اور کتنے جلیانوالہ باغ؟
چند حقائق!
٭ ۱۹۸۲ میں اسمٰعیل یوسف کالج جوگیشوری ممبئی سے اِپٹا کے انٹر کالجیٹ ڈراما مقابلہ میں شرکت کے لیے میں نے اور اسلم پرویز نے مشترکہ طور پر یک بابی ڈراما لکھا ’جلیانوالہ باغ۔82‘ ہدایت کاری کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی اور میرے ساتھ معاونت کی
اسلم خان ، قاسم امام اور وقار قادری نے۔
٭ 25 یک بابی ڈراموں میں ’’جلیانوالہ باغ ۔ 82 ‘‘ کو فائنل مقابلے کے لیے منتخب کیا گیا اور فائنل مقابلے تیج پال ہال ممبئی میں ہوئے جہاں اس ڈراما کو پہلی بار بہترین
’اسٹوڈنٹس رائٹر اسکرپٹ‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
٭ اس کے بعد ممبئی اور مہاراشٹر کے متعدد ڈراما مقابلوں میں اس ڈراما نے اول انعام ہی حاصل کیا جس کی فہرست خاصی طویل ہے ۔
٭ ۱۹۸۲ سے ۱۹۸۹ تک میں نے اپنے طور پر اس ڈراما کے سولہ مختلف ورژن لکھے، اور پرانے سین نکال کر نئے سین شامل کئے اور ناچیز کی ہدایت میں اس ڈراما نے 80 سے زائد انعامات و ایوارڈز حاصل کئے اور اس کے 200 سے زائد شوز ہوئے۔
٭ ۱۹۸۹میں اس ڈراما کو میں نے یک بابی سے فل لینتھ شکل دی اور 35 منٹ کے اس ڈراما کو دو گھنٹے کا بنایا اور ساہتیہ کلا پریشد نئی دہلی کے زیر اہتمام منعقدہ کل ہند ڈراما نگاری کے مقابلہ میں ارسال کیا، جہاں ہندی پنجابی اور اُردو کی سینکڑوں اسکرپٹس میں اس طبعزاد اُردو ڈراما کو بہترین اسکرپٹ کا اوّل انعام دیا گیا اور اَحقر کو دہلی بلا کر ۱۶/ اگست ۱۹۸۹کو گورنر دہلی کے ہاتھوں یہ قومی ایوارڈ دیا گیا۔
٭ بعد ازاں یہی ڈراما ساہتیہ کلا پریشد نے اسپانسر کیا اور دہلی کے با وقار ڈراما فیسٹول کے لیے منتخب کیا گیا ۔ یکم جنوری ۱۹۹۱ کو ہم نے سری رام سینٹر دہلی میں اپنے ڈراما گروپ
’کردار آرٹ اکیڈمی‘ کی جانب سے پیش کیا اور اسے بیحد سراہا گیا۔
٭ گذشتہ دو دہائیوں سے کھیلے جانے والے اس ڈراما کا اب تک چھ مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ، 300 سے زائد شوز ہو چکے ہیں اور اب تک تقریباً 200 انعامات یہ ڈراما حاصل کر چکا ہے ، اور اسے کم و بیش 50 ہدایت کاروں نے اپنے انداز سے پیش کیا ہے ۔
٭ یہ ڈراما اپنے دور میں پیشکش اور ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے اتنا منفرد تھا کہ بعد ازاں اسی فارم اور ٹریٹمنٹ کے ساتھ کئی ڈرامے لکھے گئے۔
’جلیانوالہ باغ‘ اُردو کے اُن چند طبعزاد ڈراموں میں سے ایک ہے جس کا ترجمہ مراٹھی، انگریزی ، بنگلہ، گجراتی اور تمل زبانوں میں ہوا اور ان زبانوں کے مقابلے میں بھی اس ڈراما نے اہم انعامات حاصل کئے۔
٭ اس ڈراما کی ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیک وقت نکڑ ناٹک فارم میں سڑکوں پر بھی کھیلا گیا اور پروسینیم اسٹیج پر پورے تام جھام اور ضروری لوازمات کے ساتھ بھی ۔ دو گھنٹے کی طوالت والا یہ ڈراما صرف دس منٹ کی ’’اسکِٹ کمپٹیشن‘‘ میں بھی ہمیشہ اوّل رہا اور اس کے بعض اہم حصوں کو مونولاگ کے طور پر بھی پیش کیا گیا۔ اِسے پرائمری اسکول کے ننھے بچوں نے بھی کیا، کالج کے نوجوانوں نے بھی ، ڈی ایڈ کالج کی طالبات نے بھی اور میڈیکل (ڈاکٹرز) ٹیم نے بھی۔ ممبئی کے BEST ، ریلوے اور بینک کے افسران ، ہائی اسکول اور جونیئر کالج کے اساتذہ کے علاوہ نابینا معذور افراد کی سوسائٹی نے بھی اسے اسٹیج پر کھیلا ہے۔
٭ اس وقت ڈراما ’’اور کتنے جلیانوالہ باغ۔ ۔ ۔ ؟‘‘ جو فل لینتھ شکل میں آپ کے سامنے ہے وہ ۱۹۸۲ کے یک بابی ڈراما سے یکسر بدل چکا ہے۔ صرف Format وہی ہے۔
٭ اسے سات، نو یا گیارہ اداکاروں کے ذریعے اسٹیج کیا جا سکتا ہے۔ ٹیم میں ایک اداکارہ کی شمولیت ضروری ہے ، نیز ایک چھوٹی بچی بھی ڈراما کے چند مناظر میں اہم کردار نبھا سکتی ہے۔
٭ اس ڈراما میں کہانی کا ر م ناگ کی ایک کہانی کے کچھ حصے اور ابراہیم اشکؔ کی ایک نظم بھی Content کا حصہ بن گئی ہے جس کے لیے میں ان کا ممنون ہوں ۔
***
سین نمبر ۱
( پردہ اُٹھتا ہے )
(آڈیٹوریم میں ایک لمحہ کے لیے اندھیرا پھیل جاتا ہے اور دس اداکار نعرے لگاتے ہوئے آڈیٹوریم کے عقبی حصہ سے اسٹیج کی طرف بڑھتے ہیں
ایک کے ہاتھ میں ترنگا جھنڈا ہے ۔)
آدمی نمبر ۱: اِنقلاب۔ ۔ ۔
کورس : زندہ باد!
آدمی نمبر ۱: انگریزو۔ ۔ ۔
کورس : بھارت چھوڑو۔ ۔ ۔ !!
آدمی نمبر ۱: چلو۔ ۔ ۔ جلیانوالہ باغ!
کورس : چلو ۔ ۔ ۔ جلیانوالہ باغ!
آدمی نمبر ۱: انگریز سامراج مُردہ باد ۔ ۔ ۔
کورس : انگریز سامراج مُردہ باد!
آدمی نمبر ۱: بھارت دیش ہمارا ہے
کورس : یہی ہمارا نعرہ ہے
آدمی نمبر ۱: انقلاب ۔ ۔ ۔
کورس : زندہ باد!
(سبھی اداکار نعرے لگاتے ہوئے اسٹیج پر چڑھتے ہیں ۔ وہاں جنرل ڈائر خونی نظروں سے انہیں گھور رہا ہے ۔ لمبا اوورکوٹ پہنے ہوئے ۔ سر پر لمبی ہیٹ اور ہیٹ پر برطانیہ کا فلیگ لگا ہوا ہے ۔ منہ میں پائپ پکڑے ہوئے جنرل ڈائر وارننگ دینے والے انداز میں دہاڑتا ہے)
جنرل ڈائر : بنڈ کرو یہ سوب ۔ ۔ ۔ (نعرے جاری رہتے ہیں )
ام بولٹا ہے Stop it ۔ ۔ ۔ (نعروں میں تیزی آتی ہے )
دِس اِز لاسٹ وارننگ۔ ۔ ۔ (نعرے اور تیز ہوتے ہیں )
یو بلڈی انڈین ڈاگس ۔ ۔ ۔ اسکراؤنڈل ۔ ۔ ۔ شوٹ دیم۔ ۔ ۔ شوٹ آل دیز ڈاگس
(بیک اسٹیج سے مشین گن چلنے کی آوازیں ۔ لوگوں کی چیخ و پکار )
شور غل۔ ۔ ۔ لوگ پورے منچ پر ادھر سے ادھر بے تحاشہ بھاگ رہے ہیں Stopper لائٹ میں لوگوں کے تڑپ تڑپ کر گرنے کا منظر۔ ۔ ۔ جنرل ڈائر کے وحشیانہ قہقہے Overlap ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور پھر اچانک خاموشی۔ پس منظر سے Sad دھُن میں ’’سارے جہاں سے اچھا‘‘ کی موسیقی بجتی ہے ۔ ۔ ۔ جنرل ڈائر قہقہے لگاتے ہوئے لاشوں پر پیر رکھتا ہے اور نفرت سے تھوک کر ۔ ۔ ۔ ’’ہونہہ‘‘ ۔ ۔ ۔ امارا نام ڈائر ہے ۔ ۔ ۔ امارا Disobey کرنے والے کا یہی End ہو گا ۔ ۔ ۔ All is well ۔ ۔ ۔ All is well کہتے ہوئے وِنگ میں چلا جاتا ہے ۔ اسٹیج پر بکھری ہوئی لاشوں میں سے ایک نوجوان اُٹھ کر اسٹیج کے اپ رائٹ کے Spot میں آتا ہے اور نوجوان سوتر دھار بن کر
تماش بینوں سے مخاطب ہوتا ہے ۔)
سوتر دھار : تو صاحبو ! یہ تھا جلیانوالہ باغ ! ۱۳/اپریل ۱۹۱۹ء کا جلیانوالہ باغ ! جنرل ڈائر نے ٹھیک بیساکھی کے دن سِلور گھوسٹ نامی اسلحوں سے بھری بکتر بند گاڑی کا استعمال کیا اور بیس ہزار نہتے اور بے گناہ لوگوں کے ہجوم پر اندھا دھند فائرنگ کروا دی۔ اس حادثے میں ڈائر نے ۷۵ فوجیوں اور ۵۰ رائفل برداروں سے حملہ کروایا۔ ۳۸۰ مجاہدینِ آزادی شہید ہو گئے اور ۱۲۰۰ سے زیادہ زخمی ہوئے۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی تھیں ۔ ایک کنواں لاشوں سے بھر گیا تھا ۔ اس باغ سے نکلنے کا دروازہ چھوٹا تھا اس لیے بھاگ دوڑ میں کئی عورتیں بوڑھے بچے پیروں تلے کچلے گئے ۔ اور تعجب کی بات یہ ہے کہ برطانوی حکومت نے اِس وحشیانہ ظلم و ستم کے بعد جنرل ڈائر کو انگلینڈ میں ’’بھارت کو بچانے والے مسیحا‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ ۔ ۔ جی ہاں ! وہی جنرل ڈائر جس کے ایک حکم پر ہندوستانیوں کا خون پانی کی طرح بہہ گیا۔ ۔ ۔ ہزاروں زخمی اور اپاہج ہوئے ۔ ویسے تو آپ سب یہ جانتے ہی ہیں ، آپ نے تاریخ پڑھی ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ ۹۱۹۱ء کو ہندوستانیوں کے خون سے ہی اس دیش کی مٹی سینچی گئی، قومی اتحاد کے بیج بوئے گئے اور نئی زندگی کی کونپلیں بھی اسی خون سے پھوٹی ہیں ۔ آج ۔ ۔ ۔ آج اِس حادثے کو ۴۸ برس ہو چکے ہیں لیکن مجھے بتائیے ۔ ۔ ۔ مجھے بتائیے کیا آج پورا بھارت جلیانوالہ باغ نہیں بنا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ؟؟
