ہوا دم سادھ لیتی ھے تو پھر ھُو بولتے ھیں
شجر یُوں بولتے ھیں جیسے سادُھو بولتے ھیں
تُم اُس کے شہر کو دو باتوں سے پہچان لینا
کہ گلیاں صاف ھیں اور لوگ اُردو بولتے ھیں
تُم آنکھوں سے جو کرتے ھو اُسے کیا نام دیں ھم ؟
ھمارے شہر میں تو اس کو جادُو بولتے ھیں
بہت شہروں میں شُہرہ ھے مِرے شعروں کا لیکن
مِرے ماں باپ اب بھی مُجھ کو بُدّھو بولتے ھیں
سرِ شب باغ میں جاؤ تو سُننا آنکھ سے تُم
وہ جگ مگ نُور کی بھاشا جو جگنو بولتے ھیں
نہیں ھے استعاروں کی خبر ھم جاھلوں کو
مگر ھم آپ کی آنکھوں کو خوشبُو بولتے ھیں
اُنہی کے مُوڈ پر ھے مُنحصر طرزِ تخاطب
کبھی وہ آپ کہتے ھیں، کبھی تُو بولتے ھیں
اچانک اُڑ گئی جب سے تری یادوں کی کوئل
شبستانِ غزل میں تب سے اُلو بولتے ھیں
الف بے کے بجائے اس میں ھوتے ھیں خدوخال
سمجھتا ھُوں بدن بولی جو خُوش رُو بولتے ھیں
رحمان فارسؔ