جس کو ہم دل کی خوشی کہتے ہیں وہ غَم ہی نہ ہو
آنکھ کی اِس خُشک مَٹّی کے تلے نَم ہی نہ ہو
کیوں مری آواز بیٹھی جا رہی ہے عشق میں
تان میں شامل کسی کے ہجر کا سَم ہی نہ ہو
رات کا کیا فائدہ جب رات روشن ہو جناب
بات کا کیا فائدہ جب بات میں دَم ہی نہ ہو
بعد پر موقوف ہے سب ؟ خوش گماں یوں بھی تو سوچ
یہ کسی دنیائے دیگر کا جَہنَم ہی نہ ہو
بڑھ نہ جائے آگہی مجھ عقل سے آگے کہیں
میں اِسے کم کرنے پر آؤں تو یہ کَم ہی نہ ہو
بارہا پڑھوا رہے ہیں سامعینِ خوش مذاق
غور کر مصرع میں کوئی پہلوئے ذَم ہی نہ ہو
سانس کیوں اُکھڑے ریاضت کی سُلگتی دھوپ میں
ڈوبنے والا ہے سورج سایہ کچھ دَم ہی نہ ہو
ہاتھ اُٹھا کر یوں کہا مجذوب نے جاتے سَمے
شعر کہتا جا تری رفتار مدّھم ہی نہ ہو
فرق ہو سکتا ہے کچھ تفہیم کا احساس میں
ہم جسے دوری سمجھتے ہیں یہ سنگَم ہی نہ ہو
زیبؔ کیسی نیند چھائی ہے مرے اعصاب پر
آنکھ کیوں اُلجھی ہوئی ہے خواب مُبہَم ہی نہ ہو
اورنگ زیبؔ