(اچانک اسٹیج پر پڑی ہوئی لاشیں زندہ ہوتی ہیں ۔ اُن کے ہاتھ میں اب ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے نقشے ہیں ۔ ۔ ۔ پیچھے سائیکلوراما پر Shadow میں ہندوستان کے نقشے کا Cutoutاُبھرتا ہے۔
لوگ نعرے لگا رہے ہیں ۔)
آدمی نمبر۲: اُترانچل اُترانچل۔ ۔ ۔ لے کے ا رہیں گے اُترانچل
آدمی نمبر۳: خون سے دھرتی ہو جل تھل ۔ ۔ ۔ لے کے رہیں گے اُترانچل
آدمی نمبر ۴: چھتّیس گڈھ
کورس : ہمارا ہے ۔ ۔ ۔ ہمارا ہے
آدمی نمبر ۵: چاہے دے دو مرتیو دنڈ
کورس : لے کے ا رہیں گے جھارکھنڈ
آدمی نمبر۶: یہ پنجاب
کورس : ہمارا ہے ۔ ۔ ۔ ہمارا ہے
آدمی نمبر ۷: گورکھا لینڈ
کورس : بنا کے ا رہیں گے ۔ ۔ ۔ بنا کے ا رہیں گے۔ ۔ ۔
آدمی نمبر۸: یہ کشمیر
کورس : ہمارا ہے ۔ ۔ ۔ ہمارا ہے
آدمی نمبر ۹: خالصتان
کورس : لے کے رہیں گے ۔ ۔ ۔ لے کے رہیں گے۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۱: وندھئے پردیش
کورس : الگ کرو ۔ ۔ ۔ الگ کرو ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر۳: چاہے کوئی سیاست ہو۔
کورس : وِدربھ الگ ریاست ہو۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۲: مدھیہ بھارت الگ کرو ۔
کورس : الگ کرو۔ ۔ ۔ الگ کرو۔ ۔ ۔
(اِن نعروں کے فوراً بعد سائیکلو راما کے پیچھے تھرماکول سے بنے ہندوستان کے نقشے کے کٹ آؤٹ کو مختلف لوگ ٹکڑے ٹکڑے کر کے لے جاتے ہیں )
سین نمبر۲
آدمی نمبر ۴: یہ کشمیر
کور س : ہمارا ہے
آدمی نمبر ۴: ہم کشمیر
کورس :لے کے رہیں گے
آدمی نمبر ۴: یہ کشمیر
کورس : ہمارا ہے
(آدمی نمبر۳سر پر کشمیری رومال باندھے ہوئے سب کو بیٹھنے کا اِشارہ کرتا ہے )
آدمی نمبر ۳: جنّت نشان! وادیِ کشمیر کے جنگجو سپاہیوں ۔ ۔ ۔ لشکر کے بے خوف اور نِڈر نوجوانوں ! کشمیر ایک خود مختار ریاست ہونی چاہیے جہاں ہم اپنی مرضی سے اپنی حکومت چلا سکیں ہمیں ہندوستان کا بغل بچہ نہیں بننا ہے ۔ کشمیر کو ہم آزادی دلا کے ا رہیں گے اسے ہندوستان سے الگ ککر کے ا رہیں گے ۔ یہ ہمارا ہے اور اس پر صرف ہمارا حق ہے اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس برفیلی وادی میں سرخ خون کی ندیاں بھی بہانا پڑے تو ہم گریز نہیں کریں گے ۔ تو ہو جاؤ شروع۔ ۔ ۔
(موسیقی اور روشنی کے ذریعے مارا ماری ۔ ۔ ۔ توڑ پھوڑ کا منظر۔ ۔ ۔
سامنے کی وِنگ سے وہی آدمی نمبر۰۱ داخل ہوتا ہے جو پہلے جنرل ڈائر
بناہوا تھا اب اُس نے کھادی کا کرتا اور دھوتی پہن رکھی ہے سر پر گاندھی ٹوپی ہے اور ایک جیکٹ بھی ہے ایک ہاتھ میں موٹا ڈنڈا اور دوسرے میں بجھی ہوئی لالٹین ہے ۔ وہ زور سے زمین پر ڈنڈا پٹکتا ہے اور
’’سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ ‘‘
کہتے ہوئے دوسری وِنگ میں چلا جاتا ہے )
سین نمبر ۳
(وہی Mob دوسری طرف رُخ ککر کے بیٹھ جاتا ہے)
آدمی نمبر ۴: مل مزدور
کورس : زندہ باد۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۴: ہم سے جو ٹکرائے گا
کور س : مٹی میں مل جائے گا ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۴: ہماری مانگیں
کورس : پوری کرو۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۴: مل مالک
کورس : مردہ باد۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۴: مزدور ایکتا
کورس : زندہ باد ۔ ۔ ۔ (آدمی نمبر ۴ سب کو اِشارے سے بٹھاتا ہے )
آدمی نمبر ۵: مزدور بھائیو۔ ۔ ۔ ! پچھلے کئی برسوں سے ہماری ملیں بند ہیں اور پچھلے سال تو بھوک ، بیکاری ور غریبی سے پریشان ہو کر ہمارے ۵۲ مزدور بھائیوں نے خود کشی کر لی ہے ۔ ۔ ۔ اور یہ خون مل مالکوں اور مزدور یونین کے سر جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ایک ایک ککر کے مل مالک ملوں کو بند کرتے جا رہے ہیں ۔ہماری چیخ پُکار اور احتجاج سے سرکار کے کانوں پر بھی جوں نہیں رینگ ا رہی ہے اور رینگے گی بھی کیسے؟ سرکار تو گنجی ہو چکی ہے گنجی!! مزدور یونین کے نیتا کامگاروں کا بھلا کرنے کے بجائے سرمایہ داروں اور مل مالکوں کے دلال بن کر اُن کی جوتیاں چاٹ رہے ہیں ۔ لیکن ہمارا کیا ؟ ہم اور ہمارے بچے کب تک بھوکے ننگے کسی فیصلے کے انتظار میں بیٹھے ا رہیں گے ؟ ارے یہ مل مالک کروڑوں روپے خرچ ککر کے ائیر پورٹ بنا رہے ہیں ، ائیر انڈیا اور انڈین ائیر لائنس کو خریدنے کے لیے تیار ہیں، نئے نئے فائیو اسٹار ہوٹل بنا رہے ہیں ، ملکوں کے بزنس میں اپنا لاکھوں روپیہ لگا رہے ہیں لیکن ان کے پاس اپنے غریب وفادار مزدورو کو دینے کے لیے چند لاکھ روپے نہیں ۔ ۔ ۔ لیکن اب ہم اور چپ نہیں ا رہیں گے ۔ ۔ ۔ اب کوئی مزدور خود کشی نہیں کرے گا ۔ ۔ ۔ اب ہم طاقت کے بل بوتے پر اپنا حق حاصل کریں گے ۔ ۔ ۔ اور جیل بھرو آندولن شروع کریں گے ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۶: جیل بھرو آندولن ۔ ۔ ۔
کورس : جیل بھرو آندولن۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۵: اور جیل بھرنے کے لیے کچھ ملوں میں آگ لگانی ہو گی ۔ ۔ ۔ توڑ پھوڑ کرنا ہو گی ۔ اس لیے شروع ہو جاؤ ۔ ۔ ۔ توڑو پھوڑو لگا دو آگ ۔
(سبھی اداکار توڑ پھوڑ کرتے ہیں ، (مائم) تیز موسیقی ۔ ۔ ۔ آگ لگانے کا مائم ۔ لائٹ افیکٹس کے ذریعے آگ کا منظر۔پیچھے کی ونگ سے زور سے ڈنڈا زمین پر پٹک کر)
آدمی نمبر ۰۱:’’سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ ‘‘
(کہتے ہوئے مخالف وِنگ میں چلا جاتا ہے )
سین نمبر۴
(سارے لوگ سڑک کا منظر بنا کر چلنے لگتے ہیں ۔ ۔ ۔
کوئی لنگڑا کر چل رہا ہے ۔ ۔ ۔ کوئی پان کھا کر تھوک رہا ہے ،
کوئی اندھا فقیر بنا ہے ۔ ۔ ۔ اور چلتے چلتے سب یہ دھن دہرا رہے ہیں ۔ ۔ ۔
دھُم دھُم تانا نانا دھُم دھُم تانا ۔ ۔ ۔ دھُم دھُم تانانانا دھُم دھُم تانا)
آدمی نمبر ۷: بھائی صاحب ! ٹائم کیا ہوا ہے ؟
آدمی نمبر ۸: (مدراسی لہجہ میں ) اییّو اییّو ۔ ۔ ۔ کل اِتّے بجے کتّا بجا تھا جی؟
آدمی نمبر ۷: (حیرت سے ) جی ۔ ۔ ۔ ؟
آدمی نمبر ۸: تم لوگ کائے کو دوسرے کا ٹائم کھوٹی کرتا ؟ ایک تو ام کو مارا اُڈپی جانے کا ٹائم ہوتا اور تم کو ٹائم کا پڑا ہے ۔ یک گھڑی کیوں نئیں لیتا جی۔ ۔ ۔ آں ۔ ۔ ۔ مارکیٹ میں ایک سے ایک گھڑی ملتا ۔ ۔ ۔ امپورٹیڈ بھی ، انڈین بھی ، اور گھڑی نئی خرید سکتا نا ۔ ۔ ۔ تو سی ایس ٹی جانے کا ۔ ۔ ۔ سی ایس ٹی مالوم؟ چھترپتی شیوا جی ٹرمنس ، وہاں پر بھوت بڑا گھڑا ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۷: بھائی صاحب اتنی دیر میں تو آپ ٹائم بتا سکتے تھے ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۸: ٹائم ۔ ۔ ۔ ؟ ٹائم نا ۔ ۔ ۔ بھوت بُرا ٹائم ہے جی ۔ ۔ ۔ اِلاّپو۔ ۔ ۔
(سب چلنے لگتے ہیں ۔ دھُم دھُم تانا نانا دھُم دھُم تانا ۔ ۔ ۔
دھُم دھُم تانا نانا دھُم دھُم تانا ۔ ۔ ۔ کی دھُن گاتے ہوئے )
آدمی نمبر ۱: (آدمی نمبر۲ کو دھکا لگتا ہے ) I am sorry
آدمی نمبر ۲: کیوں بے ! اندھا ہے کیا ؟ دیکھ کر نہیں چلتا ۔ سالا شہر میں نیا آیا ہے کیا ؟ (نقل ککر کے) I am sorry ۔ ۔ ۔ ابے سڑک پر چلنے کی پریکٹس نہیں ہے نا تو جا کر پہلے آزاد میدان میں چلنے کی ٹریننگ لے سمجھا۔ ۔ ۔ کیا مالوم سالا ان لوگ کو کائے کی جلدی رہتی ہے ؟ بس بھاگ رہے ہیں سالے ۔ ۔ ۔ جانور کے مافک اور ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۱: (غصّہ سے ) ابے او ڈیڑھ شیانے ! ذرا سا دھکا لگا تو ساری بول دیا نا۔ ۔ ۔ ابھی بتاؤں کیا ؟ تیری ٹریننگ نکالوں ؟ جاتا ہے کہ ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۲: (فوراً گھگھیاتے ہوئے ) اچھا اچھا بھائی صاحب ۔ ۔ ۔ آئی ایم ساری ۔ ۔ ۔ آئی ایم ساری ۔ ۔ ۔
