جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں
گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں
ضبط گریہ نے جلایا ہے درونہ سارا
دل اچنبھا ہے کہ ہے سوختہ تر پانی میں
آب شمشیر قیامت ہے برندہ اس کی
یہ گوارائی نہیں پاتے ہیں ہر پانی میں
طبع دریا جو ہو آشفتہ تو پھر طوفاں ہے
آہ بالوں کو پراگندہ نہ کر پانی میں
غرق آب اشک سے ہوں لیک اڑا جاتا ہوں
جوں سمک گوکہ مرے ڈوبے ہیں پر پانی میں
مردم دیدئہ تر مردم آبی ہیں مگر
رہتے ہیں روز و شب و شام و سحر پانی میں
ہیئت آنکھوں کی نہیں وہ رہی روتے روتے
اب تو گرداب سے آتے ہیں نظر پانی میں
گریۂ شب سے بہت آنکھ ڈرے ہے میری
پائوں رکھتے ہی نہیں باردگر پانی میں
فرط گریہ سے ہوا میر تباہ اپنا جہاز
تختہ پارے گئے کیا جانوں کدھر پانی میں
میر تقی میر