آپ کا سلامابصار فاطمہاردو افسانےاردو تحاریر

جسمانی طاقت کی بنیاد

افسانے کی حقیقی لڑکی از ابصار فاطمہ سے اقتباس

اگلی صبح وہ آفس کی گاڑی کا انتظار کیے بغیر ہی آفس پہنچ گئی۔ اسے پتا تھا کہ اگر وہ اپنے وقت پہ آفس جائے گی تب تک بختاور ایک میٹنگ کے لیے جاچکی ہوگی۔
بختاور کسی کام میں مصروف تھی جس کی وجہ سے بسمہ کو آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑا اور اس دوران بسمہ مسلسل یہ سوچ سوچ کے تلملاتی رہی کہ اب بختاور اس کی "باس” ہے اسی لیے انتظار کروا رہی ہے۔ ان لوگوں کا پبلک میں رویہ کچھ اور ہوتا ہے اور اصل میں کچھ اور۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ دب کے یا ڈر کے بات نہیں کرے گی۔ باس ہے تو ہوتی رہے۔ جتنا وقت گزرتا جارہا تھا بسمہ عجیب سے تناو کا شکار ہورہی تھی۔ اس کے ہاتھ ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے۔ وہ شدید اضطراب کا شکار ہورہی تھی۔ آخر کار بختاور نے اسے آفس میں بلوا لیا۔
"جی بسمہ! کیسی ہیں؟ دارلامان میں کام کیسا جارہا ہے؟”
بختاور کے نرم لہجے میں بات کرنے پہ بسمہ کچھ لمحوں کے لیئے بھول گئی کہ وہ کیا بات کرنے آئی تھی وہ تو آدھے گھنٹے سے خود کو باس والے سخت لہجے کے لیے تیار کر رہی تھی۔ اور اسی حساب سے جواب سوچے ہوئے تھے۔ نرم لہجے کا جواب تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔ کچھ گڑبڑا کر وہ ہونٹ کاٹنے لگی پھر کچھ لمحوں کے بعد بولی۔
"میڈم اسلم کی موجودگی میں مجھ سے کام نہیں ہوگا؟”
"تو آپ کیا چاہتی ہیں؟”
بختاور نے بہت پرسکون لہجے میں پوچھا
بسمہ کو یک لخت اندازہ ہوا کہ سوچنا الگ بات ہے مگر وہ یہ کہہ نہیں سکتی تھی کہ آپ اسلم کو نکال دیں۔ بہت ہی احمقانہ بات ہوتی۔
"اگر وہ یہاں موجود ہوگا تو مجھے جاب چھوڑنی پڑے گی۔”
"کیوں؟”
بختاور کے ٹو دی پوائنٹ سوال و جواب اسے مزید گھبراہٹ کا شکار کر رہے تھے۔
” وہ دوبارہ بھی ایسا کچھ کرسکتا ہے”
"آپ کو اس سے ڈر لگ رہا ہے”
"شاید” بسمہ نے کمزور سی آواز میں کہا۔ اسے احساس ہوا کہ وہ جسے اب تک نفرت سمجھ رہی تھی وہ خوف تھا۔
"آپ کو لگتا ہے کہ یہاں وہ کوئی ایسی حرکت کرنے کی ہمت کرے گا۔”
” میڈم سوری مگر یہ اس کی بھابھی کا آفس ہے اس کی پوزیشن بہرحال مجھ سے زیادہ مضبوط ہے اگر اس نے کچھ کیا تو آپ اسی کا ساتھ دیں گی۔ میرا ساتھ کون دے گا؟”
” بیٹا ایک بات تو آپ کلئیر کر لیں یہ میرا آفس نہیں میں بھی یہاں آپ کی طرح ملازم ہوں۔ میرا واسطہ صرف دارلامان کے پراجیکٹ سے ہے۔ جبکہ اسلم، مجید صاحب کے انڈر میں چائلڈ لیبر کے پراجیکٹ میں وولینٹئیر ہے۔”
"میڈم اس بات سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اگر اس نے کچھ کیا تو آپ اسے سپورٹ نہیں کریں گی؟”
"بسمہ آپ کو پتا ہے اسلم نے پہلے ایسا کیوں کیا تھا؟”
"مجھے کیسے پتا ہوگا؟ اور اس بات سے اس کا کیا تعلق”
"آپ کو نہیں پتا مگر پتا ہونا چاہیئے۔ اور اسی لیئے اس کا اس بات سے تعلق ہے۔ چلیں اس کو اگر اس طرح سے کہہ لیں کہ کوئی بھی لڑکا کسی لڑکی کو ایسے تنگ کیوں کرتا ہے؟”
بسمہ کو اس لمبے سوال جواب سے الجھن ہورہی تھی اسے ہاں یا ناں میں جواب چاہیئے تھا۔
"میڈم پلیز آپ ابھی والا مسئلہ حل کر دیں میں کوئی لیڈر یا فلسفی نہیں ہوں جو ان بحثوں میں پڑوں۔”
"چلیں فرض کریں میں مجید صاحب کو کہہ کر اسلم کو نکلوا دیتی ہوں مگر کیا اس سے آپ ہمیشہ کے لیئے ہر مرد سے محفوظ ہوجائیں گی؟ اور آپ خود کو اسلم سے بچانا چاہتی ہیں یا ہر مرد سے؟”
"ظاہر ہے ہر مرد سے”
” تو یہاں پہ کام کرنے والے سب مردوں کو نکلوا دیں؟”
بسمہ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ بلکہ جو جواب تھا وہ دے نہیں سکتی تھی۔ کیونکہ حقیقت یہ تھی کہ اسے اب ہر مرد سے ڈر لگتا تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ اس کے ڈر کی وجہ سے وہ تمام مردوں کو دنیا سے غائب نہیں کرسکتی تھی۔ یہ صرف وہی جانتی تھی۔ کہ گھر سے نکلتے ہوئے اس کا دل کس طرح کانپ رہا ہوتا تھا۔ آفس کی وین کا ڈرائیور، آفس کا چوکیدار، دارالامان کا گارڈ، انسٹیٹیوٹ کے ٹیچرز، کلاس فیلوز جس جس سے اس کا روز واسطہ پڑتا تھا اسے ہر اس مرد سے ڈر لگتا تھا۔ وہ ان سے بات کرنے سے ممکنہ حد تک بچنے کی کوشش کرتی تھی۔ اگر بات کرنی پڑ جائے تو وہ کوشس کرتی کہ اس کے لہجے میں اعتماد ہو مگر اسے اپنی ٹانگوں کی جان نکلتی محسوس ہوتی تھی۔ اور پھر اسلم تو خود ان دونوں مردوں میں سے ایک تھا جن کی وجہ سے اسے مرد ذات سے اتنا ڈر لگنا شروع ہوا تھا۔ ہر بار اسلم کو دیکھ کر اس کے دل کی دھڑکن اتنی تیز ہوجاتی تھی جیسے بس اب خوف سے اس کا دل بند ہوجائے گا۔ بختاور جواب طلب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی اور وہ سر جھکائے سوچے جارہی تھی۔ اس کی اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ سر اٹھا کر بختاور کی طرف دیکھ سکے۔ آخر کار بختاور نے ہی بات شروع کی۔
