- Advertisement -

تقریب تقسیم انعامات

عمیرہ احمد کے ناول پیرِ کامل سے اقتباس

وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے کامران کو ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔ اسکرین پر موجود اسکور میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہورہا تھا۔ شاید اسکی وجہ وہ مشکل ٹریک تھا جس پر کامران کو گاڑی ڈرائیو کرنی تھی ۔ سالار لاؤنج کے صوفوں میں سے ایک صوفے پر بیٹھا اپنی نوٹ بک پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا ، مگر وقتا” فوقتا” نظر اٹھا کر ٹی وی اسکرین کو بھی دیکھ رہا تھا جہاں کامران اپنی جدوجہد میں مصروف تھا۔ ٹھیک آدھ گھنٹہ بعد اس نے نوٹ بک بند کرکے سامنے پڑی میز پر رکھ دی پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی روکی۔ دونوں ٹانگیں سامنے پڑی میز پر رکھ کر اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں سر کے پیچھے باندھے وہ کچھ دیر اسکرین کو دیکھتا رہا جہاں کامران اپنے تمام چانسز ضائع کرنے کے بعد ایک بار پھر نیا گیم کھیلنے کی تیاری کر رہا تھا ۔
کیا پرابلم ہے کامران ؟ سالار نے کامران کو مخاطب کیا
ایسے ہی ۔۔۔۔۔۔ نیا گیم لے کر آیا ہوں مگر اسکور کرنے میں بہت مشکل ہو رہی ہے ۔ کامران نے بے زاری سے کہا
اچھا مجھے دکھاؤ ۔۔۔۔۔ اس نے صوفے سے اٹھ کر ریموٹ کنٹرول اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
کامران نے دیکھا ۔ پہلے بیس سیکنڈ میں ہی سالار اس جس اسپیڈ پر دوڑا رہا تھا اس اسپیڈ پر کامران ابھی تک نہیں دوڑا پایا تھا ۔ جو ٹریک اسے بہت مشکل لگ رہا تھا وہ سالار کے سامنے ایک بچکانہ چیز محسوس ہو رہا تھا ۔ ایک منٹ بعد وہ جس اسپیڈ پر گاڑی دوڑا رہا تھا اس اسپیڈ پرکامران کے لیے اس پر نظریں جمانا مشکل ہوگیا جب کہ سالار اس اسپیڈ پر بھی گاڑی کو مکمل طور پر کنٹرول کئے ہوئے تھا ۔
تین منٹ بعد کامران نے پہلی بار گاڑی کو ڈگمگاتے اور پھر ٹریک سے اتر کر ایک دھماکے سے تباہ ہوتے ہوئے دیکھا ۔ کامران نے مسکراتے ہوئے مڑ کر سالار کی طرف دیکھا ۔ گاڑی کیوں تباہ ہوئی تھی وہ جان گیا تھا ۔ ریموٹ اب سالار کے ہاتھ کی بجائے میز پر پڑا تھا اور وہ اپنی نوٹ بک اٹھائے کھڑا ہو رہا تھا ۔ کامران نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
بہت بورنگ گیم ہے ۔ سالار نے تبصرہ کیا اور اسکی ٹآنگوں کو پھلانگ کر لاؤنج سے باہر نکل گیا ۔ کامران ہونٹ بھینچے سات ہندسوں پر مبنی اس اسکور کو دیکھ رہا تھا جو اسکرین کے ایک کونے میں جگمگا رہا تھا ، کچھ نہ سمجھ میں آنے والے انداز میں اس نے بیرونی دروازے کو دیکھا جس سے وہ غائب ہوا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں ایک بار پھر خاموش تھے ۔ اسجد کو الجھن ہونے لگی ۔ امامہ اتنی کم گو نہیں تھی جتنی وہ اس کے سامنے ہو جاتی تھی۔ پچھلے آدھے گھنٹے میں اس نے گنتی کے لفظ بولے تھے
