بڑی مشکل سے اُٹھ کر جا رہا ہوں
میں بھاری دل سے اُٹھ کر جا رہا ہوں
ترے لہجے کا سارا زہر پی کر
تری محفل سے اُٹھ کر جا رہا ہوں
یہاں تو موت کے پہرے لگے ہیں
یدِ قاتل سے اُٹھ کر جا رہا ہوں
جو اپنے عدل کو بھی بیچ ڈالے
اُسی عادل سے اُٹھ کر جا رہا ہوں
سمندر نے کنارے پر ہے پھینکا
ابھی ساحل سے اُٹھ کر جا رہا ہوں
رکا تو ہمنوا سمجھیں گے مجھ کو
درِ باطل سے اُٹھ کر جا رہا ہوں
جہاں صابرؔ کو تم نے قید رکھا
اُسی محمِل سے اُٹھ کر جا رہا ہوں
ایوب صابر