"بسمہ بیٹا آپ اور آپ جیسی کئی لڑکیاں تعریف کے قابل ہیں کیونکہ وہ اپنے خوف کے باوجود گھر سے نکل کر اپنی زندگی معمول کی مطابق جینے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر کبھی کبھی ایسے مواقع آتے ہیں جب ان کی یہ ہمت جواب دے جاتی ہے۔ ایسے وقت میں آپ کے پاس دو طریقے ہوتے ہیں یا تو ڈر کے پیچھے ہٹ جائیں یا پھر اپنے ڈر کا مقابلہ کریں۔”
"ڈر کا مقابلہ ہی تو کرنے کی کوشش کر رہی ہوں”
"بیٹا ایسے ڈر کا مقابلہ نہیں کرتے بلکہ ڈر کے پیچھے ہٹتے ہیں۔ آپ کہاں کہاں اسلم یا اسلم جیسے مردوں کی وجہ سے خود کومحدود کریں گی؟”
"تو کیا کروں؟ خود کو اسلم اور باسط جیسے مردوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دوں، آو جو کرنا ہے کرلو؟”
شدت جذبات سے بسمہ کی آواز کانپ گئی۔ وہ بہت کچھ بولنا چاہتی تھی مگر رونا نہیں چاہتی تھی اسی لیئے چپ ہوگئی۔
"بسمہ اچھا فی الحال اپنی اور اسلم کی بات کو سائیڈ پہ رکھیں یہ بتائیں آپ کے خیال میں مجھے مرد تنگ کرتے ہوں گے؟”
بسمہ نے پہلی بار بختاور کو غور سے دیکھا۔ اور اسے اندازہ ہوا کہ بختاور بہت زیادہ خوبصورت نہیں ہے۔ اس کی شخصیت پہ سب سے حاوی بات اس کی نرمی اور خوداعتمادی ہے جس کی وجہ سے وہ پہلی نظر میں بہت پیاری لگتی ہے۔ بختاور سے بات کرتے ہوئے بالکل ایسا لگتا تھا جیسے وہ نفیس آنٹی سے بات کر رہی ہو۔ مگر بختاور، نفیس آنٹی کے مقابلے میں لباس ذرا مہنگا استعمال کرتی تھی اور بالکل ہلکا میک اپ بھی کیا ہوتا تھاشاید اس کے پیارے لگنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ پہلے اس نے سوچا کہ یہ اتنی پیاری ہیں مرد انہیں تنگ کرتے ہونگے پھر سوچا شاید انہیں کبھی کسی مرد نے تنگ نہیں کیا ہو اسی لیئے انہیں اندازہ ہی نہیں اسی لیئے ایسی بات کر رہی ہیں۔
"میڈم میرا نہیں خیال کہ آپ کو مرد تنگ کرتے ہوں گے۔” اس نے تھوڑا جھجھک کے کہا۔
"بسمہ ٹین ایج کی لڑکیوں کو عموما کلاس فیلوز، اسکول ٹیچرز، محلے کے انکل یا گلی کے کونوں پہ کھڑے ہوئے لوفر لڑکے تنگ کرتے ہیں۔ جن کی زیادہ سے زیادہ ہمت یہی ہوتی ہے کہ کوئی فقرہ بول دیا، کہیں ٹچ کردیا، جھوٹا عشق جھاڑ لیا۔ ایسے میں زبردستی کچھ کرنے کے چانسز ہوتے ہیں مگر بہت کم۔ کیونکہ یہ لوگ بہت ڈرپوک ہوتے ہیں۔ جبکہ ہم جیسی آفس میں کسی اہم سیٹ پہ موجود خواتین کے ہراساں کرنے والے ہم سے بھی زیادہ اہم سیٹس پہ بیٹھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ ہمیں وکیل، سیاسی رہنما، فنڈ دینے والے اور اسی قسم کے مضبوط پوزیشنز رکھنے والے مرد ہراساں کرتے ہیں۔ یہ حضرات بے ضرر جملے نہیں کہتے نا تھوڑا بہت ٹچ پہ اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ یہ ہمارے کاموں میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور پھر آفر رکھتے ہیں۔ اگر آج سب عورتوں نے ان سب مردوں سے ڈرنا شروع کردیا تو کیا ہوگا؟”
"سیاسی لوگ تو بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ میں نے سنا ہے یہ لڑکیاں اٹھوا بھی لیتے ہیں۔ ایسے میں تو اس بندی کو چھوڑنا ہی پڑتا ہوگا اپنا کام”
بسمہ اندر تک کانپ گئی۔
"بسمہ ایسی سچویشن میں ہمارے پاس چھوڑنے کا آپشن ہی نہیں ہوتا۔ یا تو مقابلہ کرنا ہوتا ہے یا ان کی آفر ماننی ہوتی ہے۔ ان سے چھپ کر بندہ کہیں نہیں جاسکتا۔”
"اتنے بڑے لوگوں کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے کوئی عورت؟”
"بسمہ بالکل یہی بات آپ نے ایک عام مرد کے لیئے بھی کہی تھی۔” بختاور ہلکے سے مسکرائی
"اور یہی بات اہم اور سمجھنے والی ہے۔ ہر جگہ ہر اس انسان کو نقصان پہنچایا جاتا ہے جو کمزور ہو۔ ہمیشہ مرد ہی عورت کو نقصان نہیں پہنچاتے بالکل اسی طرح کسی مرد کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر عورتیں بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔”