وہ اسے بچپن سے جانتا تھا۔ وہ بہت خوش مزاج تھی۔ ان دونوں کی نسبت ٹھہرائے جانے کے بعد بھی ابتدائی سالوں میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ اسجد کو اس سے بات کرکے خوشی محسوس ہوتی تھی۔ وہ بلا کی حاضر جواب تھی ، مگر پچھلے کچھ سالوں میں وہ یک دم بدل گئی تھی اور میڈیکل کالج میں جاکر تو یہ تبدیلی اور بھی زیادہ محسوس ہونے لگی تھی ۔ اسجد کو بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا جیسے اس سے بات کرتے ہوئے وہ حد درجہ محتاط رہتی ہے ، کبھی وہ الجھی ہوئی سی محسوس ہوتی اور کبھی اسے اس کے لہجے میں عجیب سی سرد مہری محسوس ہوتی ۔ اسے لگتا وہ جلد از جلد اس سے چھٹکارا پاکر اس کے پاس سے اٹھ کر چلی جانا چاہتی ہے ۔
اس وقت بھی وہ ایسا ہی محسوس کر رہا تھا
میں کئی بار سوچتا ہوں کہ میں خوامخواہ ہی تمہارے لیے یہاں آنے کا تردد کرتا ہوں ۔۔۔۔ تمہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہوگا کہ میں آؤں یا نہ آؤں ۔ اسجد نے ایک گہری سانس لے کر کہا ۔ وہ اس کے بالمقابل لان چیئر پر بیٹھی دور باونڈی وال پر لگی بیل کو گھور رہی تھی۔ اسجد کی شکایت پر اس نے گردن ہائے بغیر اپنی نظریں بیل سے ہٹا کراسجد پر مرکوز کردیں ۔ اسجد نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا مگر وہ خاموش رہی تو اس نے لفظوں میں کچھ ردوبدل کے ساتھ اپنا سوال دہرایا۔
تمہیں میرے نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا امامہ ۔۔۔۔ کیوں ٹھیک کہہ رہا ہوں میں ؟
اب میں کیا کہہ سکتی ہوں اس پر ؟
تم کم از کم انکار تو کرسکتی ہو ۔ میری بات کو جھٹلا تو سکتی ہو کہ ایسی بات نہیں ہے ۔ میں غلط سوچ رہا ہوں اور ۔۔۔۔۔۔ ؟
ایسی بات نہیں ہے ۔ آپ غلط سوچ رہے ہیں ۔ امامہ نے اسکی بات کاٹ کرکہا ۔ اس کا لہجہ اب بھی اتنا ہی ٹھنڈا اور چہرہ اتنا ہی بے تاثر تھا جتنا پہلے تھا ، اسجد ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا ۔
ہاں میری دعا اور خواہش تو یہی ہے کہ ایسا نہ ہو اور میں واقعی غلط سوچ رہا ہوں مگر تم سے بات کرتے ہوئے میں ہر بار ایسا ہی محسوس کرتا ہوں ۔
کس بات سے آپ ایسا محسوس کرتے ہیں ۔ اس بار پہلی بار اسجد کو اسکی آواز میں کچھ ناراضی جھلکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔
بہت سی باتوں سے ۔۔۔۔۔ تم میری کسی بات کا ڈھنگ سے جواب ہی نہیں دیتیں ۔
حالانکہ میں آپ کی ہر بات کا ڈھنک سے جواب دینے کی بھرپور کوشش کرتی ہوں ۔۔۔۔۔ لیکن اب اگر آپ کو میرے جواب پسند نہ آئیں تو میں کیا کرسکتی ہوں ۔
اسجد کو اس بار بات کرتے ہوئے وہ کچھ مزید خفا محسوس ہوئی ۔
میں نے کب کہا کہ مجھے تمہارے جواب پسند نہیں آئے ۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ میری ہر بات کے جواب میں تمہارے پاس ۔ ہاں اور نہیں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔ بعض دفعہ تو مجھے لگتا ہے میں اپنے آپ سے باتیں کررہا ہوں ۔