(سب چلنے لگتے ہیں ۔ دھُم دھُم تانا نانا دھُم دھُم تانا ۔ ۔ ۔
دھُم دھُم تانا نانا دھُم دھُم تانا ۔ ۔ ۔ کی دھُن گاتے ہوئے )
آدمی نمبر ۳: بھائی صاحب! ایسکیوز می! آپ کے پاس ’’ماچس‘‘ ہو گی پلیز ۔
آدمی نمبر ۴: کدھر آگ لگانا ہے ۔ ۔ ۔ ؟
آدمی نمبر ۳: (تعجب سے ) جی ؟
آدمی نمبر ۴: (اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے ) کدھر آگ لگانا ہے پاپے؟ اوئے کہیں تو آتنک وادی تو نئیں ۔ ۔ ۔ ؟ مافیا کا آدمی تو نئیں ۔ ۔ ۔ بم شم تو نئیں پھوڑنے کا ۔ ۔ ۔ ہاں !تُسی کارخانے میں آگ لگا کر انشورنس کے پیسے وصولنے کا ہے ؟ بڑا ہشیار ہے یار تُو تو۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۳: او سردار جی ایک سگریٹ جلانی ہے اس لیے ماچس ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر۴: اوئے تو مجھ سے مانگے گا ماچس! مجھ سے ؟ کیوں بھئی ۔ ۔ ۔ میری ماچس کیا پبلک پراپرٹی ہے ۔ ۔ ۔ ؟ آج ماچس مانگتا ہے ، کل سگریٹ مانگے گا ، پرسوں دارو شارو اور پھر۔ ۔ ۔ او چل پھُوٹ۔ ۔ ۔
(سب چلنے لگتے ہیں ۔ ۔ ۔ دھُم دھُم تانا نانا دھُم دھُم تانا ۔ ۔ ۔ دھُم دھُم تانا نانا دھُم دھُم تانا ۔ ۔ ۔ کی دھُن گاتے ہوئے ۔ ایک لڑکی آگے مٹک مٹک کر چلتی ہے۔ پیچھے غنڈہ سیٹی بجاتے ہوئے ۔ ۔ ۔ )
آدمی نمبر۵: ہائے ہائے ۔ ۔ ۔ (گا کر ) تیری چال بھی سیکسی تیرے بال بھی سیکسی ، یہ گال بھی سیکسی۔
لڑکی : (پلٹ کر) اور یہ سینڈل بھی سیکسی ہے ۔
آدمی نمبر ۶: کیوں بے ! لڑکی کو چھیڑ رہا ہے ۔ ۔ ۔ ؟
آدمی نمبر ۵: نہیں نہیں اس سے راکھی بندھوانے پیچھے پیچھے جا رہا تھا (سب ہنستے ہیں ) کیوں تیری بہن لگتی ہے کیا؟
آدمی نمبر ۶: ابے ایک تو لڑکی کو چھیڑتا ہے اوپر سے ہیرو بن رہا ہے ۔
آدمی نمبر ۵: تیرے میں دم ہے تو تو بھی بن نا ہیرو ۔ ۔ ۔ خالی پھوکٹ ٹانگ اڑا رہا ہے۔
آدمی نمبر ۶: بتاؤں کیا ۔ ۔ ۔ ؟
آدمی نمبر ۵: ارے چل ہٹ ۔ ۔ ۔ تو کیا بتائے گا ۔ ۔ ۔ تو کیا اکھاڑ لے گا ؟
آدمی نمبر ۶: ابے تیری تو ۔ ۔ ۔ میں تیری واٹ لگا دوں گا ۔ ۔ ۔ کھاٹ کھڑی کر دوں گا۔ ۔ ۔
(ایک دوسرے میں گتھم گتھا ۔ ۔ ۔ مارا ماری سب چلاتے ہیں ۔
پولس سائرن کی آواز پر سب بھاگتے ہیں )
سوتر دھار : دیکھا آپ نے ۔ ۔ ۔ آج ہر آدمی کس طرح زبان پر زہر اور ہاتھوں میں ننگی تلوار لیے گھوم رہا ہے اور انتظار کر رہا ہے کہ کب کس جگہ اپنے دل کی بھڑاس نکالے ۔ ۔ ۔ یہ وہ جلیانوالہ باغ ہے جو آپ کے آس پاس جل رہا ہے آج بھی لاٹھی چارج ہوتے ہیں ، گولیاں چلائی جاتی ہیں ، سپاریاں دی جاتی ہیں ، جھوٹے انکاؤنٹر میں غنڈوں کے ساتھ معصوم بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں ۔ کتنی خطرناک صورتحال ہے کہ غنڈوں کی گولی اور پولس کے ڈنڈوں کے بیچ میں ہے عام شہری کا ماتھا! لیکن نئے دور کے ان جنرل ڈائروں کا کچھ بھی تو نہیں بگڑتا ۔ ۔ ۔ بے قابو غنڈہ راج ۔ ۔ ۔ بے قابو پولس راج اور اقتدار پر جمے رہنے کے لیے بے شرمی اور ڈھٹائی ۔ ۔ ۔ انہیں میں سے تو ہوتا ہے جنرل ڈائروں کا جنم ! ارے کون کون سا جلیانوالہ باغ دیکھیں گے آپ ؟ یہاں تو بچے کو ماں کی کوکھ سے نکلتے ہی اس جلیانوالہ باغ میں ڈھکیل دیا جاتا ہے جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی دروازہ نہیں ۔ ۔ ۔ کوئی دروازہ نہیں ۔ ۔ ۔
سب : دھُم دھُم تانا نانا دھُم دھُم تانا ۔ ۔ ۔ دھُم دھُم تانا نانا دھُم دھُم تانا ۔ ۔ ۔
(گاتے ہوئے داخل ہوتے ہیں )
سین نمبر ۵
(پرائمری اسکول کا منظر سارے اداکار چھوٹے بچے بنے ہوئے ہیں
ٹیچر پڑھا رہی ہے )
لڑکی : چلو بچوں ! دیش بھکتی گیت شروع کرو ۔ ۔ ۔ (گاتی ہے )
گھوٹالوں کی ڈگر پہ ، بچوں دِکھاؤ چل کے
یہ دیش ہے ہمارا کھا جاؤ اس کو تل کے
(بچے دہراتے ہیں )
لڑکی : گھپلے کریں گے ہم بھی ، دے اتنی ہم کو شکتی (بچے دہراتے ہیں )
لوٹیں گے دیش کو ہم بھرتی رہے تجوری (بچے دہراتے ہیں )
اس دیش میں ہمیشہ ہوتے رہیں ’’تہلکے ‘‘
بچے : گھوٹالوں کی ڈگر پہ بچوں دکھاؤ چل کے
یہ دیش ہے ہمارا کھا جاؤ اس کو تل کے (ٹیچر بار بار گھڑی دیکھتی ہے )
لڑکی : شاباش بچو ! بیٹھ جاؤ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۷: (بچہ بن کر چھوٹی انگلی دکھا کر )ٹیچل ٹیچل میلے کو شو شو آئی ہے ۔ ۔ ۔ زور سے ۔ ۔ ۔
لڑکی : تو جاؤ نا ۔ ۔ ۔ (بچہ خوشی خوشی سب کر چڑاتے ہوئے جاتا ہے (
ٹیچر : (بے چینی سے گھڑی دیکھتے ہوئے ) کیوں بچوں تم لوگوں کو شو شو نہیں آئی ؟
بچے : (ایک ساتھ چلا کر ) آئی ہے ٹیچل ۔ ۔ ۔ آئی ہے ٹیچل
ٹیچر : تو جلدی جاؤ۔ ۔ ۔
(سب بچے خوشی خوشی شور مچاتے ہوئے جاتے ہیں ۔ ایک بچہ بیٹھا رہ جاتا ہے )
ٹیچر : ارے فرنانڈیز ! تم نے ٹیوشن کی فیس لائی یا نہیں ؟
لڑکا : ٹیچل ! ڈیڈی بولے پہلے پاس کرا دو ۔ ۔ ۔ سب فیس ایک ساتھ دیں گے ۔
ٹیچر : (غصہ سے ) ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ لیکن تم کو شو شو نہیں آئی ۔ ۔ ۔ ؟
لڑکا : نہیں ٹیچل ! میلے کو نا پڑھنے کا ہے ۔ میلے کو شو شو نہیں آئی ۔ ۔ ۔
ٹیچر : لیکن مجھے آئی ہے !
(غصہ سے پیر پٹختے ہوئے وِنگ میں چلی جاتی ہے تب ہی۔ ۔ ۔ )
آدمی نمبر ۰۱:(ڈنڈا پٹک کر ) سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے
(کہتے ہوئے ایک ونگ سے نکل کر دوسری ونگ میں چلا جاتا ہے )
سب : دھُم دھُم تانا نانا دھُم دھُم تانا ۔ ۔ ۔ دھُم دھُم تانا نانا دھُم دھُم تانا ۔ ۔ ۔
(گاتے ہوئے سب آتے ہیں اور چھوٹے بچے بن کر کھیل رہے ہیں ۔)
لڑکا نمبر ۱: یہاں تے چاقو مالوں گا ۔ ۔ ۔
سب : نہیں جانے دیں گے
لڑکا نمبر ۱: یہاں تے چاپڑ چلاؤں گا ۔ ۔ ۔
سب : نہیں جانے دیں گے
لڑکا نمبر ۱: یہاں تے بم پھینکوں گا ۔ ۔ ۔
سب : نہیں جانے دیں گے
لڑکا نمبر ۱: یہاں تے رائفل چلاؤں گا ۔ ۔ ۔
سب : نہیں جانے دیں گے
لڑکا نمبر ۱: یہاں تے تلوار مالوں گا ۔ ۔ ۔
سب : نہیں جانے دیں گے
کورس : اے اے مالو مالو ۔ ۔ ۔ چیٹنگ کرتا ہے ۔ ۔ ۔ مالو
(بچوں کا جھگڑا بڑوں کے جھگڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے )
سین نمبر ۶
آدمی نمبر ۴: کیوں بے ؟ پاکٹ مارتا ہے ؟ چرس اور گرد بیچتا ہے؟ لڑکیاں سپلائی کرتا ہے؟ اور وہ بھی میرے ایریے میں ۔ ۔ ۔ ؟
آدمی نمبر ۵: اے ! میں برابر ہفتہ دیتا ہوں سمجھا ۔ ۔ ۔ اور یہ ایریا تیرے باپ کا ہے کیا ؟
آدمی نمبر۴: ابے ڈھکن ! یہ ایریا تیرے باپ کی پیدائش سے بھی پہلے میرے باپ کا تھا ۔ سمجھا!
آدمی نمبر ۵: کیا بولا ۔ ۔ ۔ مارو سالے کو
(آدمی نمبر ۴ جیب سے چاقو نکال کر آدمی نمبر ۵ کے پیٹ میں
گھونپ دیتا ہے سب چیخ کر وِنگ میں بھاگ جاتے ہیں آدمی نمبر ۵ کی
لاش اسٹیج پر پڑی ہے )
آدمی نمبر ۶: (ایک ونگ سے داخل ہو کر) ہر ہر مہادیو ۔ ۔ ۔ ہر ہر مہادیو
آدمی نمبر ۷: (سامنے کی ونگ سے داخل ہو کر )اللہ اکبر ۔ ۔ ۔ اللہ اکبر
آدمی نمبر ۸: (لاش کا پیر اٹھا کر ) ہر ہر مہادیو ۔ ۔ ۔ ہر ہر مہادیو
آدمی نمبر ۹: (لاش کا دوسرا پیر اٹھا کر ) اللہ اکبر ۔ ۔ ۔ اللہ اکبر
(نعرے لگاتے ہوئے لاش کے ہاتھ پیر اپنی اپنی طرف گھسیٹتے ہیں ۔
تیزی آتی جاتی ہے اور اچانک کتے بن کر پہلے لاش پر اور پھر
ایک دوسرے پر بھونکنے لگتے ہیں اور تب ہی ۔ ۔ ۔ )
آدمی نمبر ۰۱:(ڈنڈا پٹک کر ) سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے
(کہتے ہوئے ایک ونگ سے نکل کر دوسری ونگ میں چلا جاتا ہے )
سوتر دھار : جلیانوالہ باغ کتنی شکلوں میں رہ رہ کر ہمارے سامنے آتا ہے اور ہم سب خاموش تماشائی کی طرح دیکھتے رہ جاتے ہیں ، سہتے رہتے ہیں ، کچھ نہیں کرتے ، کوئی احتجاج، کوئی جدوجہد ۔ ۔ ۔ کچھ بھی تو نہیں !!