"یہ کیسے ممکن ہے میڈم۔ آپ نے ایک دفعہ پہلے بھی ایسا حوالہ دیا تھا اور تب بھی میری سمجھ میں نہیں آیا تھا۔”
” دیکھو ریپ یا عزت لوٹنے میں ہم سمجھتے ہیں کہ سامنے والا اپنی جسمانی طاقت کی بنیاد پہ یہ سب کرتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ تم نے سہیل کو دیکھا ہے؟ ہماری دارلامان والی وین کا ڈرائیور؟”
"جی”
بسمہ کو وہ اپنے آپ میں مگن تقریبا بیس سالہ سہیل فورا یاد آگیا۔ بسمہ نے اسے پورے ایک سال میں کبھی چھٹی پہ نہیں دیکھا تھا۔ اتنا مستعدی سے اپنا کام کرنے والا بندہ اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر ایک بات جو بسمہ نے نوٹ کی وہ اس کی گھبراہٹ یا جھجھک تھی۔ وہ عموما خاموش رہتا تھا۔ اور اگر کوئی لیڈی ٹیچر اس سے کچھ پوچھ لیتی تو اس کے لہجے میں واضح گھبراہٹ ہوتی تھی وہ جلدی سے الٹا سیدھا جواب دے کر بات ختم کردیتا۔ ٹیچرز اس کے منہ پہ ہی اس کا بہت مذاق اڑاتی تھیں۔
"تمہیں پتا ہے اس سے پہلے یہ کہاں کام کرتا تھا؟”
بسمہ نے نفی میں سر ہلا دیا
"تقریبا 5 سال پہلے چائلڈ لیبر کے ایک پراجیکٹ کے دوران اس سے ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ ایک ہوٹل پہ کام کرتا تھا ہوٹل کی مالک ایک عورت تھی شروع میں اس نے بتایا کہ یہ اس کا بیٹا ہے مگر اردگرد کے لوگوں سے پتا چلا کہ اس نے 4 سال پہلے کسی بچے بیچنے والے گروہ سے اسے خریدا تھا۔ ہم نے دوبارہ پوچھ تاچھ کی تو وہ عورت مان گئی کہ اس کے شوہر کا انتقال جلدی ہوگیا تھا اور اسے اولاد کی خواہش تھی شوہر کا ہوٹل بھی چلانے کے لیئے کوئی مددگار چاہیئے تھا۔ مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ گھناونی تھی۔ وہ عورت اس سے دن بھر مار پیٹ کر کے کام کرواتی تھی اور رات میں اپنی تسکین کے لیئے استعمال کرتی تھی۔ یہ سب سہیل نے کافی دن بعد ہمیں بتایاہم نے زبردستی اس عورت کو مجبور کیا کہ اسے پڑھایا جائے۔ جب یہ ہم سے مانوس ہوگیا تو ایک دن اس نے خود یہ سب بتایا اور کہا کہ مجھے یہاں سے نکال لیں۔ اس عورت کو فورا ہم نے پکڑوا دیا۔ تقریبا تین سال مقدمہ چلا اب وہ جیل میں ہے۔ اور تب سے یہ مستقل ہمارے ساتھ ہے۔ پڑھ بھی رہا ہے اور کام بھی کرتا ہے پڑھائی میں کمزور ہے مگر محنت بہت کرتا ہے پڑھنے میں۔ اسی لیئے تھوڑی بہت گنجائش نکال کر اسے پاس کردیا جاتا ہے۔اب آٹھویں تک آگیا ہے وہ۔ اس کے علاوہ بھی ہمارا واسطہ کئی ایسی مردوں اور عورتوں سے پڑتا ہے جنہیں انہی کے ہم صنف نقصان پہنچاتے ہیں اور وجہ وہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے ان سے کمزور ہوتے ہیں۔ عموما یہ مجبوری معاشی ہوتی ہے۔”
"یہاں تک تو بات سمجھ آگئی کہ کوئی بھی مضبوط پوزیشن والا کسی بھی کمزور کو استعمال کرسکتا ہے۔ چاہے مرد ہو یا عورت مگر میرا مسئلہ تو وہیں کا وہیں ہے کہ میں بچوں کیسے؟”
"چلو ایک تجربہ کرتے ہیں” بختاور ایک دم کھڑی ہوگئی۔ بسمہ کچھ حیران سی ہوگئی۔ بختاور نے آفس کی دو خواتین کے برقعے منگوائے جو کافی حد تک ایک جیسے تھے۔ وہ دونوں باہر آئیں تو گارڈ کے روم میں سہیل بھی بیٹھا اس وقت بھی کوئی کتاب اس کے ہاتھ میں تھی۔ بختاور کو دیکھ کر وہ مستعدی سے کھڑا ہوگیا۔ بختاور نے پہلے گارڈ کو مخاطب کیا۔
ارشد بھائی کوئی سب سے قریبی ایسا علاقہ بتائیں جہاں بہت چھچھورے قسم کے لڑکے ہر وقت موجود ہوتے ہیں اور ہر آتی جاتی لڑکی کو چھیڑتے ہیں۔”
اتنے عجیب سوال پہ ارشد بھائی جواب دینے کی بجائے دانت نکال کے ہنس دیئے۔
"ارے بتائیں میں سیرئیس ہوں”
” میڈم دو گلیوں کے بعد ایک اسنوکر کلب ہے وہاں ہر وقت لڑکے جمع رہتے ہیں ہے بھی گلی کا کونا عموما لڑکیاں وہاں سے گزرتے میں ڈرتی ہیں حالانکہ بیچ والی گلی میں ایک کمپیوٹر سینٹرہے لڑکیوں کو آنا ہوتا ہے تو لمبا چکر کاٹ کے آتی ہیں اس گلی سے نہیں گزرتیں۔”
"سہیل بیٹا آپ نے دیکھی ہے گلی؟”
سہیل نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
"بسمہ آپ یہ برقعہ پہنو اور نقاب لگا لو۔” بختاور نے ایک برقعہ بسمہ کو پکڑا دیا اور دوسرا خود پہن لیا۔ اب دیکھنے میں دونوں ایک جیسی لگ رہی تھیں نا دونوں کی عمر کا اندازہ ہورہا تھا نا شکل و صورت کا۔ دونوں وین میں بیٹھ گئیں۔ سہیل نے وین لاکر اسنوکر کلب سے کچھ پہلے روکی۔ وہاں سے گلی کا موڑ اور وہاں کھڑے لڑکے واضح دکھائی دے رہے تھے۔
"بسمہ آپ یہاں اتریں گی۔ مگر فی الحال گلی کی آڑ میں رہیئے گا۔ جب آپ کو سامنے والی گلی سے وین کا اگلا حصہ تھوڑا نظر آنے لگے تو ان لڑکوں کے سامنے سے گزر کر وین میں آکر بیٹھ جایئے گا۔ ہم وین ایسے کھڑی کریں گے کہ لڑکوں کو اندازہ نا ہو کہ وہاں کوئی وین کھڑی ہے صرف آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔”
بسمہ ہکا بکا وہاں کھڑی رہ گئی اور وین چلی گئی۔
سنسان گلی میں دیوار کی اوٹ سے سامنے اوباش لڑکوں کا ٹولا دیکھ کر بسمہ کو لگا وہ ابھی بے ہوش ہوجائے گی۔
بسمہ کے لیے ایک ایک لمحہ گزارنا عذاب تھا۔ اسے عجیب عجیب خیال آرہے تھےکہ شاید بختاور اسے چھوڑ کے واپس آفس نا چلی گئی ہو۔ یہ لڑکے اسے اغواء نا کرلیں۔ تقریبا 2 منٹ بعد اسے دوسری طرف وین نظر آئی صرف چند سیکنڈ کے لیے ہی کچھ نظر آئی پھر پیچھے ہوگئی۔ اب صرف آگے سایہ پڑتانظر آرہا تھا۔ اور جس کا دھیان نا ہو اسے اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ وہاں کوئی وین کھڑی ہے۔ بسمہ نے چند گہرے سانس لے کر ہمت مجتمع کی اور گلی میں آگے قدم بڑھا دیئے۔
وہ سب کالج جانے والی عمر کے لگ رہے تھے ان سب لڑکوں کی توجہ آپس کی باتوں پہ تھی جو وہ بہت بلند آواز سے کر رہے تھے۔ اس میں بات کم اور فحش گالیاں زیادہ تھیں جو وہ مذاق میں ایک دوسرے کو دے رہے تھے۔ زیادہ تر کے ہاتھ میں سگریٹ بھی تھیں۔ بسمہ ان کی زبان سن کر اور خوفزدہ ہوگئی۔ اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں وہ جتنا جلدی چل سکتی تھی چل رہی تھی مگر اسے لگ رہا تھا جیسے وقت رک گیا ہو۔ اس کے پاوں من من بھر کے ہوگئے ہوں یا جیسے وہ خواب میں یہ سب دیکھ رہی ہو۔ اس کے جسم کا ہر روواں حساسیت کی حدوں پہ تھا۔ اسے اپنا دل سینے، کنپٹی ہتھیلیوں میں ایک ساتھ دھڑکتا ہوا لگ رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو خود میں چھپا لے۔ اس نے برقعے کا اسٹالر مزید کس کے اپنے گرد لپیٹ لیا اور دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ وہ چند قدم آگے گئی ہوگی کہ لڑکوں کو بھی احساس ہوگیا کہ کوئی لڑکی آرہی ہے۔ وہ باتیں کرتے جارہے تھے اور اسے دیکھتے جارہے تھے۔ پھر ان میں سے ایک بولا
"اتنی جلدی میں کہا جارہی ہو۔ دو منٹ ہم سے بھی بات کرلو”
اور پھر ایک کے بعد ایک سب ہی کچھ نا کچھ بولنے لگے ہر ایک بات کے بعد وہ مل کر قہقہہ لگاتے
"چہرہ تو دکھا دو۔ گورے گورے ہاتھ ہیں سب ہی گورا گورا ہوگا۔”
"ٹائم تو دے دو”
"او کالے برقعے والی اپنا نام تو بتا” ایک لڑکا آگے بڑھ کے اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ مگر کچھ قدم چل کے رک گیا۔ بسمہ کی گھبراہٹ اتنی واضح تھی کہ ان سب لڑکوں کو اندازہ ہورہی تھی وہ مزید اونچے قہقہے لگا رہے تھے۔
بسمہ کی رفتار اتنی تیز ہوگئی کہ اسے لگنے لگا کہ وہ بھاگ رہی ہے۔ چند لمحوں کا فاصلہ اس کے لیے صدیوں جیسا ہوگیا۔ وہ وین تک پہنچی تو اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔
وہ فورا دروازہ کھول کے اندر بیٹھ گئی۔ بختاور نے اسے پانی کی چھوٹی بوتل پکڑا دی۔ نقاب ہٹا کے وہ آدھی بوتل ایک ہی سانس میں پی گئی۔ بختاور نے اس کا ہاتھ پکڑ کے تھپتھپایا۔ کچھ دیر بسمہ سیٹ کی بیک سے ٹیک لگا کر گہرے سانس لیتی رہی۔ اس کا دل ابھی تک کانپ رہا تھا۔
تقریبا 5 منٹ بعد جب اس کے حواس کچھ قابو میں آئے تو بختاور نے جو برقعہ خود پہنا ہوا تھا اس کا نقاب لگایا۔ پرس اٹھا کر کندھے پہ ڈالا۔ اپنا موبائل اٹھا کر ہاتھ میں پکڑا اور بسمہ کو مخاطب کیا
"اب غور سے دیکھنا”
بختاور کے کہنے پہ سہیل نے پہلے ہی وین کا مرر ایسے سیٹ کیا ہوا تھا کہ پوری گلی نظر آرہی تھی۔ بسمہ کو بھی انہوں نے ایسے ہی دیکھا تھا۔
بختاور بالکل عام انداز میں درمیانی رفتار سے مضبوط قدم اٹھا رہی تھی۔ اس کی نظریں اپنے موبائل پہ تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا اسے پتا نہیں ہے کہ گلی میں کوئی اور بھی موجود ہے۔ وہ آگے گئی تو حسب عادت لڑکوں نے اس پہ بھی کوئی فقرہ کسا۔ بختاور نے بہت اطمینان کے ساتھ اپنے موبائل سے نظریں ہٹائیں اور لڑکوں کی طرف دیکھا اور بسمہ کو حیرت کا جھٹکا لگا جب وہ لڑکے ایک دم ہی ادھر ادھر دیکھنے لگے جیسے انہیں پتا ہی نہیں کہ جملہ کس نے بولا۔ بختاور نے ان میں سے ایک کو مخاطب کیا۔