اگر آپ مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ تم ٹھیک ہو تو میں اس کا جواب ہاں یا نہیں میں ہی دوں گی ۔ ہاں اور نہیں کے علاوہ اس سوال کا جواب کسی تقریر سے دیا جاسکتا ہے تو آپ مجھے وہ دے دیں میں وہ کردوں گی ۔ وہ بالکل سنجیدہ تھی ۔
ہاں اور نہیں کے ساتھ بھی تو کچھ کہا جاسکتا ہے ۔ ۔۔۔۔ اور کچھ نہیں تو تم جوابا” میرا حال ہی پوچھ سکتی ہو ۔
میں آپکا کیا حال پوچھوں ۔ ظاہر ہے اگر آپ میرے گھر آئےہیں ، میرے سامنے بیٹھے مجھ سے باتیں کررہے ہیں تو اسکا واضح مطلب تو یہی بنتا ہے کہ آپ ٹھیک ہیں ورنہ اس وقت آپ اپنے گھر اپنے بستر پر پڑے ہوتے ۔
یہ فارمیلٹی ہوتی ہے امامہ ابھی
گالف کلب میں تقریب تقسیم انعامات منعقد کی جارہی تھی۔ سولہ سالہ سالارسکندر بھی انڈر سکسٹین کی کیٹیگری میں پہلی پوزیشن کی ٹرافی وصول کرنے کے لئے موجود تھا ۔ سکندر عثمان نے سالار کا نام پکارے جانے پر تالیاں بجاتے ہوئے اس ٹرافی کیبنٹ کے بارے میں سوچا ، جس میں اس سال انہیں کچھ مزید تبدیلیاں کروانی پڑتی ۔ سالار کو ملنے والی شیلڈز اور ٹرافیز کی تعداد اس سال بھی پچھلے سالوں جیسی ہی تھی ۔ ان کے تمام بچے ہی پڑھائی میں بہت اچھے تھے ۔ مگر سالار سکندر باقی سب سے مختلف تھا ۔ ٹرافیز ، شیلڈز اور سرٹیفکیٹس کے معاملے میں وہ سکندر عثمان کے باقی بچوں سے بہت آگے تھا ۔ 150 آئی کیو لیول کے حامل اس بچے کا مقابلہ کرنا ان میں سے کسی کے لیے ممکن تھا بھی نہیں۔
فخریہ انداز میں تالیاں بجاتے ہوئے سکندر عثمان نے اپنی بیوی سے سرگوشی میں کہا ، یہ گالف میں اسکی تیرھویں اور اس سال کی چوتھی ٹرافی ہے ۔
ہر چیز کا حساب رکھتے ہو تم ۔ اس کی بیوی نے مسکراتے ہوئے جیسے قدرے ستائشی انداز میں اپنے شوہر سے کہا ۔ جس کی نظریں اس وقت مہمان خصوصی سے ٹرافی وصول کرتے ہوئے سالار پر مرکوز تھیں ۔
صرف گالف کا ۔ اور کیوں ؟ وہ تم اچھی طرح جانتی ہو۔ سکندر عثمان نے اپنی بیوی کو دیکھا جو اب سیٹ کی طرف جاتے سالار کو دیکھ رہی تھی ۔
اگر یہ اس وقت اس مقابلے میں شرکت کرنے والے پروفیشنل کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل رہا ہوتا تو بھی اس وقت اس کے ہاتھ میں یہی ٹرافی ہوتی ۔ سکندر عثمان نے بیٹے کو دور سے دیکھتے ہوئے کچھ فخریہ انداز میں دعویٰ کیا ۔ سالار اب اپنی سیٹ کے اطراف میں دوسری سیٹوں پر موجود دوسرے انعامات حاصل کرنے والوں سے ہاتھ ملانے میں مصروف تھا۔ انکی بیوی کو سکندر کے دعویٰ پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی ، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ سالار کے بارے میں یہ ایک باپ کا جذباتی جملہ نہیں ہے ۔ وہ واقعی اتنا ہی غیر معمولی تھا ۔
اسے دوہفتے پہلےاپنے بھائی زبیر کے ساتھ اسی گالف کورس پر اٹھارہ ہول پر کھیلا جانے والا گالف کا میچ یاد آیا ۔
میں اتفاقا” گرجانے والی ایک بال کو وہ جس صفائی اور مہارت کے ساتھ واپس گرینRough
