جو کہو تم سو ہے بجا صاحب
ہم برے ہی سہی بھلا صاحب
سادہ ذہنی میں نکتہ چیں تھے تم
اب تو ہیں حرف آشنا صاحب
نہ دیا رحم ٹک بتوں کے تئیں
کیا کیا ہائے یہ خدا صاحب
بندگی ایک اپنی کیا کم ہے
اور کچھ تم سے کہیے کیا صاحب
مہرافزا ہے منھ تمھارا ہی
کچھ غضب تو نہیں ہوا صاحب
خط کے پھٹنے کا تم سے کیا شکوہ
اپنے طالع کا یہ لکھا صاحب
پھر گئیں آنکھیں تم نہ آن پھرے
دیکھا تم کو بھی واہ وا صاحب
شوق رخ یاد لب غم دیدار
جی میں کیا کیا مرے رہا صاحب
بھول جانا نہیں غلام کا خوب
یاد خاطر رہے مرا صاحب
کن نے سن شعر میر یہ نہ کہا
کہیو پھر ہائے کیا کہا صاحب
میر تقی میر