"آپ نے کچھ کہا جناب”
” نہیں باجی”
” نہیں کسی نے کچھ کہا تھا۔ آواز آئی تھی۔ کوئی مسئلہ ہے تو میں حل کروں؟ ” بختاور دو قدم اگے بڑھ کر کھڑی ہوگئی اور بازو لپیٹ لیئے۔ لڑکے دو قدم پیچھے ہوگئے۔ بختاور ان میں سے ایک کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔
” نہیں میڈم کوئی مسئلہ نہیں آپ جائیں۔”
"ہمم اصل میں یہاں کی کافی شکایتیں آرہی ہیں شاید دوسرے کوئی لڑکے یہاں سے گزرنے والی لڑکیوں کو تنگ کرتے ہیں۔ تو ڈی سی صاحب نے کہا چیک کر کے آو۔ نام پتا معلوم ہو تو پکڑ کے اندر کریں۔ آپ بتائیں کتنی بری بات ہے نا
برقعے میں تو کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ ان لڑکوں کی ماں بہن بھی۔”
” باجی ہمیں نہیں پتا ہم تو ابھی آکے کھڑے ہوئے تھے۔ چل یار میرا تو انسٹیٹیوٹ کا ٹائم ہوگیا میں جارہا ہوں۔” یہ وہی تھا جس نے بسمہ کو چہرہ دکھانے کی فرمائش کافی فحش انداز میں کی تھی۔ اور اب اس کا لہجہ ہی بدلا ہواتھا۔ وہ فورا وہاں سے چل دیا۔ بختاور انہیں دیکھتی رہی اور ایک ایک دو دو کرکے وہ سب وہاں سے چلے گئے۔ آخری والے لڑکے کو بختاور نے آواز دے کے دوبارہ روکا۔
” بھائی آپ سب سے سمجھدار لگ رہے ہیں خیال رکھیئے گا یہاں دوبارہ لڑکے جمع نا ہوں آگے ہماری وین کھڑی ہے یہ روز چیک کرنے آئی گی۔”
بختاور نے مڑ کے سہیل کو اشارہ کیا۔ سہیل نے وین اسٹارٹ کر کے گلی میں موڑ لی۔ وین میں بسمہ کو دیکھ کر اس لڑکے کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے۔
” سمجھ تو آپ گئے ہونگے۔ پہلے جوکچھ ہوا اس کی وڈیو بھی ہے ہمارے پاس۔ اب ان میں سے کوئی بھی لڑکا دوبارہ یہاں نظر آیا تو نتیجے کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔”
دھیمی آواز میں بختاور کا لہجہ اتنا سخت اور مضبوط تھا کہ بسمہ کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑتی محسوس ہوئی اور لڑکے کا جو حال تھا وہ اس کے چہرے سے ظاہر تھا۔
بختاور وین میں بیٹھ گئی اور سہیل نے وین آگے بڑھا دی پیچھے لڑکا بھاگتا ہوا اسنوکر کلب میں گھس گیا۔
وین چلتے ہی بختاور نے نقاب ہٹا دیا۔ پھر سہیل سے کہا
"قریبی ویمن پولیس اسٹیشن لے کے چلو۔”
"میڈم پولیس تک مسئلہ نا جائے تو بہتر ہے۔ پتا نہیں کون لڑکے تھے پیچھے نا پڑ جائیں۔ آپ کے تو تعلقات ہیں کافی آپ کے لیے تو مسئلہ نا ہو شاید مگر میرے تو گھر والے بھی سپورٹ نہیں کرتے میں کہاں جاوں گی۔”
بسمہ ابھی بھی گھبرا رہی تھی۔ ساری زندگی کا سیکھا ہوا خوف ایک جھٹکے سے تو ختم نہیں ہوجاتا۔
"بسمہ ایسے معاملات میں ہر عورت اکیلی ہی ہوتی ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں جو کرتی پھرتی ہوں تو میرے گھر والے ہر کام میں مجھے سپورٹ کرتے ہیں؟ یا احمد کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا؟ بیٹا ہم بھی انہی عام گھرانوں سے نکل کر آتے ہیں۔ ہمیں بھی بچپن سے یہی سکھایا جاتا ہے کہ اگر لڑکے نے لڑکی کو کچھ کہہ دیا تو غلطی لڑکی کی ہے۔ دوپٹا نہیں اوڑھا ہوگا، اوڑھا ہوگا تو چہرہ کھلا ہوگا۔ نقاب ہوگی تو برقعہ نہیں ہوگا برقعہ ہوگا تو چال میں دعوت ہوگی۔ یہ سب صحیح ہوگا تو کسی اور عورت کو دیکھ کر بہکا ہوگا اور ردعمل یہاں نظر آیا ہوگا۔ ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ بلکہ یہ کہوں تو بہتر ہوگا کہ ہمارا معاشرہ طاقتور کا معاشرہ ہے۔ وہ کچھ بھی کرتا پھرے غلطی ہمیشہ اس کے حرکتوں سے متاثر ہونے والے کمزور کی کہی جاتی ہے۔ ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں کے وزیر مہنگائی کا ذمہ دار بھی گھر کا سودا لانے والے نوکر کو ٹہراتے ہیں۔”
"اسی لیے تو کہہ رہی ہوں کہ معاملے کو اتنا نا بڑھائیں کہ ہم سنبھال نا سکیں۔”
"بسمہ زندگی کا اصول ہے بقا اس کی ہوتی ہے جو سب سے مضبوط ہوتا ہے۔ سائنس میں سروائیول آف دی فٹیسٹ ( survival of the fittest) کا نظریہ پڑھا ہے نا۔ تو ہمارے معاشرے میں بھی یہی اصول کام کرتا ہے۔ جنگل میں جو جسمانی طور پہ کمزور ہو اسے کوئی نا کوئی شکار کر کے ختم کردیتا ہے۔ انسانوں کے معاشرے میں جو شخصی طور پہ کمزور ہو اس کی شخصیت ختم کردی جاتی ہے۔”
