قریۂ شب میں وہ روشنی کی فضا
جو تمہارے ہی جلوؤں کی تھی انتہا
وصل و فرقت کی باتیں ابھی مت کرو
اُس کی یادوں میں گُم صُم ہوں مَیں کھو چکا
اتنی جلدی بھی کیا تھی ملاقات کی؟
تھوڑا ٹھہرو کہ رو لوں ذرا مَیں قضا
جو کہ فرقت کی تلخی میں ہی مر گیا
اُس کو معشوق دے اُور بھلا کیا سزا؟
آئِنے کہہ چکے، جو بھی کہنا تھا حال
بس کہ رونے میں ہے زندگی کا مزا
سوچتا ہوں کہ چھوڑوں محبّت حسؔن
لیکن اِس میں نہیں میرے دل کی رضا
حسن ابن ساقی