آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزڈاکٹر وحید احمد

وداع بپسی سدھوا

ڈاکٹر وحید احمد کی اردو تحریر

ہم میں سے کتنے پاکستانی جانتے ہیں کہ حال ہی میں ایک عظیم الشان لکھاری کا انتقال ہوا جو پاکستان کی پہچان تھیں؟
ہم میں سے کتنے لوگ انہیں پاکستانی سمجھتے ہیں؟
ہم میں سے کتنے لوگوں نے انہیں پڑھا ہے؟
ہم میں سے کتنے لوگ ان کے نام سے واقف ہیں؟؟؟
یہ وہ تلخ سوالات ہیں جو روح عصر ہم سے من حیث القوم پوچھ رہی ہے۔bapsi sidhwa المیہ یہ ہے کہ ساری دنیا اور بالخصوص امریکہ انہیں پاکستانی رائٹر، پاکستانی رائٹر کہتے نہیں تھکتا تھا اور ہمارے ملک میں لوگ انہیں جانتے تک نہیں یا شاید جاننا نہیں چاہتے۔ لوگ تو انہیں پاکستانی کہنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اور کریں بھی کیوں۔۔۔۔ ایک تو عورت، اوپر سے پارسی اور پھر دربدر۔۔۔۔
بپسی سدھوا 11 اگست 1938 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ پارسی، گجراتی، پاکستانی تھیں۔ گجراتی، اردو اور انگلش بولتی تھیں۔ انگلش میں لکھتی تھیں۔ تین ماہ کی تھیں تو ان کا خاندان لاہور منتقل ہوا۔ انہوں نے کنئرڈ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ لاہور سے انہیں عشق تھا جو ان کے خون میں دوڑتا تھا۔ ان کی تحریروں میں لاہور کسی محبوب کی طرح جلوہ گر ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک حساس ادیب کی طرح 1947 کی قتل و غارت دیکھی۔ ایک بار اپنے مالی کے ساتھ سیر کر رہی تھیں کہ راستے میں ایک بوری پڑی ملی۔ کھولا تو اس میں ایک نوجوان کی لاش تھی۔ ایسے اندوہناک واقعات نے ان کے قلم میں خون بھر دیا اور انہوں نے بھرپور انداز میں بٹوارے کو اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔
ہم اپنے نقاد اور تجزیہ نگاروں سے اگر یہ پوچھیں کہ تقسیم ہند کے موضوع پر بہترین کہانیاں بتائیں تو وہ اک دم مخصوص جواب دیں گے۔۔۔۔ آگ کا دریا، اداس نسلیں،bapsi sidhwa کچھ عزیز احمد کی کہانیاں اور چند بیدی کے افسانے۔۔۔۔ بپسی سدھوا کا کوئی ذکر نہیں کریں گے۔ میں بحیثیت ایک قاری کے بہت ذمہ داری سے عرض کرتا ہوں کہ جس بھرپور انداز میں بپسی سدھوا نے پارٹیشن کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے، کوئی اور کہانی کار اس کے قریب نہیں پھٹکتا۔ بپسی سدھوا کے بعد اگر اس موضوع پر میں نے شدت دیکھی ہے تو وہ خشونت سنگھ کے ہاں ہے۔
بپسی سدھوا کی 19 سال کی عمر میں شادی ہوئی۔ بچے ہوئے۔ بٹوارہ ہوا۔ بمبئی جاتی تھیں تو لاہور آنا دشوار۔ لاہور آتی تھیں تو بمبئی جانا مشکل۔ بالآخرbapsi sidhwa اپنے محبوب شہر لاہور میں ایک بار پھر قیام پذیر ہوئیں۔ لاہور میں بھی شادی کی۔ یہاں بھی ان کی اولاد ہوئی۔ مگر سرحدوں کے جبر سے دل برداشتہ ہو کر آخرکار امریکہ میں ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن چلی گئیں۔ وہاں کولمبیا یونیورسٹی، سینٹ ٹامس یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ہیوسٹن کے علاوہ دیگر اداروں میں تعلیم دیتی رہیں۔
وہ بہت رواں، بےتکلف اور سلیس انداز میں کہانی لکھتی تھیں۔ ان کے ناول شہرہ آفاق اہمیت کے حامل ہیں؛ نام ہیں:
The Crow Eaters
Ice Candy Man
The Bride
An American Brat
Water
مجھے فخر ہے کہ یہ سارے ناول میری لائبریری کی زینت ہیں۔
کینیڈین فلم ساز دیپا مہتا نے 1991 میں ان کے ناول Ice Cany Man پر مشہور فلم بنائی جس کا نام Earth ہے۔ 2005 میں انہوں نے سدھوا کے ناول Water پر فلم بنائی۔ ان کی قومیت پاکستانی ہے۔ حکومت پاکستان نے 1991 میں انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔
ان کے ایک ناول کا اردو ترجمہ Readings نےbapsi sidhwa "جنگل والا صاحب” کے نام سے کیا ہے۔ ان کے ناول The Crow Eaters کا پیش لفظ ممتاز دانش ور فاطمہ بھٹو نے تحریر کیا جس میں وہ لکھتی ہیں:
Sidhwa is often described as Pakistan’s finest novelist writing in English, and rightfully so. It is her warm, gregarious style that parts the curtains and allows us entry into an older subcontinent, a more complete one.
Fatima Bhutto
2015
فاطمہ بھٹو نے بالکل درست لکھا ہے کہ وہ ماضی کے وہ دریچے وا کرتی ہیں جن تک بیشتر قارئین کی رسائی نہیں تھی۔ مثال کے طور پر وہ پارسی تہذیب و ثقافت کی بہت دلچسپ تفصیلات اپنی کہانیوں کا حصہ بناتی ہیں۔ میں نے پہلی بار تفصیل سے برج خموشاں (Tower of Silence) کے بارے میں ان سے معلومات حاصل کیں۔
یہ عظیم پاکستانی کہانی کار 25 دسمبر 2024 کو 86 سال کی عمر میں ہیوسٹن میں انتقال کر گئیں۔

الوداع
وحید احمد
31 دسمبر 2024

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button