- Advertisement -

حیاتِ رواں

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

بظاہر کہیں کوئی ہلچل نہیں ہے

حیاتِ رواں اپنے مرکز سے چمٹی ہوئی ہے

بہت عام، بیکار، اُلجھے دنوں کی

ملائم سی گٹھڑی میں رکھی ہوئی

یہ فقط ایک بے نام سی دوپہر ہے

ہوا چل رہی ہے

نہ جانے کہاں

گہرے بے چین بادل کے ٹکڑے

اُڑے جا رہے ہیں

پریشان سڑکوں پہ بہتے ہوئے زرد پتے

فضا میں بکھرتا ہوا کچھ غبارِ مسلسل

ذرا پل دو پل کو

بہت دُور پتوں پہ ہنستا ہوا

تیز سورج

مگر پھر چمکتی ہوئی اِک کرن پر

جھپٹتے ہوئے گدلے بادل

کھلے آسماں پر ٹھہرتے نہیں ہیں

ہوا چلتی رہتی ہے رُکتی نہیں ہے

درختوں پہ شاخیں

اِدھر سے اُدھر ڈولتی ہیں

اِدھر سے اُدھر

میری چشم تصور میں اڑتے ہوئے چند ٹکڑے

لپکتے، جھپکتے خیالات کے میلے بادل

کہیں سطح دل پر ٹھہرتے نہیں ہیں

بظاہر جہاں کوئی ہلچل نہیں ہے

مگر یہ غبارِ مسلسل اُڑائے چلی جا رہی ہے

ہوا چلتی رہتی ہے رُکتی نہیں ہے

حیاتِ رواں اپنے مرکز سے چمٹی ہوئی ہے

مگر ایک بے نام سی دوپہر کے

سکوت نہاں میں

عجب بے کلی ہے

گلناز کوثر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
گلناز کوثر کی ایک اردو نظم