میدھا پاٹکر کا آندولن ہو یا صفدر ہاشمی کا قتل ! گدر پر قاتلانہ حملہ ہو یا پترکاروں پر جان لیوا حملے ، اونچی ذات والوں کے ذریعے بھنوری دیوی کا اجتماعی بلاتکار ہو یا بھگوا رنگ میں ڈوبے فنکاروں کا ستکار ! مقدس کتابوں کو سرِ عام جلانے کی سیاست ہو یا مورتیوں کو توڑنے کی اجازت ! یہ سب جنرل ڈائرانہ طور طریقے ہی تو ہیں ۔ آج ہمارے ملک کے شہریوں کا استحصال کرنے کے لیے انہیں ڈر اور خوف کے ماحول میں رکھا جا رہا ہے اور اس کام کے لیے سیاستداں سپاہیوں کا استعمال کر رہے ہیں ، اپنے اقتدار کا ناجائز اور بے ڈھنگا استعمال !
یہی تو ہے جنرل ڈائرانہ فطرت اور مزاج ! بس ! آج فرق اتنا رہ گیا ہے کہ گورا ڈائر گیا ور کالا آگیا ۔ ۔ ۔
سین نمبر ۷
(دونوں طرف چار چار اداکار آمنے سامنے کھڑے ہیں اور کبڈّی کھیلنے کی تیاری کر رہے ہیں ایک ادکار آ کر درمیان میں ایک فرضی لائن کھینچ کر پالا بناتا ہے ، اور ایک اداکار درمیان میں سیٹی بجاتے ہوئے
ریفری کے فرائض انجام دیتا ہے)
آدمی نمبر ۱: (مخالف پالے میں جا کر ) پچھلے ۰۳ برسوں سے تم ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہو کہ دیش بھکتی صرف تمھاری فرقہ پرست پارٹی سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہوتی ہے ۔ دیش پریم کے گیت صرف تمہیں ہی آتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہو تو تو تو تو ۔۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۲: ارے جاؤ جاؤ ۔ ۔ ۔ )کبڈی کھیلتے ہوئے ( تمھاری پارٹی کیا کرا رہی ہے؟ ایماندار بنے رہنے کا ڈھول پیٹ ا رہی ہے ۔ کسی گدھ کی طرح دیش کو نوچ کھسوٹ رہے ہو تم ۔ ۔ ۔ ہو تو تو تو تو ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۳: (کبڈی کھیلتے ہوئے )اچھا !ہم گِدھ! اور تم نے جونک دیکھی ہے جونک ؟ وہ چپک جائے تو اس پر نمک چھڑک کر شریر سے الگ کرنا پڑتا ہے ۔ تم لوگ تو اس دیش کے شریر سے ایسے چپکے ہو کہ سارا خون ہی چوس کر چھوڑ و گے ۔ ۔ ۔ ہو توتوتوتو۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۴: ارے تم نے بھی تو اتنے سال راج چلایا ۔ کیا کیا؟ دیش کو کھوکھلا ککر کے رکھ دیا ۔ اتنا بڑا کھڈا کر دیا کہ بھرتے بھرتے ہماری ناک میں دم آگیا ۔ ۔ ۔ ہو توتوتوتو۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۵: اور تمہاری پارٹی میں سے ایک صاف ستھرا شریف نیتا ڈھونڈنا ایسا ہے جیسے کچرے کے ڈھیر میں پن تلاش کرنا ۔ کل تک تمھارے منتری دیش کے لیے ۰۰۵ کا نوٹ تھے اور آج ان کے لیے دلی کی کرسی ایک ہزار کا لال کیسر یا کرارا نوٹ ہو گئی ہے ۔ ۔ ۔ ہو توتوتوتوتو۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۶: اور تمھارے نیتاؤں کا کیا حال ہے ؟ ودیشی ہو کر دیش پر راج کرنے اور راج گدی پر بیٹھنے کا سپنا دیکھ رہے ہیں ۔ کرپشن کے نام پر اُصولوں اور ایمانداری کی باتیں وہ کر رہے ہیں جن کے بغل میں بیٹھے لوگ بے ایمانی او ر رشوت خوری کی علامت بن چکے ہیں ۔ ۔ ۔ ہو توتوتوتو ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۷: پتہ نہیں تمھارے ایماندار ، کنوارے سنیاسی ، کوی ، برہمچاری تیاگی اور نہ جانے کیا کیا سمجھے جانے والے انسان کی مت کیوں ماری گئی؟ چالیس چوروں کے علی بابا بن کر بیٹھے ہیں اور کرسی چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ہوتوتوتوتو۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۸: اور تم کیا اس بات کا انتظار کر رہے ہو کہ ہم کرسی چھوڑیں تو تم جھپٹ لو ۔ ۔ ۔ تم لاکھ گنگا میں ڈبکیاں لگا لو لیکن ہم ایک بار پھر گوروں کو کرسی پر جمنے نہیں دیں گے ۔ ۔ ۔ ہو توتوتوتوتو۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۱: ارے او کالے ! کھوٹی نیت والے ارے تم نے تو اس دیش کی نیا ہی ڈبو دی رے دیش کا جہاز بھرشٹاچار، گھپلوں اور کرپشن کے دلدل میں دھنس رہا ہے ۔ ۔ ۔ ہو توتوتو
آدمی نمبر ۲: اچھا! یہ خبر کہاں BBC پر سنی کیا ؟ جہاز دھنس رہا ہے تو تم لوگ نکالتے کیوں نہیں ؟ ۔ ۔ ۔ ہوتوتوتوتو۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۳: جب تم پوری طرح دھنسا دو گے تب ہم نکالیں گے ۔ ۔ ۔ ہماری مرضی ۔ ۔ ۔ ہوتوتوتوتو۔ ۔ ۔
(اچانک پلیٹ فارم کے پیچھے سے گاندھی جی نمودار ہوتے ہیں ۔ ریفری سیٹی بجا کر سب کو روکتا ہے ۔ سب ان کو دیکھتے ہیں اور ’’باپو‘‘ کہہ کر پیروں پر گر جاتے ہیں ۔)
باپو : ارے بچو! یہ قصائیوں کی طرح کیوں لڑ رہے ہو ؟
آدمی نمبر ۴: باپو ! ہم قصائی نہیں ، ہم تو انقلابی ہیں ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۵: ہاں باپو اور یہ ہماری بہادری ہے کہ ہم لڑ رہے ہیں ۔
باپو : قصائی انقلابی نہیں ہوتا بیٹا ! وہ تو بے رحم ہوتا ہے ۔ بہادری اور بے رحمی دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔
(آدمی نمبر ۴ اور آدمی نمبر ۵ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں جیسے کچھ سمجھ میں نہ آیا ہو )
آدمی نمبر ۳: تمھاری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں باپو! جانے دو ۔ ۔ ۔ یہ بتاؤ تم نے کبھی ویلنٹائن ڈے منایا تھا ؟
باپو : یہ کیا ہے بیٹا ؟ میں تو صرف انڈیپنڈینس ڈے اور ری پبلک ڈے مناتا تھا ۔
آدمی نمبر ۷: اچھا باپو ! آپ کی نظر میں دیش کی سب سے خوبصورت عورت کون سی تھی ؟
باپو : سروجنی نائیڈو ! وہ بہت مہان استری تھیں ، بہت سندر!
آدمی نمبر ۸: اچھا! انہوں نے کون سے سال میں بیوٹی کانٹسٹ میں حصہ لیا تھا ؟
(باپو کھانستے ہیں ۔ ۔ ۔ سب ہنستے ہیں )
باپو : (اُداس ہو کر) بچوں ! تم نے اس دیش کا کیا حال بنا دیا ہے ؟ میں نے اسے کہاں چھوڑا تھا اور تم کہاں لے آئے ؟ تب سے اب تک اس دیش میں کوئی ترقی نہیں ہوئی؟ کوئی اُنّتی نہیں ہوئی ؟
آدمی نمبر ۱: کیا باپو۔ ۔ ۔ آپ بھی ! بہت ترقی ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ بہت ترقی۔ ۔ ۔
باپو : (حیرت سے ) کہاں ؟ مجھے تو نظر نہیں آتی ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۱: دیکھئے میں بتاتا ہوں ۔ ۔ ۔ اب تینوں گاندھی کو ہی لے لیجئے میرا مطلب ہے پہلے آپ ! آپ کو صرف ایک گولی سے مارا گیا تھا ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر۲: وہ بھی چھوٹے ریوالور سے ۔ ۔ ۔
باپو : ہاں تو ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۱: دوسری گاندھی یعنی اندرا گاندھی پر اسٹین گن سے گولیوں کی بوچھار کر دی گئی تھی۔
آدمی نمبر ۲: گولیاں سستی مل گئی تھیں ۔
آدمی نمبر ۱: اب تیسرے گاندھی ! یعنی راجیو گاندھی کو تو بم سے ہی اُڑا دیا گیا ۔ ۔ ۔
بولو ہوئی نا ترقی۔ ۔ ۔ ؟
(باپو ہے رام کہہ کر گر جاتے ہیں اور تب ہی ۔ ۔ ۔ )
آدمی نمبر ۰۱:(ڈنڈا پٹک کر ) سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے
(کہتے ہوئے ایک ونگ سے نکل کر دوسری ونگ میں چلا جاتا ہے )
سین ۸
(چار پانچ نیتا گاندھی ٹوپی پہنے ’’ساؤدھان ‘‘ کی پوزیشن میں
کھڑے رہ کر گیت گا رہے ہیں ۔ ’’ہم اس دیش کے واسی ہیں
جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘‘ کی طرز پر)
گیت : چارے کو بھی نہ چھوڑا ہم نے ۔ ۔ ۔ کیا تابوتوں کا گھپلا ہم نے
شیئروں کے گھوٹالے کر ڈالے ۔ ۔ ۔ اور فوج کو بھی لوٹا ہم نے
شہیدوں کا کفن بیچا ہم نے
آنکھوں میں ڈھٹائی کو بھر کے ۔ ۔ ۔ چہروں کی کالک کو دھونے
ہم اس حمام میں جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہم اس حمام میں جاتے ہیں
جس میں سب ننگے نہاتے ہیں ۔ ۔ ۔ جس میں سب ننگے نہاتے ہیں ۔ ۔ ۔ جس میں ۔ ۔ ۔
(پولس سائرن کی آواز انسپکٹر اور حوالدار داخل ہوتے ہیں )
انسپکٹر : (آدمی نمبر ۱ سے ) سر! آپ کو چارہ گھوٹالے کے لیے گرفتار کیا جاتا ہے
(آدمی نمبر ۲ سے) سر! آپ کو شیئر Scamمیں گرفتار کیا جاتا ہے
(آدمی نمبر ۳سے) سر ! آپ کو بوفورس میں دلالی لینے پر گرفتار کیا جاتا ہے
(آدمی نمبر ۴ سے ( میڈم آپ کو پارٹی کے ایم ایل اے فنڈ سے چندہ وصولی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے
حولدار : (دوڑتے ہوئے آتا ہے ) سر! بس کیجئے ! پولس جیپ بھر گئی ہے ،
ایک لیڈر : ہمیں راشٹر کے نام سندیش دینے کی اجازت دی جائے ۔ ہم بتائیں گے کہ یہ گھپلے میرا مطلب ہے مہان کاریہ ہم نے دیش کی بھلائی کے لیے کیے ہیں ۔
انسپکٹر : ابھی تو فی الحال دور درشن سے ’’بھائی‘‘ کا پیغام نشر ہو رہا ہے سر! راشٹر کے نام ۔ آپ قطار میں ہیں ! انتظار کیجئے ۔
حولدار : سر !آپ ایک کام کریے نا ۔ سیدھے جیل سے ہی راشٹر کے نام سندیش دیجئے ۔
( سب خوش ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ جیپ کے چلنے کا مائم۔ ۔ ۔ چاروں نیتا انگلی سے V( Victory) کا نشان عوام کی طرف ککر کے کہتے ہیں ۔)
’’ہم پھر آئیں گے ۔ ۔ ۔ ہم پھر آئیں گے ۔ ۔ ۔ جیت کر (Freeze)
آدمی نمبر ۰۱:(ڈنڈا پٹک کر ) سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے
(کہتے ہوئے ایک ونگ سے نکل کر دوسری ونگ میں چلا جاتا ہے )
سوتر دھار : دلالی کی دکان چلانے والے ، بھرشٹاچار اور گھوٹالوں میں کمر کمر دھنسے ہوئے غنڈوں اور اپرادھیوں کے حصے دار راشٹر کے نام پیغام نشر کریں گے !دیکھا آپ نے ؟ مجرم بن کر جیل جاتے ہوئے بھی انگلی سے V کا نشان بنا رہے ہیں جیسے انہوں نے دیش کی آزادی کے لیے کوئی جنگ لڑی تھی اور اب شہید ہونے پھانسی کے تختے پر جا رہے ہیں ۔ بے حیائی ، بے غیرتی اور بے شرمی کا اس سے بڑا ثبوت آپ کو دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملے گا۔ پسنجر ٹرین میں ملنے والی گندی چائے کے جیسی سیاست جو گرم پانی کے نام پر پروسی جا رہی ہے اور ہم سب گھونٹ گھونٹ اسے پی رہے ہیں ۔ ۔ ۔
ارے کیا ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں ؟ کیا پورے دیش کا اجتماعی ضمیر مفلوج ہو چکا ہے ؟
۶۵ برسوں بعد بھی سیاسی جبرو تشدد ختم نہیں ہو رہا ہے ۔ آج بھی تین MPs ہمارے ملک پر راج کر رہے ہیں ۔ جی ہاں ! تین MPs !