” مگر میڈم شہر اور جنگل کے قانون میں کوئی تو فرق ہوگا”
” تم نے ابھی تک کوئی فرق دیکھا؟” بختاور نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، بسمہ نے نہیں میں سر ہلا دیا۔ بختاور نے اپنی بات آگے بڑھائی
” مگرہوتا ہے یہاں دو قسم کے مضبوط لوگ ہوتے ہیں۔ ایک جن کے پاس پیسا ہوتا ہے اور دوسرے جن کے پاس کردار ہوتا ہے۔ پیسے والے دوسروں کو استعمال کرتے ہیں۔ کردار والے استعمال ہونے والوں کو حق کی جنگ لڑنا سکھاتے ہیں۔ یہ جنگ ہمیشہ سے جاری ہے ایک طرف ظالم ہوتا ہے بہت سارے مظلوم ہوتے ہیں اور ایک طرف اس ظلم کے خلاف بغاوت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان بغاوت کرنے والوں کو پتا ہوتا ہے کہ ظالم کے پاس سوائے خوف کے کچھ بھی نہیں ایک دفعہ مظلوم جاگ جائے تو ظالم کچھ نہیں کرپاتا۔ خود دیکھ لو۔ جب تک نازیہ خاموش تھی اسے سب نے استعمال کیا اس کی شخصیت کی کمزوری کو سب نے اس کی برائی گردانا مگر ایک بار وہ بغاوت پہ اتر آئی اپنے حق کے لیئے کھڑی ہوگئی تو باسط سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ اصل میں ظالم کو پتا ہے کہ جب تک مظلوم ڈرتا رہے گا اس کی مٹھی میں رہے گا۔ مزدور ہو، بیوی ہو یا کوئی اور کمزور شخص اسے مذہب کا طعنہ دے کر اخلاقیات کی زنجیروں میں جکڑ کر اپنا غلام بنائے رکھتے ہیں۔ مظلوم بے وقوف نہیں ہوتا۔ مگراس کے دل میں اخلاقیات اور مذہب کے نام پہ جو خوف بٹھایا جاتا ہے وہ اسے کمزور کردیتے ہیں۔تم نے کبھی اشرافیہ طبقے میں لوگوں کو مذہب یا اخلاقیات کے بارے میں اتنا پریشان ہوتے نہیں دیکھا ہوگا جتنا ہم مڈل کلاس والے ہوتے ہیں۔ تم اپنی مثال لے لو۔ تم نے کیوں باسط کا غلط رویہ سہا۔ کیوں کسی کو نہیں بتایا کہ اسلم نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟ اگر یہی گھر والے تم سے کہتے کہ کوئی مسئلہ ہو تو پہلے ہمیں بتانا تمہارے دل میں ‘لوگ کیا کہیں گے’ کا خوف نا بٹھایا گیا ہوتا توکیا تم پھر بھی خاموشی سے سب کچھ سہتیں؟”
"شاید نہیں، کیونکہ سچی بات یہی ہے کہ جو کچھ میں نے سہا وہ میری برداشت سے بہت زیادہ تھا۔ اگر مجھے ذرا سا بھی کسی کا سہارا ہوتا میں فورا اس تکلیف دہ ماحول سے نکلنے کی کوشش کرتی۔ مگر میرے گھر والوں کے لیے شاید میری کوئی اہمیت نہیں تھی۔ میں بہت دفعہ سوچتی ہوں کہ اگر میری ذات ان کے لیے اضافی اور غیر ضروری تھی تو مجھے دنیا میں لائے ہی کیوں تھے۔” بسمہ نے سچائی سے دل کی بات بتا دی
"غلطی تمہارے والدین کی بھی نہیں ہے۔ بلکہ غور کرو تو غلطی اسلم اور باسط کی بھی نہیں۔”
"یعنی اب آپ بھی یہی کہیں گی کہ میری ہی غلطی ہے۔ شکریہ میڈم اتنا لمبا عملی نمونہ پیش کرکے وہی گھسی پٹی تقریر سے بہتر تھا آپ مجھے نوکری سے نکال دیتیں فورا۔” بسمہ کو ایک دم غصہ آگیا
"بسمہ بیٹا کم از کم بات تو پوری سن لیں” بسمہ نے غصے میں سر جھٹکا
"جی بتایئے”
"بسمہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنا مسئلہ انفرادی حد تک دیکھتے ہیں اسی لیئے ذمہ دار کسی ایک فرد کو ٹہراتے ہیں۔ جب کہ مسئلہ انفرادی ہے ہی نہیں مسئلہ پورے نظام کا ہے۔ تمہیں یہ تو نظر آیا کہ باسط نے تم پہ ظلم کیا۔ لیکن باسط نے کیا سہا اگر وہ اپنے بیان میں نا بتاتا تو کیا کبھی تمہیں پتا چل سکتا تھا؟ یا ایک دفعہ بھی تم نے سوچا کہ باسط کو کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے؟ پھر باسط کے معاملے میں غلطی اگر اس کے والد کی کہی جائے تو اس کے والد کی شخصیت میں گڑبڑ کس کی غلطی؟”
"میڈم باسط کی بات تو آپ رہنے دیں یہ سب اس نے ہمدردیاں بٹورنے کا ڈرامہ کیا تھا اور کچھ نہیں”
"اگر ڈرامہ تھا تو اسے فائدہ کیا ہوا؟ اس کی سزا میں کوئی کمی ہوئی۔ اصل میں تم یہ اس لیئے سمجھ رہی ہو کیونکہ تمہارا واسطہ عدالت کے معاملات سے اتنا پڑا نہیں ورنہ باسط اور اس کا وکیل چاہتے تو یہ مسئلہ کئی سال چلتا رہتا۔ سزا اسے ضرور ہوتی کیونکہ معاملہ ایسا تھا مگر کئی سال بعد۔ اس کے اس بیان نے اسے فائدے کی بجائے نقصان پہنچایا اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے جو کہا وہ سچ تھا۔”
"یعنی آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ باسط نے جو کچھ کیا اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں اسے سزا نہیں ملنی چاہیے تھی؟”
