جب سے اسے یہاں لایا گیا تھا اسے بہت گھٹن ہو رہی تھی _ ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا ،نہ روشنی کی کوئی کرن نہ تازہ ہوا کا کوئی جھونکا _ کمر کے نیچے سخت پتھریلی زمین جو سردیوں میں یخ ہو جاتی _
اس جگہ میں بس اتنی ہی گنجائش تھی کہ وہ سیدھا ہو کر لیٹ جاۓ اس پر بھی اس کے پاؤں پرلی طرف کی دیوار سے ٹکراتے تھے _ سر کو گھمانے کی کوشش کرتا تو دونوں اطراف کی دیواریں آنکھوں میں گھسی چلی آتیں _
اس میں اب ہلنے کی سکت بھی نہیں تھی _ پیاس سے حلق میں کانٹے پڑ گئے تھے اور ہونٹوں پر پپڑیاں جم چکی تھیں _ آواز دیتا بھی تو کوئی سننے والا نہیں تھا _
وہ یہاں کیوں لایا گیا تھا ؟
جتنا یاد کرنے کی کوشش کرتا اتنا ہی دماغ ماؤف ہوتا جاتا _
بس اتنا یاد تھا کہ رات کا کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے آرام دہ بستر پر سونے کے لئے لیٹا تھا _ اور جب آنکھ کھلی تو اس تنگ و تاریک مقام پر _
پہلی رات سب سے بھاری گزری _ مدد کے لئے چیخ چیخ کر اس کی آواز بیٹھ گئی تھی _ کمر کے نیچے سے ٹھنڈ اس کے جسم میں آہستہ آہستہ سرایت کرتی جاری رہی تھی _ چند ہی گھنٹوں میں ہاتھ پیر سن ہو کر اکڑ گئے تھے _
لیکن کیا یہ واقعی رات تھی ؟
یہاں اس اندھیرے میں دن کا کوئی تصور نہیں تھا _
حشرات الارض کا شور سب آوازوں پر حاوی تھا – ان کا الاپ اسے اپنے دماغ میں بجتا محسوس ہوتا _
اچانک اسے اپنے لبادے کے اندر سرسراہٹ محسوس ہوئی _ وہ ہاتھ بڑھا کر اس جگہ کھجانا چاہتا تھا لیکن جسم حرکت کرنے سے انکاری تھا _
”ارررے ..ہٹ ..! ” اس نے دل میں کہا _
پھر اسے محسوس ہوا کئی کیڑے اس کے بدن پر رینگ رہے تھے _
“آہ __ آہ _” وہ کراہنے لگا _
جسم میں جیسے سینکڑوں سوئیاں پیوست کر دی گئیں _ کھجانے کی شدید خواہش اسے چین نہیں لینے دے رہی تھی _
“اف _ اف ! ” وہ چلایا _
ان سوئیوں کے زریعہ اس کے بدن میں کوئی زہریلا مادہ داخل کیا گیا تھا –
ان کے نوکیلے سرے اس کے نرم و ملائم گوشت میں پیوست ہوتے جاتے اور وہ چلا ئے جاتا _
“اررے کوئی ہے ؟ ”
“کوئی تو میری مدد کرو _ خدا کے لئے مجھے اس اذیت سے نجات دلاؤ ..! ”
” خدا ..! ”
اس نے حیران ہو کر سوچا _ یہ لفظ اس نے آخری بار کب ادا کیا تھا ؟
فرصت ہی کب تھی _؟
کچھ یاد نہیں تھا _ یہاں آنے کے بعد اس کے حافظے نے جیسے ساتھ چھوڑ دیا تھا _ ماضی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹا ،ایک خواب کی مانند یاداشت میں کہیں تیرتا پھر رہا تھا _ آج اور کل اس کی پہنچ سے دور تھے _
اب یہ چوبیس گھنٹے کا معمول بن گیا ، اس کا جسم اندر سے پگھل رہا تھا _ دل ،جگر پھیپھڑے سب ایک سیاہی مائل گاڑ ھاے سیال میں تبدیل ہو رہے تھے وہ اذیت سے تڑپتا رہتا –
ہاں ویسا ہی سیال جو اس نے اپنے دوستوں کے شہہ دینے پر ایک دفعہ پی لیا تھا اور اس کے منہ اور حلق میں جیسے کسی نے انگارے بھر دیئے تھے _ اسے لگتا تھا وہ اندر سے جل رہا ہے _
دوست اس کی کمر پر دھب مارتے اور قہقہے لگاتے _اس دن اسے اندازہ ہوا تھا کہ جلنا کسے کہتے ہیں _
یادوں کے دریچے خود بخود واہ ہوتے جا رہے تھے _
اذیت سے فرار کا بس ایک یہ ہی طریقہ رہ گیا تھا _ یادیں –
ماضی کے تمام لمحات ایک فلم کی طرح اس کے دماغ کے پردے پر سرعت سے چل رہے تھے – ” چل نہیں – نہیں ” دوڑ رہے تھے – وقت کو پنکھ لگ گئے
تھے اور وہ اڑا چلا جا رہا تھا _ ایک منظر ابھی واضح بھی نہیں ہوتا تھا کہ کوئی اور تصویر آنکھوں کے پیچھے سے جھانکنے لگتی _
