- Advertisement -

رکھا کر اشک افشاں چشم فرصت غیر فرصت میں

میر تقی میر کی ایک غزل

رکھا کر اشک افشاں چشم فرصت غیر فرصت میں
کہ مل جاتا ہے ان جوئوں کا پانی بحر رحمت میں

سنبھالے سدھ کہاں سر ہی فرو لاتا نہیں ہرگز
وگرنہ مان جاتا تھا کہاں تھوڑی سی منت میں

گئے دن متصل جانے کے اس کی اور اٹھ اٹھ کر
تفاوت ہو گیا اب تو بہت پائوں کی طاقت میں

تحمل ہوسکا جب تک بدن میں تاب و طاقت تھی
قیامت اب گذر جاتی ہے جی پر ایک ساعت میں

عجب کیا ہے جو یاران چمن کو ہم نہ پہچانیں
رہائی اتفاق اپنی پڑی ہے ایک مدت میں

سلاتا تیغ خوں میں گر نہ میرے تو قیامت تھی
اٹھا تھا روز محشر کا سا فتنہ رات صحبت میں

کوئی عمامہ لے بھاگا کنھوں نے پیرہن پھاڑا
بہت گستاخیاں یاروں نے کیں واعظ کی خدمت میں

ملا تیوری چڑھائے تو لگا ابرو بھی خم کرنے
موثر کچھ ہوا سر مارنا محراب طاعت میں

قدم پر رکھ قدم اس کے بہت مشکل ہے مر جانا
سرآمد ہو گیا ہے میر فن مہر و الفت میں

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل