ڈی ڈٹرجینٹ
دیو چناروں والے چوک میں
سگنل سلگا
سرخ ہوا
تو شست لگا کر بیٹھے وائپر باز نے
کالی گاڑی کو تحویل میں لے کر
دھندلی ونڈ سکرین پہ جھاگ جگاتی دھندلی بوتل چھڑکی
اور وائپر کے آڑے ترچھے وار کئے ۔
شیشہ اجلا تو اندر کا منظر جاگا ۔
اگلی سیٹوں پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے
خالی آنکھیں جھپک رہے تھے ۔
پچھلی سیٹ پہ ان کے دو بچے بیٹھے تھے
جن کی آنکھوں کے نیلم پگھلے جاتے تھے ۔
نیلے آنسو رخساروں کو تر کرتے تھے ۔
لیکن یہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔ !
شیشہ پھر سے دھندلایا ہے ۔
اس نے پھر بوتل چھڑکی اور وائپر رگڑا ۔
شیشہ پھر سے دھندلایا ہے ۔
اجلا ، دھندلا ، بوتل ، وائپر
وائپر ، بوتل ، دھندلا ، اجلا
آخر شیشہ صاف ہوا تو منظر بدلا
اگلی سیٹوں پر زندہ چہرے بیٹھے تھے
پچھلی سیٹ کی آنکھوں میں نیلم ٹھہرے تھے
اور ان میں مسکان بھری تھی ۔
یک دم سگنل گدرایا
اور سبز ہوا ۔
اک جوتی جلتی جاتی تھی
کار چنار کے سرخ اور پیلے پتوں پر چلتی جاتی تھی ۔
وحید احمد