منی پاور ۔ ۔ ۔ مسل پاور ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ مافیا پاور ! ۔ ۔ ۔ یہ دیکھئے ۔ ۔ ۔
سین ۹
(اسٹیج کے دائیں طرف ایک غنڈہ کرسی پر پیر پھیلائے بیٹھا ہے اور اس کے چیلے آس پاس کھڑے اُس کے ہاتھ پیر دبا رہے ہیں )
باس : سنو بے ! بہت مفت کی روٹیاں توڑ توڑ کر بھینسے ہو گئے، چلو سیزن آگیا ہے کل سے کام دھندے پر لگ جاؤ ۔ ۔ ۔ کل سے شہر میں دنگے فساد لوٹ مار شروع کر دو۔
آدمی نمبر ۲: باس! ابھی تو گجرات سے آئے اپن لوگ ۔ ۔ ۔
باس : ابے چونی کے !بیت گئی رات بھول جا گجرات۔ ابھی یہ نئے اسٹیٹ کا آرڈر اپن کو اوپر سے ملا ہے وہ اپن لوگوں کو یہ ریٹ دے رہے ہیں ۔ ۔ ۔ لے بے پڑھ کے سنا ۔
(باس جیب سے ایک ڈائری نکال کر دیتا ہے)
آدمی نمبر ۳: (جلدی جلدی پڑھتا ہے ) عارف محمد خان ۶ کروڑ ۴۵ لاکھ ، اڈوانی ۵۲ لاکھ یشونت سنہا ۲۲ لاکھ ، ارجن سنگھ ساڑھے دس لاکھ، نرسمہا راؤ ساڑھے تین کروڑ
سب : باس یہ کیا ہے ؟
باس : (ہنس کر ) ارے سالا ! غلطی سے جین کی ڈائری دے دیا ۔ ۔ ۔ ادھر لا بے ۔ یہ لے پڑھ (دوسری ڈائری دیتا ہے )
آدمی نمبر ۳: (پڑھتا ہے ) ۰۰۱ سکھوں کو ہندوؤں سے لڑانے کا ۔ ۔ ۔ ایک بڑا سوٹ کیس
۰۰۲ ہندوؤں کو مسلمانوں سے لڑانے کا ۔ ۔ ۔ ایک میڈیم سوٹ کیس
مسجدوں اور مندروں پر قبضہ کرنے کا ۔ ۔ ۔ دو بڑے سوٹ کیس
۰۵ ہندو مارنے کا ۔ ۔ ۔ ایک کھوکھا
۰۵ مسلمان مارنے کا ۔ ۔ ۔ ایک کھوکھا
۰۵ سکھ مارنے کا ۔ ۔ ۔ ایک کھوکھا
آدمی نمبر ۴: باس ! یہ ریٹ تو بہت کم ہے ۔
آدمی نمبر ۵: ہاں باس اور اس میں سے آدھا مال تو وہ لوگ لے جائیں گے ۔ ۔ ۔ وہ جن کے پاس دنگے کرانے کا Permanent لائسنس ہے اور بندوق اور وردی بھی ۔
باس : (اطمینان سے ) تم لوگ اُن کی فکر مت کرو۔ وہ سب اپنے آدمی ہیں ، یہ ریٹ بروبر ہے۔ ۔ ۔ نئے بجٹ کے حساب سے ہے۔ تو آگے پڑھ بے ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۳: تین ہندو لڑکی اُٹھانے کا ۔ ۔ ۔ اگر کنواری ہے تو ۔ ۔ ۔ ۵ لال گاندھی
تین مسلمان لڑکی اُٹھانے کا ۔ ۔ ۔ اگر نابالغ ہے تو ۔ ۔ ۔ ۵ لال گاندھی
پانچ ہریجن عورتوں کا ۔ ۔ ۔
باس : وہ جانے دے ۔ ۔ ۔ چھ پر ایک فری دیں گے اپن !
(سب زور زور سے چلاتے ہیں ۔ ۔ ۔ باتیں کرتے ہیں )
باس : (غصے سے) چپ رہو بے سالو! بھول گئے پچھلی بار ممبئی کے دنگوں میں کیا ملا تھا ؟ باوا جی کا گھنٹہ! ۔ ۔ ۔ ابے گدھو ! ابھی تو پھر بھی اچھا بھاؤ مل رہا ہے ۰۔
آدمی نمبر۴: لیکن باس! وہ خود تو کروڑوں لے رہے ہیں اور اپن کو ۔ ۔ ۔ مہنگائی بھی کتنی ہے
باس : (ڈانٹ کر) چپ بے ! مہنگائی سے تیرے کو کیا ؟ تو تو عیش کر رہا ہے نا ۔ ۔ ۔ اور پھر ابھی دھندے کا ٹائم ہے ۔ ۔ ۔ نئی نئی سرکاریں بنیں گی ۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچے گے ۔ ۔ ۔ ایک دوسرے پر تھوکیں گے ، کیچڑ اڑائیں گے ۔ ۔ ۔ اس کے لیے اپن لوگ کی ضرورت تو پڑے گی چ! اور اب اپن کا دھندہ کتنا دور دور تک پھیل گیا ہے ۔ ۔ ۔ اکھے ہندوستان سے اپن کو بلایا جا رہا ہے کہ بھائی لوگ آؤ۔ ۔ ۔ اور آ کر ہمارے اِدھر بھی دنگا دنگا کھیلو ۔ ۔ ۔ اور منہ مانگے پیسے لے لو۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۵: (ڈرتے ڈرتے ) لیکن باس ! ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ پولس ۔ ۔ ۔
باس : پولس؟؟ (زور زور سے ہنستا ہے ۔ ساتھ میں سب ہنستے ہیں ) ابے پولس، P.A.C. سب اپنی جیسی ہے ، کوئی آسمان سے تھوڑی اُتری ہے ۔ سالا منسٹر کا لڑکا ہوکے گھبراتا ہے ۔ چلو کام شروع کرو اپن کو کامیابی ملنی چاہیے سمجھے ۔ ۔ ۔
(سب گاتے ہوئے ونگ میں جاتے ہیں ۔
’’ہم ہوں گے کامیاب ۔ ۔ ۔ ہم ہوں گے کامیاب ایک دن ۔ ۔ ۔ ‘‘)
سین ۱۰
(ایک آدمی سر پر سفید ٹوپی لگا کر گانا شروع کرتا ہے
اور باقی لوگ بھی سفید ٹوپی پہن کر اور ہاتھ میں سوٹ کیس لے کر
گاتے اور ناچتے ہوئے داخل ہوتے ہیں )
آدمی نمبر ۶: تیری اونچی شان مولا ۔ ۔ ۔ میری عرضی مان لے مولا
مجھ کو بھی تو Lift کرا دے ۔ ۔ ۔ مجھ کو منسٹر بنا دے
پرائم نہیں تو Defence بنا دے ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۷: کیسے کیسوں کو دیا ہے ۔ ۔ ۔ دھمکی سے ڈر کر دیا ہے
چانس گھپلے کا دلا دے ۔ ۔ ۔ میرا بھی سوٹ کیس بھرا دے
پارٹی کو فنڈ دلواؤں گا ۔ ۔ ۔ کام ایسا کر جاؤں گا ۔ ۔ ۔
مجھ کو بھی تو لفٹ کرا دے ۔ ۔ ۔
(ایک تیز سیٹی کی آواز آتی ہے ۔ بازار لگا ہے ، لوگ ٹوپی لگائے ہوئے نیتاؤں کو لے کر گھوم رہے ہیں اور ’’بولو بھائی ۔ ۔ ۔ بولو بھائی ۔ ۔ ۔ سستا ایم پی ۔ ۔ ۔ سستا ایم ایل اے ۔ ۔ ۔ ‘‘ کی آوازیں ملی جلی ۔ ۔ ۔ ایک شخص سیٹی بجا کر سب کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے)
آدمی نمبر ۷: چلو بھائی چلو۔ ۔ ۔ بازار لگا ہے ۔ بولی لگاؤ ۔ نیلامی ہے بھائی نیلامی ۔
دیش کے اچھے اچھے ہٹے کٹے ، موٹے تازے ایم پی اور ایم ایل اے کی نیلامی ہوا رہی ہے ۔ بولی لگاؤ بھائی صاحب ۔ ۔ ۔ بولی لگاؤ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۸: یہ دیکھو ۔ یہ ایم پی ۔ ۔ ۔ ہٹا کٹا ۔ ایک دم موٹی کھال والا ۔ بہت وفادار ۔ ۔ ۔ بھروسے مند ! منسٹری میں لینے کی ضد نہیں کرے گا ۔ جو دیں گے سر جھکا کر لے گا۔ پارٹی کے لیے بے حساب چندہ ، ڈونیشن پارٹی فنڈ جمع کرے گا ۔ چاہے کتنا بھی تہلکہ مچ جائے ۔ ۔ ۔ پارٹی نہیں بدلے گا ۔ ۔ ۔ بالکل بیل ہے بیل ۔ فل گیارنٹی ہے ۔ ۔ ۔ بولو صاحب! اس ایم پی کے ساتھ ایک میونسپل کونسلر فری ۔
آدمی نمبر ۸: 50 لاکھ
آدمی نمبر ۷: بھائی صاحب ! ابھی اپنا دیش اتنا غریب نہیں ہوا ۔ 50 لاکھ میں نگر سیوک بھی نہیں ملتا ہے یار۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۹: ایک کروڑ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۷: ایک کروڑ ایک دو تین ۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے صاحب یہ ایم پی آپ کا ہوا اور ساتھ میں یہ میونسپل کونسلر بھی ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۲: اور اب یہ میڈم ۔ ۔ ۔ ! (لڑکی کو سامنے لاتا ہے ، لڑکی نمستے کرتی ہے) میڈم بہت گرم ہیں ۔ ۔ ۔ مطلب جس پارٹی کی سرکار گرانی ہو یا اٹھانی ہو اس میں ایکسپرٹ ہیں ، Very Talented ، اپنی من پسند منسٹری لینے کے لیے دھمکی دے کر وصول ککر سکتی ہیں ۔ دھمکیاں دینے میں بہت تجربے کار ۔ لیکن بہت پیار ممتا اور مایا سے دیتی ہے ۔ ساری پارٹی والے ڈرتے ہیں ۔ بولو صاحب بولو۔ ۔ ۔ چھپر پھاڑ کے بولو ۔ ۔ ۔ میڈم کے ساتھ پانچ چھ ایم پی بھی آپ کی پارٹی میں آ سکتے ہیں اور سرکار بنانے میں مدد ککر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ بولی لگاؤ صاحب۔
آدمی نمبر ۱: تین کروڑ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۷: بس؟ یہ کوئی گائے کا چارہ نہیں ۔ ۔ ۔ فائر برانڈ ایم پی ہیں ۔
