بلا کی دھول ہے آنکھیں بھی اپنی دھو نہیں سکتا
کہ غسل ِ اشک میں ہو بھی تسلسل تو نہیں سکتا
گراتا ہے مجھے وہ اور یہ اکثر بھول جاتا ہے
خدا جب تک نہیں چاہے یہاں کچھ ہو نہیں سکتا
ابھی کچھ گام چلنا تھا سفر کی دھوپ لے ڈوبی
سفر میں لاکھ تنہا ہوں مگر میں رو نہیں سکتا
کسی کا ہجر زحمت ہے فقط اتنا ہی کافی ہے
کہ خوابوں کے لیے کوئی ہمیشہ سو نہیں سکتا
لگا کے وصل کے چسکے مجھے اس نے بگاڑا ہے
ذرا سی دیر بھی اب تو ہمیں مل وہ نہیں سکتا
کنارے تک تو لے آیا ہوں کشتی اپنی ہمت کی
اب اتنی دور آ کر ہوش اپنے کھو نہیں سکتا
ہوا ہے سب وہی جو میں کبھی کہتے نہ تھکتا تھا
سبھی ہو جائے دنیا میں مگر یہ ہو نہیں سکتا
احمد رضا حاضر