آپ کا سلاماردو افسانےاردو تحاریرشاکرہ نندنی

تاریخ کے وارث – پہلی قسط

ایک اردو افسانہ از شاکرہ نندنی

shakira nandni

دن کا آغاز ہورہا تھا۔ دھندلے سورج کی روشنی کھڑکی کے پردوں سے چھن کر سبرینا کے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ اس کا کمرہ کتابوں، نوٹ بکوں اور کھڑکی کے قریب رکھے ایک چھوٹے سے گملے میں اگے پودے سے بھرا ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ شاعری کے انداز میں زندگی کو دیکھتی اور ان لمحات کو لفظوں میں قید کرنے کی کوشش کرتی۔ کھڑکی کے پاس کھڑی، وہ باہر کے منظر کو دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہہ رہی تھی:

"یہ دھندلی روشنی، یہ خاموشی، جیسے وقت رک گیا ہو، جیسے لمحے مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہوں۔ یہ ہوا، یہ درخت، یہ پرندے… سب خاموش ہیں، مگر فطرت کی شاعری بول رہی ہے۔”

اچانک، نیچے سے اس کی ماں کی آواز آئی۔ سبرینا کی ماں، جو ایک خوش مزاج وکیل تھی، باورچی خانے میں ناشتہ بنا رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں چوڑیوں کی ہلکی چھنک کے ساتھ کفگیر تھا، اور وہ گنگنا رہی تھی۔

"سبرینا! ناشتے کے لیے آؤ، جلدی کرو۔ تمہارے پسندیدہ پراٹھے بنائے ہیں، گرم گرم۔”
پراٹھے کی مہک سبرینا کے کمرے تک پہنچ چکی تھی، مگر وہ اپنی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔

ماں نے دو قدم باورچی خانے سے باہر آتے ہوئے دوبارہ آواز لگائی، اس بار تھوڑا شوخی کے ساتھ، "اگر شاعری ختم ہو گئی ہو، تو نیچے آؤ۔ پراٹھا بھی اپنی کہانی سنانا چاہتا ہے!”

سبرینا مسکرا کر بولی، "ماں، آپ بھی کبھی کبھی شاعری کر لیتی ہیں۔”

اسی دوران، آلیان اپنے کمرے میں شیشے کے سامنے کھڑی اپنی لپ اسٹک ٹھیک کر رہی تھی۔ اس کا مزاج ہمیشہ خوش باش اور شوخیوں سے بھرا ہوتا تھا۔ اس نے موبائل اٹھایا اور سبرینا کو کال ملائی۔ جیسے ہی کال لگی، اس نے شوخی بھرے انداز میں کہا:

"سبرینا! کیا تمہاری شاعری کے پرندے آج بھی اڑ رہے ہیں، یا میں آؤں اور جگت مار کر انہیں نیچے اتاروں؟”

سبرینا، جو ابھی تک کھڑکی کے پاس کھڑی تھی، مسکراتے ہوئے بولی، "آلیان، کبھی تو سنجیدہ ہو جایا کرو۔”

آلیان نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، "سنجیدگی اور آلیان؟ کیا تمہیں لگتا ہے، میں اس بورنگ دنیا میں اپنے جگت کے بغیر رہ سکتی ہوں؟”

اس دوران، آلیان کے والد، جو ایک ڈاکٹر تھے اور ہمیشہ مختصر بات کرتے، ناشتہ ٹیبل پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ آلیان نے فون رکھ کر ان کے پاس جا کر پراٹھا اٹھایا اور بولی:

"ابا، آج مجھے فریڈ سے ملنے جانا ہے۔ کلینک کے کام سے تھوڑا بریک لے کر میرے لیے کوئی مشورہ ہے؟”

ان کے والد نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے سر اٹھایا اور کہا، "زندگی میں ہمیشہ وقت ضائع کرنے کے بجائے کچھ سیکھو۔ فریڈ کے ساتھ مذاق کے بجائے کچھ تخلیقی بات کرو۔”

آلیان نے ہنستے ہوئے کہا، "ابا، آپ کی باتیں ہمیشہ سیدھی اور مختصر ہوتی ہیں، لیکن میری زندگی میں تفریح کا کوٹہ آپ ہی پورا کرتے ہیں!”

دوسری طرف، ان کا کلاس فیلو سنان، جو ہمیشہ فلسفیانہ انداز میں بات کرتا تھا، اپنی کتابوں میں کھویا ہوا تھا۔ وہ ایک پرانی کرسی پر بیٹھا تھا، جس کے سامنے ایک میز پر فلسفے کی بھاری بھرکم کتاب رکھی ہوئی تھی۔ اس کے قریب کافی کا کپ رکھا تھا، اور وہ گہرے خیالات میں گم تھا۔

"زندگی ایک سمندر ہے،” وہ خود سے کہہ رہا تھا۔ "ہم سب کشتیوں کی طرح ہیں، کبھی ہوا کے رخ پر، کبھی طوفان کے سامنے۔”

سنان کا فون بجا۔ اس نے کتاب ایک طرف رکھی اور فون اٹھایا۔ دوسری طرف آلیان تھی، جو اپنی جگتیں اس پر آزمانے کے موڈ میں تھی۔

"سنان، کیا تمہاری فلسفے کی کشتی ساحل پر پہنچی، یا ابھی بھی طوفان میں لڑکھڑا رہی ہے؟”

سنان نے تحمل سے جواب دیا، "آلیان، تمہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ طوفان ہی کشتی کو مضبوط بناتا ہے۔”

آلیان نے ہنستے ہوئے کہا، "بس بس، اپنی فلسفیانہ باتیں سنبھال کر رکھو۔ میں نے بس مذاق کرنا تھا۔”

یہ دن سبرینا، آلیان، اور سنان کے لیے الگ الگ مصروفیات کا تھا۔ ان سب کے خیالات اور دنیا مختلف تھے، مگر ان کی کہانیوں کے دھاگے آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے جڑنے والے تھے۔ ابھی سب کچھ معمول کے مطابق تھا، مگر آنے والے دنوں میں ان کی زندگی میں تبدیلی کی ہوائیں چلنے والی تھیں۔

شاکرہ نندنی

شاکرہ نندنی

میں شاکرہ نندنی ہوں، ایک ماڈل اور ڈانسر، جو اس وقت پورٹو، پرتگال میں مقیم ہوں۔ میری پیدائش لاہور، پاکستان میں ہوئی، اور میرے خاندانی پس منظر کی متنوع روایات میرے ثقافتی ورثے میں جھلکتی ہیں۔ بندۂ ناچیز ایک ہمہ جہت فنکارہ ہے، جس نے ماڈلنگ، رقص، تحریر، اور شاعری کی وادیوں میں قدم رکھا ہے۔ یہ سب فنون میرے لیے ایسے ہیں جیسے بہتے ہوئے دریا کے مختلف کنارے، جو میری زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button