آدمی نمبر ۱: ٹھیک ہے ۵ کروڑ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۷: ۵ کروڑ ایک دو تین ۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے صاحب ! ہمارے یہ روپئے سوئس بینک میں جمع کرا دیجئے اور یہ آپ کی ہوئیں ۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے MP
آدمی نمبر ۰۱: (ڈنڈا پٹک کر ) سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے
(کہتے ہوئے ایک ونگ سے نکل کر دوسری ونگ میں چلا جاتا ہے )
سین ۱۱
(سارے نیتا آمنے سامنے آ کر ایک دوسرے کے لیے نعرے لگاتے ہیں )
اپوزیشن گروپ: ارے گلی گلی میں شور ہے۔ ۔ ۔ ان کا منتری چور ہے
حکمراں پارٹی: سارے سدن کا ایک سوال ۔ ۔ ۔ کہاں گیا بوفورس کا مال؟
اپوزیشن گروپ: رشوت کے بیان پر ۔ ۔ ۔ جھانکو اپنے گریبان پر
حکمراں پارٹی: پرانے چورو پرانے چورو۔ ۔ ۔ سازش کی یہ عادت چھوڑو
میاں چور بیوی چور ۔ ۔ ۔ کالا چور ، گوری چور
اپوزیشن گروپ: دیش دروہی پارٹی تمہاری۔ ۔ ۔ گھر جانے کی کرو تیاری
حکمراں پارٹی: جوتے مارو سالوں کو ۔ ۔ ۔ ستّہ کے دلالوں کو
گنگا میں لگانے سے ڈبکی ۔ ۔ ۔ پاپ نہیں دھُلتے سمجھی؟؟
(ایک لڑکی مائیک ہاتھ میں لے کر پیش منظر میں آ کر کہتی ہے)
لڑکی : اور اس کے بعد دیکھئے WWF کی فری اسٹائل کشتیوں کا لائیو ٹیلی کاسٹ سیدھے لوک سبھا سے ۔
(اچانک دونوں گروپ میں ہاتھا پائی شروع ہوتی ہے۔ ۔ ۔ شور و غل ۔ گاندھی ٹوپیاں اُڑائی جاتی ہیں ۔ ایک دوسرے کو اٹھا کر پٹکتے ہیں اور
Un Parliamentary نعرے لگاتے ہیں ۔ تبھی ۔ ۔ ۔
سیٹی بجا کر ایک بوڑھا نیتا سب کو بلاتا ہے )
بوڑھا نیتا : یہ کیا کر رہے ہیں آپ لوگ؟ یہ ٹھیک نہیں ہے ۔
آدمی نمبر ۱: آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے رِکشا منتری بنا دیں گے ۔
بوڑھا نیتا : رِکشا منتری نہیں رَکھشا منتری ۔ تم جب ٹھیک طرح سے بول نہیں سکتے ہو تو دیش کی رکھشا کیسے کرو گے ؟
لڑکی : آپ نے مجھ سے بھی وعدہ کیا تھا ۔ میں ریلوے سے کم کوئی منسٹری نہیں لوں گی ورنہ میں چلی اپنے لوگوں کو لے کر ۔
بوڑھا نیتا : میڈم میڈم ۔ ۔ ۔ تھوڑا دھیرج رکھئے ۔ دیش پٹری سے اُترتا جا رہا ہے اور آپ ریلوے منسٹری مانگ ا رہی ہیں ۔
(سب زور زور سے چلانے لگتے ہیں بوڑھا نیتا پریشان ہو جاتا ہے ۔
تالی بجا کر ایک آدمی سے کہتا ہے ’’ٹھیک ہے بھئی منسٹری لاؤ۔
ایک آدمی بڑے تھال میں چھے بڑی چُسنیاں لاتا ہے ۔
بوڑھا نیتا چُسنیاں لے کر ایک کے گلے میں ڈال کر)
بوڑھا نیتا : یہ ا رہی تمہاری منسٹری !
آدمی نمبر ۱: لیکن آپ نے تو مجھے ایجوکیشن دینے کا وعدہ کیا تھا ۔
بوڑھا نیتا : تمہاری اپنی ایجوکیشن کتنی ہے بھائی؟ چھٹی کلاس پاس ہو۔
(دوسرے کو ) یہ رہا تمہارا منتری پد
آدمی نمبر ۲: لیکن آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ مجھے انفارمیشن اور براڈکاسٹنگ دیں گے ۔
بوڑھا نیتا : مجھے معلوم ہے ۔ تمہیں ہندی فلموں کے ہیرو ہیروئن کے ساتھ فوٹو کھنچوانے کا بہت شوق ہے ۔ ۔ ۔ لیکن اس کے لیے اپنی شکل بھی تو اچھی ہونی چاہیے ۔
(تیسرے کے گلے میں چُسنی ڈالنے جاتا ہے )
آدمی نمبر ۳: یہ ’’کھاؤ وبھاگ‘‘ ہی ہے نا؟
بوڑھا نیتا : ہاں یہ ’’کھاؤ وبھاگ‘‘ ہے۔ ۔ ۔ جتنا جی چاہے کھاؤ ۔ ۔ ۔ چارہ کھاؤ ۔ ۔ ۔ ربڑی کھاؤ ۔ ۔ ۔ یوریا کھاؤ ۔ ۔ ۔ بس اتنا دھیان رکھنا کہیں کوئی کیمرہ چھپ کر فلم نہ بنا رہا ہو ۔ ۔ ۔
(چوتھے کے گلے میں چُسنی ڈالتا ہے ) یہ رہا تمہارا منتری پد
آدمی نمبر۴: لیکن میں نے آپ سے کہا کہ مجھے ہوم منسٹری چاہیے پھر دیکھئے کہ میں یہ ہوم کیسے سنبھالتا ہوں
بوڑھا نیتا : پر یہ ساتھی! تم سے اپنا خود کا گھر نہیں سنبھل رہا ہے ۔ تم ہوم منسٹری کیسے سنبھالو گے؟ اس لیے اُسے میرے ہی پاس رہنے دو ۔میرا کوئی گھر بار نہیں ۔
(سب ایک ساتھ بچوں کی طرح شور مچاتے ہیں ۔ ہمیں یہ نہیں وہ چاہیے ۔ ہمیں دے دو نا ۔ بوڑھا نیتا ہاتھ باندھ کر آنکھیں بند کیے مسکرا رہا ہے )
بوڑھا نیتا : دیکھئے میرے ساتھیوں خاموش رہیے ۔ ۔ ۔ خاموش
(زور سے چلا کر ’خاموش‘ سب جلدی سے ۔
اپنی اپنی چُسنیاں منہ میں لے لیتے ہیں )
بوڑھا نیتا : دیکھئے اپنے اپنے منتری پد کے ساتھ آپ سب کتنے اچھے لگ رہے ہیں ۔ چلئے شپتھ گرہن کیجئے ۔ ۔ ۔ اور قسم کھائیے۔ ۔ ۔
بوڑھا نیتا : ہم نیتا جی سبھاش چندر بوس کی قسم کھا کر کہتے ہیں
(سب دہراتے ہیں )
بوڑھا نیتا : رشوت ہمارا پیدائشی حق ہے اور ہم ۔ ۔ ۔ اسے لے کے ا رہیں گے
(سب دہراتے ہیں )
بوڑھا نیتا : ہم قسم کھاتے ہیں ۔ ۔ ۔
سب : قسم کھاتے ہیں
بوڑھا نیتا : کہ بے ایمانی کے سارے کام۔ ۔ ۔ ایمانداری سے کریں گے
(سب دہراتے ہیں )
بوڑھا نیتا : ہم قسم کھاتے ہیں ۔ ۔ ۔
سب : قسم کھاتے ہیں
بوڑھا نیتا : کہ دیش کو چاٹ چاٹ کے کھوکھلا کر دیں گے
(سب دہراتے ہیں )
بوڑھا نیتا : ہم قسم کھاتے ہیں ۔ ۔ ۔
سب : قسم کھاتے ہیں
بوڑھا نیتا : کہ دیش کو فرقہ پرستی ، جھوٹ اور بے ایمانی کی آگ میں جھونک دیں گے
(سب دہراتے ہے )
بوڑھا نیتا : ہم قسم کھاتے ہیں ۔ ۔ ۔
سب : قسم کھاتے ہیں
بوڑھا نیتا : چاہے کچھ ہو ہم اس دیش کی جنتا سے سدا یہی کہتے ا رہیں گے ۔
آدمی نمبر ۰۱:(ڈنڈا پٹک کر ) سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے
(کہتے ہوئے ایک ونگ سے نکل کر دوسری ونگ میں چلا جاتا ہے )
سوتر دھار : (اسپاٹ لائٹ میں آ کر)
انہیں کچھ نہ کہیے۔ انہیں کچھ نہ کہیے
یہ بھارت کے سچّے سپوتوں کی ٹولی ۔ ۔ ۔ چلاتے ہیں گاندھی کے سینے پہ گولی
لہو سے غریبوں کی کھیلیں یہ ہولی
کرم اِن کا نفرت، دھرم ان کا رشوت
یہ بھارت کی دھرتی تو ماں ہے اِنہیں کی
سپوت ہیں یہ ایسے کہ ماں بیچتے ہیں
انہیں کچھ نہ کہیے!
یہ دنگوں کے عاشق، فسادوں کی جڑ ہیں
سرِ عام یہ رام کو بیچتے ہیں
انہیں حق ہے شیشے کے ٹکڑوں پہ عورت کو ننگا نچائیں
انہیں حق ہے ، معصوم بچوں پہ خنجر چلائیں
انہیں حق ہے ، بہنوں کی عصمت یہ لوٹیں
انہیں حق ہے لوگوں کو زندہ جلائیں
انہیں کچھ نہ کہیے یہ ہیں سب سے سچے
انہیں کچھ نہ کہیے یہ ہیں سب سے اچھے
یہ جو بھی کریں وہ ہے قانون ان کا ۔ ۔ ۔ یہی تو وفا دار ہیں اس وطن کے
انہیں کچھ نہ کہیے ۔ ۔ ۔ انہیں کچھ نہ کہیے۔ ۔ ۔
(سوتر دھار سر جھکا کر جاتا ہے منظر بدلتا ہے )
سین ۱۲
(پولیو ڈوز پلانے کے لیے قطار لگی ہے ۔ دو اداکار بینر یا پلے کارڈ لے کر کھڑے ہیں جس پر واضح لفظوں میں لکھا ہے ۔ ’’دیش کو پولیو سے مُکت کرئیے ۔ ۔ ۔ اپنے بچوں کو پولیو کا ڈوز پلائیے‘‘ سب لوگ اپنے گود کے یا چھوٹے بچوں کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں اور انہیں پولیو کے بارے میں کہتے رہتے ہیں ۔ پولیو ڈوز پلانے والی لڑکی سب کے منہ میں قطرے ڈالنے کا مائم کرتی ہے۔ تب ہی ایک بوڑھا لکڑی ٹیکتا ہوا داخل ہوتا ہے اور کانپتے پیروں سے قطار میں کھڑا ہو جاتا ہے ۔ لڑکی اسے دیکھ کر ۔ ۔ ۔ )
لڑکی : بابا! یہ پولیو کا ڈوز ہے صرف ۵ سے ۰۱ سال کے عمر کے بچوں کو دیا جاتا ہے ۔ یہ آپ کے لیے نہیں ہے !
