کے بالکل نیچے، میرے بالکل سامنے اور خارش زدہ کتیا کے بالکل قریب آیا تو اس کے سائیکل کی چین اتر گئی۔
کتیا نے ایک بار گردن گھماکر اس کی طرف دیکھا اور پھر بے اعتنائی سے منہ پھیر لیا۔ اور اپنے اگلے دائیں پنجے سے کان کھجانا شروع کردیا۔
مجھے وہاں کھڑے کھڑے رات ہوگئی۔ ساراجنگل اندھیرے میں ڈوب گیا۔ سائیکل والابے چہرہ آدمی واپس جنگل میں گھس گیا۔ اور اس کے سائیکل کی کھڑکھڑاہٹ دور تک سنائی دیتی رہی۔ فوارے پر ایک چیل آکر بیٹھ گئی اور پھر گردن سکوڑ کر اونگھنے لگی۔کتیا نے سرہلاکر کان پھڑپھڑائے اور پھر فوارے کے اردگرد ٹہلنے لگی۔
دور جنگل سے عجیب عجیب طرح کی آوازیں آنےلگیں۔ کبھی کسی جانور کے رونے کی آواز، کبھی کسی عورت کے بینوں کی آواز کبھی کسی بادشاہ کے لشکر گزرنےکا شور۔ کھڑے کھڑے یہ سب سننا پڑا۔
کمرے میں اب میں اکیلانہیں تھا۔ فرش پر پڑی ہوئی ٹکڑے ٹکڑے لاش اٹھ کر کرسی پر بیٹھ چکی تھی اور اپنے کھوئے ہوئے ٹکڑوں والی جگہ کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ یا پھر کبھی اپنے اکلوتے ہاتھ سےزخموں کو سہلانے لگتی۔
وہ لوگ جو کبھی اس کمرے میں وارد ہوئے تھے۔ اپنا دسترخوان بچھاکر کھاناکھانے لگے اور میں الماری میں رکھاہوا بیل کاکٹا ہوا سر اپنی لمبی سرخ زبان نکال کر ہونٹوں پر پھرانے لگا۔
وہ سب میری موجودگی سے بے خبر تھے اور اپنے اپنے کام میں بری طرح منہمک تھے اور مجھے یہ سب دیکھنا پڑا۔
نیچے خارش زدہ کتیا چھلانگیں لگا لگا کر بھونکنے لگی۔ وہ بار بار کھڑکی کی طرف کودتی۔
کمرے میں پرانے زمانوں کی ایک قندیل روشن ہوچکی تھی۔ اس کی روشنی میں میں نے میز پر پڑی ایک کتاب اٹھاکر کھولی۔ اور بلند آواز میں پڑھنا شروع کیا۔ لکھا تھا۔۔۔ ’’پربتوں اور اونچے دیودار اور چیڑ کے درخت میں پگھلی ہوئی برف کے جھرنےہیں۔ ماؤں کی گودیں ہریالی سے بھری ہیں۔ میدانوں میں ان گنت مکان ہیں، ریگستان میں بکھرے ہوئے ذرے سورج کی روشنی میں ستاروں کی طرح چمکتے ہیں۔ ساگر اچھل اچھل کر ساحل پر بچھ جاتاہے۔ گھونگھے، سیپیاں اور مچھلیاں ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ناچ کرتی ہیں۔‘‘
کتیا کا بھونکتے بھونکتے گلا بیٹھ گیا تھا۔ کرسی پر بیٹھی لاش نے کہا۔
’’میرا ایک ٹکڑا کتیا کی طرف پھینک دو۔ وہ شانت ہوجائے گی۔ ڈرو نہیں۔ جو بھی یہاں آیا۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کے سواکوئی چارہ نہیں ورنہ یہ بھونک بھونک کر پورا جنگل جگادے گی!‘‘
میں حیرت سے لاش کے چہرے کو دیکھتا رہااور کتیا کو بھونکتےہوئے سنتا رہا۔ کتاب بند کرکے میں نے دوبارہ میز پر رکھ دی اور لاش کی طرف ندیدوں کی طرح دیکھنے لگا۔
گوشت کاٹکڑا کھاتے ہوئے کتیا بالکل اس میں کھوئی ہوئی تھی۔ اتنے میں سویرا ہوگیا۔ لاش فرش پر چت پڑی تھی۔ اس کے جسم کا جہاں سے نیا ٹکرا نکالا گیا تھا وہ جگہ ابھی سرخ تھی۔ دسترخوان اٹھ چکا تھا اور کتابیں خاموشی سے میز پر دبکی پڑی تھیں۔نیچے فوارے پر بیٹھی چیل نے اپنے پنکھ پھیلاکر اڑان لی۔ کتیا تازہ ہڈی پر پلی پڑ رہی تھی۔
