کس نے کھینچی حیات کی تصویر
ہاتھ میں جام پاؤں میں زنجیر
بات کرتا ہے ہنس کے جب صیاد
بھول جاتے ہیں اپنی بات اسیر
ہائے یہ راستے کے ہنگامے
اک تماشا سا بن گئے رہگیر
دیکھنا طرز پرسش احوال
بات کی بات اور تیر کا تیر
اتنے باریک تھے نقوش حیات
بنتے بنتے بگڑ گئی تصویر
وہ زمانے کی چال تھی باقیؔ
ہم سمجھتے رہے جسے تقدیر
باقی صدیقی