پر لایا تھا اس نے زبیر کو محو حیرت کردیا ۔ وہ پہلی بار سالار کے ساتھ گالف کھیل رہا تھا ۔ مجھے یقین نہیں آرہا ۔ اٹھارہ ہول کے خاتمہ تک کسی کو بھی یہ یاد نہیں تھا کہ اس نے یہ جملہ کتنی بار بولا تھا ۔
سے کھیلی جانے والی اس شاٹ نے اگر اسے محو حیرت کیا تھا تو سالار سکندر کےRough
پُٹرز نے اسے دم بخود کردیا ۔ گیند کو ہول میں جاتے دیکھ کراس نے کلب کے سہارے کھڑے کھڑے صرف گردن موڑ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں سالار اور اس ہول کے درمیان موجود فاصلے کو ماپا تھا اور پھر جیسے بے یقینی سے سرہلاتے ہوئے سالار کو دیکھا
آج سالار صاحب اچھا نہیں کھیل رہے ۔ زبیر نے مڑکر بے یقینی کے عالم میں اپنے پیچھے کھڑے کیڈی کو دیکھا جو گالف کارٹ پکڑے سالار کو دیکھتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا ۔
ابھی یہ اچھا نہیں کھیل رہا ؟ زبیر نے کچھ استہزائیہ انداز میں کلب کے کینڈی کو دیکھا ۔
میں نہ جاتی ۔ کیڈی نے بڑے معمول کے انداز میں انہیںroughہاں صاحب ورنہ بال کبھی
بتایا ۔
آپ آج یہاں پہلی بار کھیل رہے ہیں اور سالار صاحب پچھلے سات سال سے یہاں کھیل رہے ہیں ۔ میں اسی لئے کہہ رہا ہوں کہ آج وہ اچھا نہیں کھیل رہے ۔
کیڈی نے زبیر کی معلومات میں اضافہ کیا اور زبیر نے اپنی بہن کو دیکھا جو فخریہ انداز میں مسکرا رہی تھیں ۔
اگلی بارمیں پوری تیاری کے ساتھ آؤں گا اور اگلی بار کھیل کی جگہ کا انتخاب بھی میں کروں گا ۔ زبیر نے کچھ خفت کے عالم میں اپنی بہن کے ساتھ سالار کی طرف جاتے ہوئے کہا
کسی بھی وقت کسی بھی جگہ ، انہوں نے اپنے بیٹے کی طرف سے اپنے بھائی کو پراعتماد انداز میں چیلنج کرتے ہوئے کہا ۔
میں تمہیں اس ویک اینڈ پر ٹی اے اور ڈی اے کے ساتھ کراچی بلوانا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے سالار کے قریب پہنچ کر ہلکے پھلکے انداز میں کہا ۔ سالار مسکرایا
کس لیے ۔۔۔۔۔ ؟
پر تمہیں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر کے ساتھ ایک میچ کھیلنا ہے ۔ behalfمیرے
میں اس بار الیکشنز میں اس سے ہارا ہوں ۔ مگر وہ اگر کسی سے گالف کا میچ ہار گیا تو اسے ہارٹ اٹیک ہوجائے گا اور وہ بھی ایک بچے کے ہاتھوں
وہ اپنے بھائی کی بات پر ہنسی تھیں مگر سالار کے ماتھے پر چند بل نمودار ہوگئے تھے۔
بچہ ؟ اس نے ان کے جملے میں موجود واحد قابل اعتراض لفظ پر زور دیتے ہوئے اسے دہرایا ۔ میرا خیال ہے انکل مجھے اپ کے ساتھ اٹھارہ ہولز کا ایک اور گیم کرنا پڑے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسجد دروازہ کھول کر اپنی ماں کے کمرے میں داخل ہوا ۔
امی آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے
ہاں کہو ۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے ؟
اسجد صوفے پر بیٹھی گیا ۔ آپ ہاشم انکل کی طرف نہیں گئیں ؟
نہیں ۔ کیوں کوئی خاص بات ؟
ہاں امامہ اس ویک اینڈ پر آئی ہوئی ہے
اچھا ۔۔۔۔۔ آج شام کو چلیں گے ۔۔۔۔۔ تم گئے تھے وہاں ؟ شکیلہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا
ہاں ۔ میں گیا تھا ۔
کیسی ہے وہ ۔۔۔۔۔ اس بار تو خاصے عرصے بعد آئی ہے ۔ شکیلہ کو یاد آیا
ہاں وہ ماہ کے بعد ۔۔۔۔۔ شکیلہ کو اسجد کچھ الجھا ہوا لگا
کوئی مسلئہ ہے ؟
امی ۔ مجھے امامہ پچھلے کچھ عرصے سے بہت بدلی بدلی لگ رہی ہے ۔ اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا
بدلی بدلی ؟ کیا مطلب ؟
مطلب تو میں شاید آپ کو نہیں سمجھا سکتا ، بس اسا کا رویہ میرے ساتھ کچھ عجیب سا ہے ۔ اسجد نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔
آج تو وہ ایک معمولی سی بات پر ناراض ہوگئی ۔ پہلے جیسی کوئی بات ہی نہیں رہی اس میں ۔۔۔۔ میں سمجھ نہیں پا رہا کہ اسے ہوا کیا ہے
تمہیں وہم ہوگیا ہوگا اسجد ۔۔۔۔۔ اس کا رویہ کیوں بدلنے لگا ۔۔۔۔۔ تم کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوکر سوچ رہے ہو ۔ شکیلہ نے اسے حیرانی سے دیکھا
نہیں امی ۔۔۔۔۔ پہلے میں بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ شاید مجھے وہم ہوگیا ہے لیکن اب خاص طور پر آج مجھے اپنے یہ احساسات صرف وہم نہیں لگے ہیں ۔ وہ بہت اکھڑے سے انداز میں بات کرتی رہی مجھ سے
تمہارا کیا خیال ہے ، اسکا رویہ کیوں بدل رہا ہے ۔ شکیلہ نے برش میز پر رکھتے ہوئے کہا ۔
یہ تو مجھے نہیں پتا
تم نے پوچھا اس سے
ایک بار نہیں کئی بار
پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
ہر بار آپ کی طرح وہ بھی یہی کہتی ہے کہ مجھے غلط فہمی ہوگئی ہے۔ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔
کبھی وہ کہتی ہے اسٹیڈیز کی وجہ سے ایسا ہے ۔ کبھی کہتی ہے وہ اب میچور ہوگئی ہے اس لئے
یہ ایسی کوئی غلط بات تو نہیں ہے ہوسکتا ہے واقعی یہ بات ہو ۔ شکیلہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔
امی بات سنجیدگی کی نہیں ہے ۔ مجھے لگتا ہے وہ مجھ سے کترانے لگی ہے ۔ اسجد نے کہا
تم فضول باتیں کررہے ہو اسجد ۔ میں نہیں سمجھتی کہ ایسی کوئی بات ہوگئی ۔ ویسے بھی تم دونوں تو بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہو ۔ ایک دوسرے کی عادات سے واقف ہو ۔
شکیلہ کو بیٹے کے خدشات بالکل بے معنی لگے
ظاہر ہے ۔ عمر کے ساتھ کچھ تبدیلیاں آہی جاتی ہیں۔ اب بچے تو رہے نہیں ہو تم لوگ ۔۔۔۔۔۔ تم معمولی معمولی باتوں پر پریشان ہونے کی عادت چھوڑ دو ۔۔۔۔۔ انہوں نے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔ ویسے بھی ہاشم بھائی اگلے سال اسکی شادی کردینا چاہتے ہیں ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ بعد میں اپنی تعلیم مکمل کرتی رہے گی ۔ کم از کم وہ تو اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں ۔ شکیلہ نے انکشاف کیا ۔
انکل نے ایسا کب کہا ۔ اسجد کچھ چونکا ۔
کئی بارکہا ہے ۔۔۔۔۔ میرا خیا ل ہے وہ لوگ تو تیاریاں بھی کر رہے ہیں ۔ اسجد نے ایک اطمینان بھرا سانس لیا
ہوسکتا ہے امامہ اسی وجہ سے قدرے پریشان ہو