دروازہ کھلا تھا۔ اس کے باوجود کسی نے اپنی انگلی سے اسے بجایا۔ میں نےبیساختگی سے کہا۔۔۔ ’’آجاؤ!۔۔۔‘‘ اور دوسرے ہی لمحے ایک چھوٹا سا بچہ کمرے میں داخل ہوا۔
وہ بڑاعجیب بچہ تھا۔ عمرہوگی یہی کوئی تین چار برس،مگر چہرے پر اچھی خاصی داڑھی تھی۔ چشمہ لگائے ہوئے تھا اور سر کے بال لمبے اور بے ترتیب تھے۔ بدن پر ایک میلی کچیلی بڑے بڑے پھولوں والے کپڑے کی بشرٹ تھی اور نیچے زین پہنے ہوئے تھا۔ اس کی پیٹھ پر سامان سے بھرا ہوا تھیلا تھا اور ہاتھ میں ایک بانسری تھی۔
’’اوہ! تو تم یہاں ہو!‘‘ اس نے اندر آتے ہی کہا۔
’’کیا تم میری تلاش میں ہو؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ویسے ہی جیسے تم میری ماں کی تلاش میں ہو۔ مجھے پہچانا؟ میں تمہارا بیٹا ہوں۔ تمہیں یاد ہے تین صدی پہلے تم نے میری ماں کے ساتھ جماع کیا اور پھر اسے تلاش کرنے نکل پڑے۔ میں تمہاری غیر موجودگی میں پیدا ہوا۔ میری ماں نے کہا۔ تمہارا باپ مجھے تلاش کرنے نکل گیا ہے۔ تم اسے تلاش کرکے لاؤ۔ رات میں نے دیکھا نیچے فوارے کے پاس ایک کتیا گوشت کا تازہ ٹکڑا کھارہی ہے۔ میں نے سوچا تم ضرور یہاں ہوگے!‘‘ وہ بولے چلا جارہا تھا اور میں حیرانی سے اس ننھے سے بچے ی باتیں سن رہا تھا۔
پھر اس نے فرش پر پڑی لاش کی طرف دیکھا اور چیخ اٹھا۔
’’اُف، یہ حالت کردی ہے تم نے۔ کیا تم مجھے یہ کٹی پھٹی لاش ورثے میں دو گے؟‘‘
’’ورثہ؟‘‘ میں نے چاروں طرف حیرانی سے دیکھ کر پوچھا۔
’’ہاں یہ جمغورہ الفریم!‘‘ اس نے کہا۔
’’میں نے؟‘‘ مگر میں نے تو صرف ایک ٹکڑا اٹھاکر نیچے پھینکا تھا اور وہ بھی اس کے اپنے اصرار پر۔‘‘ میں سارے کے لیے ذمہ دار نہیں ہوسکتا۔ دکھو ان کتابوں میں کیا لکھا ہے،‘‘ میں نے روہانسی آواز میں کہا۔
وہ آہستہ آہستہ میرےقریب آگیا۔ اور غور سے میرے چہرے پر دیکھنے لگا۔ پھر اچانک جنگل کی طرف سےآواز آئی۔
’’یہ ماضی ہے!‘‘
’’یہ ماضی ہے!‘‘
جنگل کی طرف سے بے چہرہ آدمی اپنی سائیکل کھڑکھڑاتا ہوا ادھر آرہاتھا۔ میں نے گردن کھڑکی سےباہر نکال کر اسے دیکھا میرا بیٹا دوسری کھڑکی پر اچک کر چڑھ گیا اور نیچے سوکھے ہوئے فوارے کو، کان کھجاتی ہوئی خارش زدہ کتیا کو اور اپنے سائیکل کی چین چڑھاتے ہوئے بے چہرہ آدمی کو دیکھنے لگا۔
پھر میں نے دیکھا میرا بیٹا کمرے میں پلٹ کر سب چیزوں کو چھوڑ کر دیکھنے لگا۔ اور پھر فرش پر پڑی لاش کےقریب جاکر بیٹھ گیا۔ وہ بے انتہا اداس ہوگیا تھا۔
خارش زدہ کتیا نے بے تحاشہ بھونکناشروع کردیا۔ بے چہرہ آدمی اپنا سائیکل وہیں چھوڑ کر جنگل کی طرف بھاگا۔ سارےمیں رات اُترآئی اور جنگل سے جب جانوروں کے رونے اور عورتوں کے بین کرنےکی آوازیں آنے لگیں تو میرے بیٹے نے اپنی بانسری کے بڑے سراخ پر اپنے ہونٹ جمادیے اور پھر لاش کے سرہانے بیٹھ کر مالکونس بجانا شروع کیا۔
ایسے میں میری آنکھیں ڈبڈباآئیں اور میں یہ نہ دیکھ سکاکہ مجھے سے پہلے آنے والے لوگوں نے اس رات دسترخوان بچھایا یا نہیں!
سریندر پرکاش