آپ تک ہے نہ غم جہاں تک
جانے یہ سلسلہ کہاں تک ہے
اشک شبنم ہوں یا تبسم گل
ابھی ہر راز گلستاں تک ہے
ان کی پرواز کا ہے شور بہت
گرچہ اپنے ہی آشیاں تک ہے
پھول ہیں اس کے باغ ہے اس کا
دسترس جس کی باغباں تک ہے
پوچھتے ہیں وہ حال دل باقیؔ
یہ بھی گویا مرے بیاں تک ہے
باقی صدیقی