بوڑھا : (کپکپاتی آواز میں ) جانتا ہوں بٹیا یہ میرے لیے نہیں ہے ۔ میں تو یہ جاننا چاہتا ہوں کیا تمہارے پاس ایسا کوئی ڈوز ہے جو ہمارے بیمار لنگڑے نیتاؤں کو دیا جا سکے؟ جس سے انہیں کبھی سیاسی پولیو نہ ہو اور نہ ہی ہماری جمہوریت لنگڑی پیدا ہو ۔ ۔ ۔
(پلٹ کر جانے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ پیچھے سے ایک بچی آواز دیتی ہے )
بچی : بابا ۔ ۔ ۔ بابا۔ ۔ ۔ میرا ہاتھ دیکھ کر بتائیے نا میرا بھوشیہ کیسا ہو گا ؟ میرا فیوچر کیا ہے؟
بوڑھا : (بچی کا ہاتھ دیکھ کر گھبرائے ہوئے لہجہ میں )
ارے بٹیا ۔ ۔ ۔ یہ کیا۔ ۔ ۔ ؟ تیرے ہاتھوں میں تو لکیریں ہی نہیں ہیں ۔ لکیریں ہی نہیں ہیں
(سب فریز ہو جاتے ہیں تب ہی )
آدمی نمبر ۰۱: (ڈنڈا پٹک کر ) سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے
(کہتے ہوئے ایک ونگ سے نکل کر دوسری ونگ میں چلا جاتا ہے )
سین ۱۳
(ٹی وی سماچار کی ٹائٹل دھن )Signature Tune ( بجتی ہے اور اسی کے ساتھ اسپاٹ لائٹ میں ایک لڑکی اور لڑکا سماچار سنا رہے ہیں )
نیوز ریڈر لڑکا:نمسکار! کل آج اور کل تک میں آپ سبھی کا سواگت ہے ۔ چار لوگوں نے ایک پولس اسٹیشن کے پیچھے ایک کم عمر لڑکی کے ساتھ بلاتکار کیا بلاتکاری لاپتہ ہیں ۔ لڑکی اب پولس کے قبضہ میں ہے ۔
آدمی : (سامنے آ کر) ہے بھگوان ! لڑکی کو بچا!
نیوز ریڈر لڑکا:راجدھانی ایکسپریس پٹری سے اُتر گئی ۔ ۔ ۔
آدمی : پچھلے ۶۵ برسوں سے اتر رہی ہے !
نیوز ریڈر لڑکا:گارڈ اور ڈرائیور بچ گئے ۔ ۔ ۔ سبھی لوگ رام نام ستیہ ہو گئے ۔ ۔ ۔ اس میں آتنک وادیوں کا ہاتھ تھا یا نہیں ۔ ۔ ۔ ریلوے منسٹر نے ابھی اس کا فیصلہ نہیں کیا ہے
نیوز ریڈر لڑکی:ناسک ، سنبھل ، اور نگ آباد کے بعد کانپور میں بھی دنگوں کی آگ بھڑک اُٹھی ۔ ۔ ۔ کشمیر جل رہا ہے ، ایودھیا دہک رہا ہے ، گجرات سُلگ رہا ہے ۔ پردھان منتری نے اعلان کیا ہے
آدمی : کل شہر میں پانی کم ملے گا ۔
نیوز ریڈر لڑکی:ہندوستان چاند کی کھوج خبر لینے کے لیے چاند پر راکٹ بھیجے گا ۔ ۔ ۔
آدمی : پہلے ویرپن کی تو کھوج لے لیں ۔ ۔ ۔
نیوز ریڈر لڑکی:اس بار بجٹ میں پٹرول اور ڈیزل کے داموں میں کمی کر دی گئی ۔
آدمی : چلو ! فسادیوں کا بھلا ہوا۔
نیوز ریڈر لڑکی:گجرات کے دنگوں میں صرف ۲۷ دنوں میں ۰۰۰۳ مسلمانوں کا قتل عام ہوا ۰۰۶۱ کروڑ روپئے کی ملکیت تباہ و برباد کر دی گئی ۔ گجرات میں میں مودی ایکسپریس نے دنگوں کے پچھلے سبھی ریکارڈ توڑ دئیے اور پٹری چھوڑ کر پوری ریاست میں دندناتے پھرتی ا رہی ۔ فوج ابھی بھی ہائی الرٹ پر ہے اور عام ناگرک گیس پر ہے ۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے ۔ ۔ ۔
آدمی : اب ہر طرف شانتی ہے طوفان تھم گیا ہے ،لیکن ہمیں رات میں نیند نہیں آتی۔ ۔ ۔ کیا کریں جب تک جلتے ہوئے گھر کی آگ اور لپٹیں نہ دیکھیں نیند نہیں آتی ۔
نیوز ریڈر لڑکی:ملک بھر میں غنڈہ راج سے جنتا پریشان ہے۔ گینگ وار کا سلسلہ جاری ہے پولس مڈبھیڑ میں معصوم بے گناہ مارے جا رہے ہیں ۔ پردھان منتری کا کہنا ہے
آدمی : ہمیں ۔ ایٹمی جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے
نیوز ریڈر لڑکا:بابری مسجد اور رام مندر جھگڑے پر پردھان منتری نے کہا کہ ہم کورٹ کا فیصلہ مانیں گے لیکن اس سے پہلے ہندو اور مسلمانوں کے دلو ں کو جوڑنا ہے ۔ ۔ ۔
آدمی : اتنا فیوی کول کون سپلائی کرے گا ؟
نیوز ریڈر لڑکی:صرف گیارہ لاکھ روپئے ، ایک سونے کی چین اور بلو بوتل کے ذریعے تہلکہ ڈاٹ کام نے دیش بھکتوں کی دیش بھکتی پر سوالیہ نشان لگا دیا اور آدرش وادی مکھوٹے کے چیتھڑے اُڑا دئیے۔ پردھان منتری کا اس سلسلے میں کہنا ہے ۔ ۔ ۔
آدمی : (پردھان منتری کے انداز میں )در اصل بھارت میں پچھلے ۰۵ برسوں میں کیول ایک ہی چیز کا اوشکار ہوا ہے اور وہ ہے بھرشٹاچار ۔ ۔ ۔ اس دیش کی جنتا کو بھوک ، بھئے اور بھرشٹاچار سے نجات دلانا ہے چاہے اس کے لیے ہمیں کچھ بھی کرنا پڑے ۔ بھوک اور بھئے کو ختم کرنے کے لیے ہی بھرشٹاچار کرنا پڑتا ہے ، یہ مجبوری ہے۔ وِپکش کے پاس کیول آلوچنائیں ہیں ، انہیں کوئی اور کام نہیں ۔ ۔ ۔
نیوز ریڈر لڑکا :تہلکہ کے ذریعے Defence میں ہونے والے گھوٹالوں پر پردھان منتری کا کہنا ہے ۔ ۔ ۔
آدمی : یہ بھرشٹاچار نہیں ہے ، رشوت نہیں ہے ، بلکہ کالپنک سودے ہیں ، کالپنک سودے میں کالپنک رقم دی گئی ہے ۔ یہ سب کالپنک ہے ، اس کا سچائی سے دور کا بھی سمبندھ نہیں ۔ ۔ ۔ پھر بھی ۔ ۔ ۔ کس نے لیا ؟ کہاں لیا ؟ کب لیا ؟ دال میں کچھ تو کالا ہے ۔ ۔ ۔
(سماچار سنتے بیٹھا ایک شخص )پوری دال ہی کالی ہے صاحب! اسے پھینک دیجئے
آدمی : اور یہ کالک PMO تک پھیل گئی ہے ۔ اس لیے ہم اس کی جانچ اوشیہ کرائیں گے ، لیکن تب تک ہم ستّا میں بنے ا رہیں گے ۔ آپ سب بھول جائیے بس اتنا یاد رکھئے کہ ہمیں اکیسویں شتابدی میں دنیا کے ساتھ چلنا ہے یہاں سے وہاں سے اوپر سے نیچے سے کہیں سے بھی بس ہمیں اکیسویں شتابدی میں ضرور جانا ہے۔
نیوز ریڈر لڑکی:پردھان منتری کے گھٹنے میں درد ہے اور وہ کہیں بھی جانے کی حالت میں نہیں ہیں ۔
آدمی : گجرات میں بہت بڑا بھوکمپ آیا ہزاروں لوگ مرے، لیکن دیکھئے بھوکمپ تو آتے رہتے ہیں ۔ اصل بھوکمپ ہے ہمارا آرتھک بھوکمپ ،ساماجیک بھوکمپ ، بَھوتیک بھوکمپ اور نیتک بھوکمپ ، بھوکمپ پر میری کویتا کی چند پنکتیاں سن لیجئے
(اچانک زور زور سے ویسٹرن میوزک بجنے لگتا ہے اور اسٹیج کے ایک دوسرے حصے میں MTV اسٹائل کا انگریزی ڈانس تیز میوزک کے ساتھ ہو رہا ہے جہاں رنگ برنگے اور مختصر کپڑوں میں لڑکے لڑکیاں
جنونی انداز میں ناچ رہے ہیں )
آدمی نمبر ۱: ابے یہ کیا؟ یہ پردھان منتری کی کویتا ہے ؟
آدمی نمبر ۲: چینل بدل دیا یار!
آدمی نمبر ۱: لیکن یہ ہے کیا؟
آدمی نمبر ۲: (سنجیدگی سے )یہ سانسکریتک بھوکمپ ہے !
آدمی نمبر ۰۱:(ڈنڈا پٹک کر ) سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے
(کہتے ہوئے ایک ونگ سے نکل کر دوسری ونگ میں چلا جاتا ہے )
سوتر دھار : (طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے داخل ہوتا ہے ) ہنہ! زلزلے ، تہذیبی و ثقافتی زلزلے! زلزلہ صرف گجرات میں نہیں پورے ملک میں آیا ہے اور ان سیاسی ، معاشی ، اخلاقی و اصولی زلزلوں کو کس ریکٹر اسکیل پر ناپا جائے ؟ تاریخ کو سیاست کا ہتھیار بنانے والے یہ کیوں نہیں مانتے کہ تاریخ کی سچائیوں کو کارپیٹ کے نیچے دبا دینے سے وہ ختم نہیں ہو جاتی ۔
جی ہاں ! یہ اسی ملک میں ہوا کہ ایک ریاست میں بھوک سے تڑپ تڑپ کو لوگ ہلاک ہوتے رہے اور اسی ریاست کے ایک وزیر نے اپنی شان و شوکت کی نمائش کے لیے شادی کے جشن پر ۵۱ ہزار افراد کی شاندار دعوت کی۔
جی ہاں ! یہ اسی ملک میں ہو سکتا ہے کہ ایک خاتون وزیر اعلیٰ عوام کے سامنے محض دکھاوے کے لیے ایک روپیہ ماہانہ تنخواہ لیتی تھی لیکن اس کے گھر (معاف کیجئے بنگلے ) سے ۴۰ کلو سونا، ۵۰۰ کلو چاندی، گیارہ ہزار ساڑیاں ، چپلوں کی ۷۵۰ جوڑیاں اور بے شمار قیمتی چیزیں برآمد ہوئیں ۔ کس قدر غریب ہیں ہم ؟
یہ بھی اسی ملک کی تقدیر میں لکھا ہے کہ ایک ساتھ کئی بہنوں نے صرف اس لیے خودکشی کر لی کہ ان کا باپ اُن کی شادی کے لیے جہیز کا انتظام نہیں ککر سکا ۔
اس ملک کی ہر صبح کمسن نو عمر بچیوں کے بلاتکار اور جنسی درندگی کی خبروں سے ہوتی ہے ، بھارت کو اپنی ماتا بولنے والے ، دولت کے نشے میں چور نپونسک اپنی ہی ماں کی عصمت لوٹنے کی کوششوں میں لگے ہیں ۔ یہ دیکھئے ۔ ۔ ۔ اور شکر کیجئے کہ آپ کی بہن بیٹیوں کی عصمتیں محفوظ ہیں ۔ ۔ ۔
سین ۱۴
آدمی نمبر ا : (بہت بے تاب ہو کر)اے اے چلو ناری بلاتکار کریں گے ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۲: ہاں ۔ بہت دنوں سے نہیں کیے ۔ ۔ ۔ پریکٹس چھوٹ جائے گی یار!
