کیسی عجیب رات ہے میں خواب میں نہیں
ہے چاند آسمان پہ تالاب میں نہیں
مشکل پڑی تو کس قدر آیا ہے میرے کام
وہ آدمی جو حلقۂ احباب میں نہیں
بے کار میں گنوائے ہیں فرصت کے روز و شب
تیرا ٹھکانہ منبر و محراب میں نہیں
لاتا میں کیا اٹھا کے یہ گٹھڑی ترے حضور
جز اشک اور کچھ مرے اسباب میں نہیں
اک پھول کھل رہا ہے سرِ شاخِ جسم و جاں
یہ واقعہ بھی خطۂ شاداب میں نہیں
آزر جو بات برملا کہنے میں لطف ہے
سچ پو چھیے تو وہ ادب آداب میں نہیں
دلاور علی آزر