کیا تن نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے
کیا بدن کا رنگ ہے تہ جس کی پیراہن پہ ہے
گرد جب اٹھتی ہے اک حسرت سے رہ جاتے ہیں دیکھ
وحشیان دشت کی آنکھ اس شکار افگن پہ ہے
کثرت پیکاں سے تیرے ہو گئی ہیئت ہی اور
اب شرف دل کو ہمارے پارئہ آہن پہ ہے
کون یوں اے ترک رعنا زینت فتراک تھا
خوں سے گل کاری عجب اک زین کے دامن پہ ہے
سر اٹھانے کی نہیں ہے ہم کو فرصت عشق میں
ہر دم اک تیغ جفاے تازہ یاں گردن پہ ہے
نوحہ گر کر مجھ کو دکھلایا غم دل نے ندان
شیون اب موقوف یاروں کا مرے شیون پہ ہے
ہوچکا رہنا مرا بستی میں آخر کب تلک
نالۂ شب سے قیامت روز مرد و زن پہ ہے
خرمن گل سے لگیں ہیں دور سے کوڑوں کے ڈھیر
لوہو رونے سے ہمارے رنگ اک گلخن پہ ہے
وے پھری پلکیں الٹ دیتی ہیں صف اک آن میں
اب لڑائی ہند میں سب اس سیہ پلٹن پہ ہے
تو تو کہتا ہے کہ میں نے اس طرف دیکھا نہیں
خون ناحق میر کا یہ کس کی پھر چتون پہ ہے
میر تقی میر