شو کیس میں وائن کی بوتلیں لگاتے ہوۓ حمید نے اپنی د کان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور اطمینان کی ایک ٹھنڈی سانس بھری _ شو کیس قیمتی اور درمیانہ قیمت کی شراب کی بوتلوں سے پر تھا _ د کان ٹانک و ٹانک مال سے بھری ہوئی تھی_ باہر بڑے بڑے اسٹینڈز پر پھل اور سبزیاں اپنی بہار دکھا رہے تھے تو اندر داخل ہوتے ہی بائیں طرف ریکس میں کھانے کی اشیاء سے لے کر گھریلو استعمال کی ہر چیز موجود تھی _ چھت تک لدے پھندے اسٹینڈز صارفین کی ہر ضرورت کو پورا کرتے نظر آتے _ دائیں طرف دیوار کے ساتھ فریج استادہ تھے جن میں ٹھنڈے مشروب اور بیئر لگی ہوئی تھی _ یہ “نائٹ شاپ ” کھولے اسے ابھی چار سال کا عرصہ ہوا تھا _
کڑ ی آزمائش اور سخت محنت کے بعد وہ اس قابل ہوا تھا کہ ذاتی کاربار کا آغاز کر سکے – سو طرح کی قانونی پیچیدگیاں ، انگنت بکھیڑے _
وہ بھی سینکڑوں ہزاروں نوجوانوں کی طرح خوبصورت خواب سجا ئے پردیس چلا آیا _ ماں باپ ،بہن بھائی کی کفالت کا بوجھ اٹھا ئے ، در در کی ٹھوکریں کھا ئیں ، ٹوائلٹ صاف کئے ،برتن دھو ئے ،صفائی کا کام کیا ،اپنے ہم وطنوں کے اسٹور پر دن و رات کام کرنا پڑتا کہ وہ ذرا سی بھی رعایت دینے کو تیار نہ ہوتے ،بس ویسی ہی کڑی مشقت جیسی انہیں پردیس آ کر کرنی پڑی تھی _ قانونی کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے اکثر پولیس کا خوف _ اٹھارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کے بعد اس ڈربے نما کمرے میں صرف سونے کے لئے ہی جانا ہوتا – وہ بھی چھ گھنٹے کی نیند لینے کے بعد ،ٹوٹتے اکڑتے جسم ، اور نیند کے خمار سے سرخ آنکھیں لئے بستر چھوڑنا پڑتا کہ کسی دوسرے کو اپنے خوابوں کی قیمت ادا کرنی تھی _
پردیس میں سب ہی بیگانے تھے _
پیسہ کمانے کے لئے ہر جائز و نا جائز طریقہ استعمال کیا ،جعلی کاغذات بنوا ئے ، لوگوں کی چاکری کی تو کہیں جا کر اس قابل ہوا کہ چار پیسے گھر بھی بھیج سکے _ یہ سب کرتے کرتے وہ خود کو بھی بھول گیا تھا ،دن رات بس ایک ہی دھن تھی کہ چار پیسے جوڑ لے تو اپنا کاروبار شروع کرے _
آخر کار ماہ و سال کی تگ و دو کے بعد ایک دکان خریدنے میں کامیاب ہو ہی گیا _ جی بھر کر مال ڈالا ، چوری کا مال بھی خریدا اور آہستہ آہستہ کاروبار چل پڑا تھا _ کوئی سوا سال کے عرصے میں جس جس سے قرض لیا تھا وہ بھی اتار دیا _
پردیس میں سال مہینوں کی طرح گزر جاتے ہیں _ دس سال بعد اپنے وطن جانا ہوا تو گھر میں خوش حالی آ چکی تھی _ ماں کو اس کی شادی کی دھن سوار تھی ،وہ انکار کرتا رہا – اب ماں کو کیا بتاتا کہ وہ پردیس میں پہلے ہی شادی کر چکا ہے _ وہ بھی اسی سٹور میں کام کرتی تھی جہاں حمید جز وقتی ملازم تھا -_ ایک دوسرے کا ساتھ انہیں بہت قریب لے آیا _ ایسی کوئی تہذیبی یا معاشرتی رکاوٹ بھی حا ئل نہیں تھی جو ان دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھتی _ اور پھر بشری تقاضے بھی تھے جو اسے جسمانی ضرورت کو پورا کرنے پر اکساتے ،سمنتھا سے اس نے صرف پیپر میرج کی لیکن ہر وقت پولیس کے چھاپے کا خوف رہتا کہ وہ دونوں ساتھ رہ بھی رہے ہیں یا یہ صرف ایک دھوکہ ہے اسلئے ساتھ رہنا پڑا _ لہٰذا فرضی شادی حقیقت کا روپ دھار گئی _