"نہیں اسے اور اس جیسے ہر مجرم کو سزا ضرور ملنی چاہیے اسے لیے ہم ابھی تھانے بھی جارہے ہیں۔ مگر ساری بات کا مقصد یہ ہے کہ یہ سمجھو کہ مسئلہ کسی ایک فرد کا نہیں پورے سسٹم کا ہے۔ جہاں طاقتور کو ہر آزادی حاصل ہے اور کمزور کے لیے کچھ نہیں۔ جو لوگ سسٹم کو غلط سلط اپنے تجربے کی بنیاد پہ سمجھ کر اس میں اپنی بقا کی کوشس کرتے ہیں وہ یا تو طاقتور بن کر ظلم ڈھاتے ہیں یا کمزور بن کر ظلم سہتے ہیں۔ تمہارے اپنے گھر میں ایسی کئی مثالیں ہونگی۔ عموما ساس اور بہو کے رشتے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ آتی ہے جب تک ساس صاقتور رہتی ہے وہ ظلم اور ناانصافی کرتی ہے۔ جب بہو طاقتور ہوجاتی ہے تو بہو وہی کچھ ساس کے ساتھ کرتی ہے۔”
بسمہ کو فورا امی اور دادی کا رویہ یاد آیا جو بالکل ایسے ہی تھا جیسے بختاور نے بتایا۔ بختاور کی بات جاری تھی۔ اس نے آگے کہا
"سسٹم کو صحیح کرنے کے لیے ان لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو نا کسی دوسرے کا حق چھینیں اور نا اپنا حق چھیننے دیں۔ یہ یاد رکھو تم جتنی دفعہ خاموش رہ کر مسئلہ دبانے کی کوشش کرو گی تم کسی اور طاقتور کو دعوت دو گی کہ آو مجھے استعمال کرو میں بے جان گڑیا ہوں، مجھے تکلیف نہیں ہوتی میرے کوئی جذبات نہیں۔” اب کی بار بسمہ نے ایسے سر ہلایا جیسے اسے کافی حد تک بات سمجھ آگئی۔
ان کی بات ختم ہونے کے بعد وین میں خاموشی چھا گئی۔ پانچ منٹ تک وین مزید چلتی رہی اور پھر ایک تھانے کے سامنے جاکر رک گئی۔
تھانے کی کچھ لیڈی پولیس آفیسرز بختاور کو پہچانتی تھیں۔ اسی لیے خلاف معمول اس کی شکایت کو سنجیدگی سے ڈیل کیا گیا اور فورا ایف آئی آر کاٹی گئی۔ ان کا بیان لکھوا کر اسی وقت ایک پولیس وین دوبارہ ان کے ساتھ اسنوکر کلب پہ آئی وہاں موجود سب لڑکوں کو پولیس نے ان دونوں کے سامنے شاخت کے لیے کھڑا کردیا تین لڑکے وہی تھے جو پہلے ان لڑکوں کے ٹولے میں شامل تھے۔ ساتھ ہی انسپکٹر نے اسنوکر کلب کے مالک کو بھی پکڑ لیا۔ جس کی لاپرواہی کی وجہ سے لڑکے یہاں جمع ہوکر نازیبا حرکتیں کر رہے تھے۔ پولیس وین وہاں سے تھانے چلی گئی اور وہ لوگ اپنے آفس آگئے۔
بختاور نے چائے منگوائی اور بسمہ کو لے کر آفس میں آگئی اور دوبارہ بات شروع کی
"ہمم اب تمہارے خیال میں مسئلہ حل ہوگیا؟”
"اسلم والا یا اسنوکر کلب والا؟”
"اسنوکر کلب والا۔ اسلم والا مسئلہ تم خود ڈیل کرو گی۔ کیونکہ وہ تمہارا ذاتی مسئلہ ہے۔ یہ یاد رکھو میں یا کوئی اور قدم قدم پہ تمہارے مسئلے حل کرنے یا مشورے دینے کے لیے موجود نہیں ہوگا۔ اور یہی سمجھانے کے لیے میں نے اسلم والے معاملے میں مدد کرنے کی بجائے تمہیں دکھایا کہ ایسے مسئلے حل کیسے کرتے ہیں خیر ابھی کے بارے میں بتاو کیا لگ رہا ہے تمہیں۔”
"ابھی تو مسئلہ ختم ہوگیا میرے خیال میں۔” بسمہ نے کچھ سوچ کے کہا پھر اسے کچھ خیال آیا
"مگر میڈم یہ سب تو کچھ دیر کا مسئلہ ہے ابھی ان کے والدین آئیں گے انہیں پیسے دے کر چھڑوا کر لے جائیں گے۔ یہ تو دیکھنے میں ہی اندازہ ہورہا تھا کہ ان کے باپوں کے پاس ہے اتنا بے تحاشہ کہ یہ اڑائیں اور انہیں فکر ہی نا ہو۔”
"یہ غریب گھروں کے بھی تو ہوسکتے ہیں۔”
” ہاں ہو تو سکتے ہیں مگر میں نے جو دیکھا ہے ایسے ٹولوں میں ایسے ہی لڑکے زیادہ ہوتے ہیں جن کو پیچھے سے خرچہ پانی کی بے فکری ہوتی ہے۔”
” بالکل صحیح مشاہدہ ہے۔ تمہیں یہ سب اتنا تفصیل سے بتانے کی وجہ بھی یہی ہے کیونکہ تم بات کو ناصرف جلدی سمجھ لیتی ہو بلکہ خود سوچتی بھی ہو۔ اور تمہاری شخصیت ابھی اتنی مثبت ہے کہ اس میں سدھار لانا آسان ہے یا یہ کہو کہ اسے مضبوط بنانا اور معاشرے کے لیے کار آمد بنانا آسان ہے۔”
"مجھے تو اپنا آپ بہت کمزور لگتا ہے”
"کچھ تو بھروسہ میرے تجربے پہ بھی کرو۔” بختاور شگفتگی سے مسکرائی پھر بولی
"اچھا اب جیسا تم نے کہا کہ یہ سب کھاتے پیتے گھرانے کے ہوں گے اور ممکن ہے آج ہی چھوٹ بھی جائیں۔ اب ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟”
” اس سے زیادہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟”
"اس سے زیادہ اگلا قدم ہوتا ہے کسی ایسے کو معاملے میں شامل کرنا جس کے سامنے یہ کچھ نا کرپائیں۔ جیسے یہ کریں گے ہمارے مقابلے میں کسی پولیس کے بڑے آفیسر کی سفارش لائیں گے کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو بیچ میں لائیں گے۔ ہمارے پاس ایسا کچھ نہیں تو ہم سب سے طاقتور فریق کو بیچ میں لائیں گے۔ میڈیا کو۔”