ہاں ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔ بہرحال یہ ہی صحیح ہے ، اگلے سال شادی ہوجانی چاہیے۔ اسجد نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئےکہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سولہ سترہ سال کا ایک دبلا پتلا مگر لمبا لڑکا تھا ، اس کے چہرے پر بلوغت کا وہ گہرا رواں نظر آرہا تھا جسے ایک بار بھی شیو نہیں کیا گیا تھا اور اس روئیں نے اس کے چہرے کی معصومیت کو برقرار رکھا تھا ۔ وہ اسپورٹس شارٹس اور ایک ڈھیلی ڈھالی شرٹ پہنے ہوئے تھا ۔ اس کے پیروں میں کاٹن کی جرابیں اور جاگرز تھے ۔ چیونگم چباتے ہوئے اسکی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی بے چینی اور اضطراب تھا ۔
وہ اس وقت ایک پرہجوم سڑک کے بیچوں بیچ ایک ہیوی بائیک پر بیٹھا ہوا تیزی سے تقریبا” اسے اڑائے لے جارہا تھا ۔ وہ کسی قسم کے ہیلمٹ کے بغیر تھا اور بہت ریش انداز میں موٹرسائیکل چلا رہا تھا ۔ اس نے دو دفعہ سگنل توڑا۔۔۔۔۔ تین دفعہ خطرناک طریقے سے کچھ گاڑیوں کو اوور ٹیک کیا ۔۔۔۔ چار دفعہ بائیک چلاتے چلاتے اسکا اگلا پہیہ اٹھا دیا اور کتنی ہی دیر دور تک صرف ایک پہیے پر بائیک چلاتا رہا ۔۔۔۔ دو دفعہ دائیں بائیں دیکھے بغیراس نے برق رفتاری سے اپنی مرضی کا ٹرن لیا ۔۔۔۔۔ ایک دفعہ وہ زگ زیگ انداز میں بائک چلانے لگا ۔ چھے دفعہ اس نے پوری رفتار سے بائیک چلاتے ہوئے اپنے دونوں پاؤں اٹھا دیئے۔
پھر یک دم اسی رفتارسے بائیک چلاتے ہوئے اس نے ون وے کی خلاف ورزی کرتے اس لین کو توڑا اور دوسری لین میں زناٹے سے گھس گیا ۔ سامنے سے آتی ٹریفک کی بریکیں یک دم چرچرانے لگیں ۔۔۔۔۔ اس نے فل اسپیڈ پر بائیک چلاتے ہوئے یک دم ہینڈل پر سے ہاتھ ہٹا دیے۔ بائیک پوری رفتار کے ساتھ سامنے آنے والی گاڑی سے ٹکرائی ، وہ ایک جھٹکے کے ساتھ ہوا میں بلند ہوا اور پھر کس چیز پر گرا ۔۔۔۔۔ اسے اندازہ نہیں ہوا ۔ اس کا ذہن تاریک ہوچکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں لڑکے اسٹیج پر ایک دوسرے کے بالمقابل روسٹرم کے پیچھے کھڑے تھے ۔ مگر ہال میں موجود اسٹوڈنٹس کی نظریں ہمیشہ کی طرح ان میں سے ایک پر مرکوز تھیں ۔ وہ دونوں ہیڈ بوائے کے انتخاب کے لیے کنویسنگ کررہے تھے اور وہ پروگرام بھی اسکا ایک حصہ تھا ۔ دونوں کے روسٹرم پر ایک ایک پوسٹر لگا ہوا تھا ، جن میں سے ایک پر ووٹ فارسالار اور دوسرے پر ووٹ پر فیضان لکھا ہوا تھا ۔
اس وقت فیضان ہیڈ بوائے بن جانے کے بعد اپنے ممکنہ اقدامات کا اعلان کررہا تھا ۔ جب کہ سالار پوری سنجیدگی سے اسے دیکھنے میں مصروف تھا ۔ فیضان اسکول کا سب سے اچھا مقرر تھا اور اس وقت بھی وہ اپنے جوش خطابت کے کمال دکھانے میں مصروف تھا اور اسی برٹش لب و لہجے میں بات کررہا تھا جس کے لیے وہ مشہور تھا ۔ بہترین ساونڈ سسٹم کی وجہ سے اسکی آواز اور انداز دونوں ہی خاصے متاثر کن تھے ۔ ہال میں بلاشبہ سکوت طاری تھا اور یہ خاموشی اس وقت ٹوٹتی جب فیضان کے سپورٹرز اس کے کسی اچھے جملے پر داد دینا شروع ہوتے ۔ ہال یک دم تالیوں سے گونج اٹھتا ۔
