ناریل کے درختوں کی پاگل ہوا کھل گئے بادباں لوٹ جا لوٹ جا
سانولی سر زمین پر میں اگلے برس پھول کھلنے سے پہلے ہی آ جاؤں گا
گرم کپڑوں کا صندوق مت کھولنا ورنہ یادوں کی کافور جیسی مہک
خون میں آگ بن کر اتر جائے گی صبح تک یہ مکاں خاک ہو جائے گا
لان میں ایک بھی بیل ایسی نہیں جو دیہاتی پرندوں کے پر باندھ لے
جنگلی آم کی جان لیوا مہک جب بلائے گی واپس چلا جائے گا
میرے بچپن کے مندر کی وہ مورتی دھوپ کے آسماں پر کھڑی تھی مگر
ایک دن جب مرا قد مکمل ہوا اس کا سارا بدن برف میں دھنس گیا
ان گنت کالے کالے پرندوں کے پر ٹوٹ کر زرد بانی کو ڈھکنے لگے
فاختہ دھوپ کے پل پہ بیٹھی رہی رات کا بات چپ چپ بڑھتا گیا
بشیر بدر