” میڈیا کو! کیسے؟ اور اس میں تو ہماری ہی بدنامی ہوگی” بسمہ اس انوکھے حل پہ حیران رہ گئی
"آج کل میڈیا سب سے طاقتور ہے۔ آپ پریس کلب جاو وہاں جاکر اپنا احتجاج رکارڈ کرواو کچھ نا کچھ ٹی وی چینلز اور اخبار آپ کا احتجاج اپنے ٹی وی سے اور چینل سے لوگوں تک پہنچا دیں گے۔ ایک چھوٹا سا مسئلہ اہم بن جائے گا۔ اور پولیس چھپ کر یا پیسے لے کر انہیں چھوڑ نہیں سکے گی۔ کوئی ایم این اے ایم پی اے یا اور کوئی سیاسی لیڈر کھل کر ان کی حمایت نہیں کر پائے گا۔ اب اسلم باسط اور یہ لڑکے ان سب کو ملا کر سارے مسئلے کو درجوں کے حساب سے سمجھو اور اسی طرح ان کا حل سمجھو۔ پہلا درجہ ایسا بندہ جو صرف آپ سے طاقتور ہے، یا وہ صرف وقتی طور پہ طاقتور ہے اس کے لیے آپ کا مضبوط لہجہ اور باڈی لینگویج ہی کافی ہوتی ہے۔ پھر کوئی ایسا بندہ جو قانونی طور پہ کوئی ایسا اختیار رکھتا ہو کہ آپ اس سے کمزور حیثیت پہ ہوں جیسے شوہر یا باس ان کے لیے اپنے حق کے قانون سمجھو۔ جتنا تمہیں اپنے حقوق کا پتا ہوگا اتنا ہی دوسرا بندہ تم سے نا انصافی کرتے ہوئے ہزار بار سوچے گا۔ اچھا یہ بتاو تم نے نکاح کے وقت یا اس کے بعد کبھی ایک بار بھی اپنا نکاح نامہ پڑھا کہ اس میں کیا کچھ لکھا ہوتا ہے؟”
” ہاں دیکھا تو تھا مگر صرف میرا اور باسط کا نام، گواہوں کے نام اور حق مہر کی رقم لکھی تھی باقی تو سب کالم کاٹے ہوئے تھے۔”
جبکہ وہی کالم سب سے اہم ہوتے ہیں اور یہی غلطی والدین کرتے ہیں کہ نکاح کے وقت بیٹی کو کوئی حق نہیں دلواتے۔ اور یہی غلطی ہم نوکری کرتے ہوئے کرتے ہیں کہ ہم نوکری کے معاہدے پہ دستخط کرتے ہوئے دیکھتے ہی نہیں کہ ہمیں قانون نے کیا حقوق دیئے ہیں۔ پھر ہماری ہی محنت کے پیسے میں سے چند ٹکے احسان کی طرح ہمارے منہ پہ مار دیئے جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں اپنے حقوق ہی نہیں پتا ہوتے۔ چلو یہ تو ہوگئی قانونی طور پہ ہم سے طاقتور بندے کی بات پھر اگر ہمارا سابقہ کسی مجرم سے پڑے وہ چاہے چھوٹی نوعیت کا ہو یا بڑی نوعیت کا یہ یاد رکھو مجرم وہ ہے تم اس کا جرم سامنے لاو گی تو شرمندگی کی بات اس کے لیے ہے تمہارے لیے نہیں۔ اور جہاں بھی تمہیں لگے کہ تم نے سب کوششیں کر لیں اور مسئلہ حل نہیں ہورہا تو میڈیا کے ذریعے سب تک اپنی آواز پہنچاو تا کہ جو بھی تمہاری مدد کرسکتا ہے یا جس پہ اس مسئلہ حل کرنے کی قانونی ذمہ داری ہے وہ متوجہ ہوسکے۔”
ان کے باتیں کرنے کے دوران چائے بھی آگئی۔ تو بختاور نے بات چیت کچھ دیر کے لیے روک دی۔
"چلو چائے پیتے ہیں کچھ ذہنی تھکن کم ہوگی۔ تم چاہو تو گھر چلی جانا آرام سے مسئلے پہ سوچو پھر بتاو کہ تم اسلم کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پہ تیار ہو یا نہیں۔ ابھی بھی فیصلہ تمہارا ہوگا تم پہ کوئی زبردستی نہیں اگر تمہیں یہاں کام کرنا مناسب نا لگے تو میں کسی اور جگہ بھی کوشش کر کے دیکھوں گی جہاں تمہارے لیے موزوں جاب مل سکے۔ مگر یاد رکھو کبھی نا کبھی تمہیں اپنے لیے خود لڑنا ہوگا۔ جتنا جلدی خود کو مضبوط بناو گی اتنی جلدی زندگی آسان ہوسکے گی۔”
بسمہ نے سمجھتے ہوئے سر ہلا دیا
” میں خود بھی آپ سے کچھ وقت لینا چاہ رہی تھی تاکہ کچھ سوچ سمجھ کر فیصلہ کر سکوں۔”
پھر وہ دونوں خاموشی سے چائے پینے لگیں۔ چائے ختم کرکے بسمہ واپسی کے نکلنے لگی تو بختاور نے سہیل کو کہلوا دیا کہ بسمہ کو گھر ڈراپ کر آئے ویسے بھی اب وہ ٹیچرز کو لینے ہی نکلتا تاکہ دارلامان پہنچا سکے۔
بسمہ وین میں بیٹھ گئی اس کے ذہن میں پورا واقعہ اور بختاور کی باتیں دوبارہ گھومنے لگیں۔ بسمہ کو لگا اسے واقعی اب اپنے لیے جو کرنا ہے سوچ سمجھ کے کرنا ہے۔ ساتھ ہی اسے یہ بھی اندازہ ہوا کہ اب تک اس نے جو کیا تھا غصے اور گھر والوں کے رویئے کے ردعمل میں کیا تھا۔ سارا رستہ اس کا سوچوں میں ہی گزر گیا۔ اور گھر کا دروازہ آگیا۔ گھر میں داخل ہونے تک کم از کم وہ یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ اب وہ زندگی حالات کے رحم و کرم پہ نہیں گزارے گی۔ مگر ابھی بہت کچھ اس کے ذہن میں الجھا ہوا تھا۔

 

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button