آدھ گھنٹہ بعد جب وہ اپنے لئے ووٹ کی اپیل کرنے کے بعد خاموش ہوا تو ہال میں اگلے کئی منٹ تالیاں اور سیٹیاں بجتی رہیں ۔ ان تالیاں بجانے والوں میں خود سالار بھی شامل تھا ۔ فیضان نے ایک فاتحانہ نظر ہال اور سالار پر ڈالی اور اسے تالیاں بجاتے دیکھ کر اس نے گردن کے ہلکے سے اشارے سے اسے سراہا، سالار سکندر آسان حریف نہیں تھا یہ وہ اچھی طرح جانتا تھا ۔
اسٹیج سیکرٹری اب سالار سکندر کے لئے اناؤنسمنٹ کررہا تھا۔ تالیوں کی گونج میں سالار نے بولنا شروع کیا ۔
گڈ مارننگ فرینڈز ۔۔۔۔ وہ یک لحظہ ٹھہرا ، فیضان اکبر ایک مقرر کے طور پر یقیننا” ہمارے اسکول کا اثاثہ ہیں ۔ میں یا دوسرا کوئی بھی ان کے مقابلے میں کسی اسٹیج پر کھڑا نہیں ہوسکتا ۔ وہ ایک لمحہ رکا اس نےفیضان کے چہرے کو دیکھا جس پر ایک فخریہ مسکراہٹ ابھر رہی تھی مگر سالار کے جملے کے باقی حصے نے اگلے لمحے ہی اس مسکراہٹ کو غائب کردیا ۔
اگر معاملہ صرف باتیں بنانے کا ہو تو ۔۔۔۔۔۔
ہال میں ہلکی سی کھلکھلاہٹین ابھریں ۔ سالار کے لہجے کی سنجیدگی برقرار تھی ۔
مگر ایک ہیڈ بوائے اور مقرر میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ مقرر کو باتیں کرنی ہوتی ہیں ۔ ہیڈ بوائے کو کام کرنا ہوتا ہے ۔ دونوں میں بہت فرق ہے
Great talkers are not great doers
سالار کے سپورٹرز کی تالیوں سے ہال گونج اٹھا ۔
میرے پاس فیضان جیسے خوب صورت لفظوں کی روانی نہیں ہے۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی ۔ میرے پاس صرف میرا نام ہے اور میرا متاثر کن ریکارڈ ہے ۔ مجھے کنویسنگ کے لئے لفظوں کے کوئی دریا نہیں بہانے ، مجھے صرف چند الفاظ کہنے ہیں ۔ وہ ایک بار پھر رکھا
ٹرسٹ می اینڈ ووٹ فارمی ۔۔ (مجھ پر اعتماد کریں اور مجھے ووٹ دیں)۔
اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے جس وقت اپنے مائیک کو آف کیا اس وقت ہال تالیوں سے گونج رہا تھا ۔ ایک منٹ چالیس سیکنڈز میں وہ اسی نپے تلے انداز میں بولا تھا جو اسکا خاصا تھا اور اسی ڈیڑھ منٹ نے فیضان کا تختہ کردیا تھا ۔
اس ابتدائی تعارف کے بعد دونوں امیدواروں سے سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔ سالار ان جوابات میں بھی اتنے ہی اختصار سے کام لے ہرا تھا جتنا اس نے اپنی تقریر میں لیا تھا ۔ اسکا سب سے طویل جواب بھی چار جملوں پر مشتمل تھا جبکہ فیضان کا سب سے مختصر جواب بھی چار جملوں سے زیادہ تھا۔ فیضان کی وجہ فصاحت و بلاغت جو پہلے اس کی خوبی سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت اس اسٹیج پر سالار کے مختصر جوابات کے سامنے چرب زبانی نظر آرہی تھی۔ اور اسکا احساس خود فیضان کو بھی ہو رہا تھا ۔ جس سوال کا جواب سالار ایک لفظ یا ایک جملے میں دیتا تھا ۔ اس کے لئے فیضان کو عادتا” تمہید باندھنی پڑتی اور سالار کا اپنی تقریر میں اس کے بارے میں کیا ہوا یہ تبصرہ وہاں موجود اسٹوڈنٹس کچھ اور صحیح محسوس ہوتا کہ ایک مقرر صرف صرف باتیں کرسکتا ہے ۔