لیکن ماں کا اصرار کہ اب وہ شادی کے بعد ہی واپس جاۓ گا _ اس نے ایک خوبصورت ، نو عمر لڑکی ڈھونڈھ کر اس کا بیاہ کر دیا _ ڈیڑھ مہینہ راحت کا گزار کر،بیوی سے پردیس بلانے کے وعدے کرتا واپس آ گیا _ پھر وہ ہی کمانے کی دھن _ بیوی بیچاری مستقبل کے سنہرے سپنے آنکھوں میں سجا ئے ، اسے اپنے پاس بلانے کا تقاضا کرتی رہی اور وہ دو ،تین سال بعد تحفوں سے لدا پھندا واپس جاتا ، بیوی کو طفل تسلیاں دیتا ،سو طرح کی قانونی پیچیدگیوں کا رونا روتا اور واپس آ جاتا ،اور اسی عرصے میں دو بچوں کا باپ بھی بن گیا – جب کبھی کاروبار سے فرصت ملتی تو بیوی بچوں سے ٹیلی فون پر باتیں کر لیتا _ اور ہر مہینے باقاعدگی سے اچھی خاصی رقم بھیج دیتا – جیسے پیسہ ہی ہر دکھ کا درما ں ہو _ وہ حرماں نصیب شوہر کی جدائی میں گھٹ گھٹ کر آدھی ہو گئی تھی پر منہ سے کچھ نہ کہتی کہ سسرال میں روپے پیسے کی ریل پیل تھی _ اس کے جذبات پیسے کے ترازو میں تل گئے _ وہ جس آگ میں جل رہی تھی کسی کو کیا پرواہ ؟ کہیں آنے جانے پر اگر ذرا تیار ہوتی تو ساس کی جلی کٹی سننی پڑتیں کہ ” خاوند باہر ہے تو کس کے لئے اتنی بنی ٹھنی ہے -؟؟ ” مہینے سالوں میں ڈھلتے گئے ، خواب پھانسی گھاٹ کی سولی پر لٹکے جھولتے رہے _ سہاگن ہو کر بھی بیوہ جیسی زندگی گزارنے پر مجبور تھی _ اس کے دکھ کا مداوا کسی کے پاس نہیں تھا -بچوں میں مگن ہو کر وہ تو یہ بھی بھول گئی کہ اس کے بھی کچھ ارمان تھے _ اس کے ارمانوں کو تو نصیب کی سیاہ چادر نے ڈھانپ رکھا تھا _
کبھی کبھی جب حمید کے بچے باپ سے باتیں کرتے تو ضد کرتے کہ ” با با آپ دوسرے بچوں کی طرح ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتے ” تو وہ کوئی جواب نہ دے پاتا – کیا بتاتا کہ اس نے پردیس میں پہلے سے ہی شادی کر رکھی تھی اور وہ یہاں پر کسی اور کا “ڈیڈی ” تھا _ یہ دوہری زندگی ،آہستہ آہستہ اس کے لئے بھی وبال بنتی جا رہی تھی لیکن وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کیا کرے ؟؟ اسے لگتا کہ زندگی جیسے مستعار لی گئی ہو جو اب دو دھڑوں میں بٹ چکی تھی _
“افففف _ اففف _ یہ تکلیف ..!”
اسے لگتا کہ اس کے جسم کو کسی پتھر کوٹنے کی مشین میں ڈال دیا گیا ہو _ جوڑ جوڑ کڑ کڑ ا کر رہ گیا تھا _ کبھی کبھی تو ایسا لگتا کہ یہ دیواریں دونوں اطراف سے نزدیک آ کر اس کی ہڈیوں کا سر مہ کر دیں گی _ اس کے چلانے اور فریاد کرنے کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا _ اسے قید کرنے والے اسے یہاں ڈال کر بھول گئے تھے _
یہ عمل کب تک جاری رہے گا _ اسے علم نہیں – تکلیف کا احساس پور پور میں جاں گسیں تھا _
اذیت اور درد کا عمل صدیوں پر محیط تھا – بہت دنوں بعد جا کر اسے ادراک ہوا کہ وقت اس کی گرفت سے نکل چکا _
جسم کی کھال سکڑنے لگی اور ماس آہستہ آہستہ جھڑنے لگا – وہ یہ سب دیکھ تو نہیں سکتا تھا کہ آنکھیں کچھ بھی دیکھنے سے قاصر تھیں متحرک پتلیاں جامد اور بے جان ہو چکی تھیں _ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اب نجات کی کوئی راہ نہیں – وہ ہمیشہ یہاں پر ہی قید رہے گا _
آج عرصے بعد دور سے آوازیں آتی محسوس ہوئیں _ “محسوس ” وہ تو ہر احساس سے عاری تھا !
“پھر یہ ہلکی سی روشنی کہاں سے در آئی ہے “_ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کا تو وہ عادی ہو چکا تھا – خیر جو بھی تھا اس کے لئے امید کی کرن تھی –
شاید آزادی کا پروانہ مل گیا تھا –
تھوڑی ہی دیر میں اس کی بچی کچی بھربھری ہڈیوں اور کھوپڑی کو بری طرح ایک تھیلے میں ٹھونس دیا گیا – کیونکہ یہ دو گز زمین کا ٹکڑا
صرف پچیس سال کی لیز پر اسے الاٹ کیا گیا تھا –
فرحین جمال