سمندر کا میں کیوں احساں سہوں گا
نہیں کیا سیل اشک اس پر بہوں گا
نہ تو آوے نہ جاوے بے قراری
یوں ہی اک دن سنا میں مر رہوں گا
ترے غم کے ہیں خواہاں سب نہ کھا غم
کمی کیا ہو گی جو اک میں نہ ہوں گا
نہ وہ آوے نہ جاوے بے قراری
کسو دن میر یوں ہی مررہوں گا
اگر جیتا رہا میں میر اے یار
تو شب کو موبمو قصہ کہوں گا
میر تقی میر