مجھ کو روکا گیا ہر مرتبہ تدبیر کے ساتھ
خواب کیا دیکھوں بھلا میں کسی زنجیر کے ساتھ
ان نگاہوں کو کہاں راس یہ حسنِ دنیا
حسنِ دنیا بھلا کیا ہے تری تصویر کے ساتھ
ان لکیروں میں جدائی تو نہیں لکھی تھی
پھر کوئی مسئلہ ہے کیا مری تقدیر کے ساتھ
جائیدادوں کی یہ تقسیم نے کاٹا ایسے
دلِ معصوم بھی بانٹا گیا جاگیر کے ساتھ
جانتا ہوں میں یہ اچھے سے مرے ہرجائی
تو بھی مشہور ہوا ہے مری تشہیر کے ساتھ
ناصحا! عشق تو وہ ہے کہ لکھا جس نے بھی
نامکمل ہی اٹھا ہے سدا تفسیر کے ساتھ
میرے اجداد نے پھیلایا ہے علم اس طرح سے
ایک تو لوح و قلم دوسرا شمشیر کے ساتھ
مجھ کو مدّت ہوئی ہے دیکھے ہوئے سپنا کوئی
میرا کیا واسطہ اچھی بری تعبیر کے ساتھ
زاہدوں نے تو اٹھا رکھا ہے قرآں سروں پر
پر شرابی کو بھلا کیا کسی تطہیر کےساتھ
زیب مسمار دلوں کا خدا بہتر جانے
ہم تو دفنائے گئے پیار کی تعمیر کے ساتھ
محمد شاہ زیب احمد