سالار سکندر کو بیڈ بوائے کیوں ہونا چاہیے۔ سوال کیا گیا
کیونکہ آپ بہترین شخص کا انتخاب چاہتے ہیں ۔ جواب آیا
کیا یہ جملہ خود ستائشی نہیں ہے؟ اعتراض کیا گیا
نہیں یہ جملہ خود شناسی ہے ۔ اعتراض رد کردیا گیا
خود ستائشی اور خود شناسی میں کیا فرق ہے ۔ ایک بار پھر چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا گیا
وہی جو فیضان اکبر اور سالار سکندر میں ہے ۔ سنجیدگی سے کہا گیا
اگر آپ کو ہیڈ بوائے نہ بنایا تو آپ کو کیا فرق پڑے گا
فرق مجھے نہیں آپ کو پڑے گا ۔
کیسے ۔۔۔۔۔ ؟
اگر بہترین آدمی کو ملک کا لیڈر نہ بنایا جائے تو فرق قوم کو پڑتا ہے اس بہترین آدمی کو نہیں
آپ اپنے آپ کو پھر بہترین آدمی کہہ رہے ہیں ، ایک بار پھر اعتراض کیا گیا
کرےEqunte کیا اس ہال میں کوئی ایسا ہے جو خود کو برے آدمی کے ساتھ
ہوسکتا ہے ہو
پھر میں اس سے ملنا چاہوں گا ۔۔۔ ہال میں ہنسی کی آوازیں ابھریں
ہیڈ بوائے بننے کے بعد سالار سکندر جو تبدیلیاں لائے گا اس کے بارے میں بتائیں
تبدیلی بتائی نہیں جاتی دکھائی جاتی ہے اور یہ کام میں ہیڈ بوائے بننے سے پہلے نہیں کرسکتا ،
چند اور سوال کیے گئے پھر اسٹیج سیکرٹری نے حاضرین میں سے ایک آخری سوال لیا ۔ وہ ایک سری لنکن لڑکا تھا جو کچھ شرارتی انداز میں مسکراتے ہوئے کھڑا ہوا ۔ اگر آپ میرے ایک سوال کا جواب دے دیں تو میں اور میرا پورا گروپ آپ کو ووٹ دے گا ۔
سالار اسکی بات پر مسکرایا ۔ جواب دینے سے پہلے میں جاننا چاہوں گا کہ آپ کے گروپ میں کتنے لوگ ہیں ؟ اس نے پوچھا
چھ ۔۔۔۔۔ اس لڑکے نے جواب دیا
سالار نے سر ہلایا اوکے ۔۔۔۔ سوال کریں
آپ کو کچھ حساب کتاب کرتے ہوئے مجھے بتانا ہے کہ اگر 267895 میں 952852 کو جمع کریں پھر اس میں سے 399999 کو تفریق کریں پھر اس میں 929292 کو جمع کریں اور اسے ۔۔۔۔۔۔ وہ سری لنکن لڑکا ٹھہر ٹھہر کر ایک کاغذ پر لکھا ہوا ایک سوال پوچھ رہاتھا۔۔۔۔ اسے چھ سے ضرب دیں پھر اسے دو کے ساتھ تقسیم کریں اور جواب میں 495359 جمع کردیں تو کیا جواب آئے۔۔۔۔۔۔ وہ لڑکا اپنی بات مکمل نہیں کرسکا کہ سالار نے برق رفتاری کے ساتھ جواب دیا 8142473
اس لڑکے نے کاغذ پر ایک نظر دوڑائی اور پھر کچھ بے یقینی سے سرہلاتے ہوئے تالیاں بجانے لگا ۔ فیضان اکبر کو اس وقت اپنا آپ ایک ایکٹر سے زیادہ نہیں لگا ۔ یورا ہال اس لڑکے کے ساتھ تالیاں بجانے میں مصروف تھا ۔ فیضان کو وہ پورا پروگرام ایک مذاق محسوس ہونے لگا ۔
ایک گھنٹے بعد جب وہ سالار سے پہلے اس اسٹیج سے اتر رہا تھا تو وہ جانتا تھا کہ وہ مقابلے سے پہلے ہی مقابلہ ہار چکا تھا ۔ 150 آئی کیو لیول والے اس لڑکے سے اسے زندگی میں اس سے پہلے کبھی اتنا حسد محسوس نہیں ہوا

عمیرہ احمد کے ناول پیرِ کامل سے اقتباس

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عمیرہ احمد کے ناول پیرِ کامل سے اقتباس