(سب گاتے ہوئے ایک دیوار بناتے ہیں جس کے پیچھے لڑکی ہے )
سب : اپنے ارادوں کی منزل کو اپنانا ہے
کچھ پانا ہے ۔ کچھ کر دکھانا ہے
لڑکی : نہیں نہیں بھگوان کے لیے مجھے چھوڑ دو ۔ ۔ ۔ پلیز مجھے بچاؤ ۔ ۔ ۔ مجھے ان سے بچاؤ۔ ۔ ۔ میری عزت سے نہ کھیلو ۔ ۔ ۔ پلیز ۔ ۔ ۔ میں تمہارے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔ تمہارے پاؤں پڑتی ہوں ۔ ۔ ۔ بھگوان کے لیے ۔ ۔ ۔ مجھے چھوڑ دو ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ ں ۔ ۔ ۔ ں (ایک زور دار چیخ )
(سب دیوار بنے ہوئے مل کر ایک آواز میں گاتے ہیں
کم آن انڈیا ۔ ۔ ۔ کر لو دنیا مٹھی میں )
آدمی نمبر۲: (داخل ہو کر)اے اے مجھے بھی بتاؤ نارے کیا ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ ؟
سب : (ایک ساتھ) چل ہٹ ! (ڈھکیل دیتے ہیں )
آدمی نمبر ۲: بھائی صاحب ! کیا ہو رہا ہے وہاں ؟
آدمی نمبر ۳: کچھ نہیں یار ! Rape ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ بلاتکار ! فکر کی کوئی بات نہیں ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۲: (بے پرواہی سے ) اچھا اچھا بلاتکار ۔ ۔ ۔ میں سمجھا مداری کا کوئی کھیل چل رہا ہے ۔ ۔ ۔ ہونے دو ہونے دو Carry on۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۴: (لڑکی کے کپڑے ہاتھ میں لے کر سامنے پھینکتا ہے اور آدمی نمبر ۵ سے کہتا ہے) جا بھئی جا ۔ ۔ ۔ تو بھی گنگا میں ہاتھ دھو لے ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۵: چھوڑ یار ! میں تھک گیا سالا ۔ ۔ ۔
(چھوٹی بچی داخل ہوتی ہے اور لڑکی کے کپڑے اٹھا کر لے جانے لگتی ہے )
آدمی نمبر ۴: (ڈانٹ کر بچی سے) اے چھوکری ۔ یہ کپڑے تو کہاں لے جا رہی ہے ؟
بچی : وہ نا ہمارے گھر کے پاس بہت بڑا میوزیم ہے نیشنل میوزیم ! وہاں دینے۔ ۔ ۔
(دیوار بنے اداکاروں میں سے لڑکی جھانک کر ’’پروگرام کے اس بھاگ کے اسپانسر تھے ینگ انڈیا لمیٹیڈ، ڈانڈی نمک، بھارت سِلک مِل، نیشنل ڈیری مِلک‘‘)
آدمی نمبر ۰۱: (ڈنڈا پٹک کر ) سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے
(کہتے ہوئے ایک ونگ سے نکل کر دوسری ونگ میں چلا جاتا ہے )
سین ۱۵
(پولس اسٹیشن کا منظر کرسی پر انسپکٹر بیٹھا ہے ۔ باقی اداکار کسی دیوار کی طرح ایک قطار میں پیچھے کھڑے ہیں ۔ ۔ ۔ )
حوالدار : (باہر سے آتے ہوئے ) صاحب صاحب ! باہر ایک عورت آئی ہے ۔
سب : (ایک ساتھ حیرت سے ) عورت! (انسپکٹر سب کو گھور کر دیکھتا ہے )
انسپکٹر : عورت؟ بوڑھی ہے کہ جوان ؟
حولدار : صاحب ! جوان ہے !
انسپکٹر : (جلدی سے) کیا؟ جوان ہے؟ ابے گدھے جوان ہے تو لڑکی بولنے کا ۔ ۔ ۔ سمجھا۔ ۔ ۔ جا جلدی سے اس کو لے کر آ ۔ ۔ ۔ عزت سے !
حولدار : (خوشی سے) ابھی لایا صاحب ! اٹینشن ۔ ۔ ۔ لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ۔ ۔ ۔
(حولدار وِنگ سے لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر انسپکٹر کے سامنے لا کر پھینکتا ہے )
لڑکی : (روتے ہوئے ) صاحب ۔ ۔ ۔ صاحب میں لُٹ گئی ۔ ۔ ۔ برباد ہو گئی
انسپکٹر : (بیزاری سے ) فلمی ڈائلاگ مت بولو۔ ۔ ۔
لڑکی : میری عزت لوٹ لی گئی صاحب
(سب ایک کے بعد ایک میکینکل انداز میں پوچھتے ہیں )
آدمی نمبر ۱:عزت؟ ۔ ۔ ۔ آدمی نمبر ۲: عزت؟۔ ۔ ۔ آدمی نمبر ۳:عزت؟ ۔ ۔ ۔ آدمی نمبر ۴:عزت؟۔ ۔ ۔ آدمی نمبر۵:عزت؟۔ ۔ ۔ آدمی نمبر ۶: عزت؟۔ ۔ ۔ آدمی نمبر ۷:عزت؟۔ ۔ ۔ آدمی نمبر ۸:عزت؟
انسپکٹر : عزت؟ کیا تم جانتی ہو عزت کیا ہوتی ہے ؟( لڑکی کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے )
لڑکی : (خود کو چھڑا کر ) جی !
انسپکٹر : (ڈانٹ کر) اِدھر اِدھر کھڑا رہنے کا لڑکی ۔ ۔ ۔ سیدھا ۔ ۔ ۔ اور جو پوچھا جائے اس کا جواب دینے کا
سب : (ایک ساتھ) عزت سے !
لڑکی : (جلدی سے ) میری عزت تو ۔ ۔ ۔
انسپکٹر : لُوٹ لی گئی ہے نا؟ میرے کو معلوم ہے ۔ پر کیا تو جانتی ہے عزت کیا ہوتی ہے ؟
لڑکی : جی ہاں !
(باقی اداکار اُسی طرح میکینکی انداز میں پوچھتے ہیں )
آدمی نمبر ۲: کیا تم نے شور مچایا تھا ؟
آدمی نمبر ۳: کیا تمھاری چوڑیاں ٹوٹی تھیں ؟
آدمی نمبر ۴: کپڑے پھٹے تھے ؟ بال بکھرے تھے ؟
آدمی نمبر ۵: کیا تم روئی تھیں ؟ چلائی تھیں ؟؟
آدمی نمبر ۶: کیا تم جانتی تھیں کہ جو لوٹی جا رہی ہے وہ تمھاری عزت ہی ہے ؟
لڑکی : اس وقت مجھے پتہ نہ تھا ۔ ۔ ۔
انسپکٹر : پھر ۔ ۔ ۔ پھر تمہیں کب پتہ چلا ؟ بولو۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۲: جب تم نیند سے جاگیں ؟
آدمی نمبر ۳: یا جب تمہیں کسی نے دیکھ لیا؟
آدمی نمبر ۴: یا جب تم نے میڈیکل ٹیسٹ کرایا؟
آدمی نمبر ۵: یا جب تمہیں پیسے نہیں ملے ؟
لڑکی : (چلا کر) یہ کیا بکواس ہے ؟ کیا یہ پولس اسٹیشن ہے ؟
سب : (ایک ساتھ) ہاں ! یہ پولس اسٹیشن ہے ۔
انسپکٹر : لڑکی! اِدھر کھڑا رہنے کا سیدھا ۔ ۔ ۔ اور جو پوچھا جائے اس کا جواب دینے کا
سب : (ایک ساتھ ) عزت سے !
انسپکٹر : ہاں ! تمہارا نام ؟
لڑکی : لیکن نام کا بلاتکار سے کیا۔ ۔ ۔
انسپکٹر : تمہاری کاسٹ ؟
لڑکی : کاسٹ کا بلاتکار سے ۔ ۔ ۔
انسپکٹر : تم شادی شدہ ہو یا کنواری؟
لڑکی : (روتے ہوئے ) ہاں ! میں شادی شدہ ہوں اور ایک بچہ کی ماں بھی
انسپکٹر : (حقارت سے ) ہونہہ ! واویلا تو ایسے کرا رہی ہے جیسے غیر شادی شدہ ہے۔ ایک دم نیٹ کنواری!
سب : (ایک ساتھ میکانیکی انداز میں ہنستے ہیں ) ہا ہا ہا ہاہا ہا ۔ ۔ ۔
لڑکی : کیوں ؟ شادی شدہ کی کوئی عزت نہیں ہوتی ؟
انسپکٹر : ہوتی ہے نا ، عزت شادی شدہ کی بھی ہوتی ہے لیکن وہ تو ۔ ۔ ۔ (بے ڈھنگے پن سے ہنستا ہے)
لڑکی : (روتے ہوئے ) یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ میرے دامن پر لگا یہ داغ کیسے مٹے گا؟
سب : (ایک ساتھ) ایسے داغ ، ویسے داغ، کیسے بھی داغ ہوں ! سرف ایکسل ہے نا!
لڑکی : (حیرت سے) یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟
انسپکٹر : (ڈانٹ کر ) اِدھر ۔ ۔ ۔ اِدھر کھڑا رہنے کا لڑکی ۔ ۔ ۔ سیدھا ۔ ۔ ۔ اور جو پوچھا جائے اس کا جواب دینے کا ۔ ۔ ۔
سب : عزت سے ۔
انسپکٹر : کیا تمہیں پتہ ہے عزت ہوتی کیسی ہے ؟
آدمی نمبر ۲: لال ہری پیلی ، بھگوا یا سفید؟
آدمی نمبر۳: عزت لوٹنے والوں میں سے کیا تم کسی کو پہچانتی ہو؟
آدمی نمبر ۴: وہ لوگ پروفیشنل تھے یا نو سکھئے؟
آدمی نمبر۵: کیا تمہیں پتہ تھا کہ جو لوگ تمھارے پاس آئے ہیں وہ تمھاری عزت ہی لوٹنے آئے ہیں؟
آدمی نمبر ۶: کیسے لگتے تھے وہ ؟
آدمی نمبر ۷: گھوڑے ، گدھے ، گدھ یا بھیڑئیے؟
آدمی نمبر۸: انہوں نے اور کچھ کیوں نہیں لوٹا ؟ صرف عزت کیوں لوٹی؟
آدمی نمبر ۲ : اُن میں سے کسی سے تمہارے پرانے سمبندھ تو نہیں تھے ؟
آدمی نمبر ۳: پرانی یاری؟
آدمی نمبر ۴: آنکھ مٹّکا؟
لڑکی : (روتے ہوئے)چپ رہو ؟ کیا یہ پولس اسٹیشن ہے ؟
سب : (ایک ساتھ ) ہاں ! یہ پولس اسٹیشن ہے ۔
لڑکی : (روتے ہوئے ) میں اپنے ساتھ کیے گئے بلاتکار کی رپورٹ لکھانے آئی تھی۔
انسپکٹر : ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ یہ عزت کہاں لوٹی گئی ؟
آدمی نمبر۲: پارلیمنٹ اسٹریٹ پر ؟
آدمی نمبر ۳: شیئر بازار میں ؟
آدمی نمبر ۴: اسمبلی ہال کے سامنے ؟
آدمی نمبر ۵: گاندھی جی کے پتلے کے پیچھے ؟
آدمی نمبر ۶: لال قلعہ میں ؟
آدمی نمبر ۷: یا قطب مینار پر؟
لڑکی : نہیں میں اِن جگہوں کو نہیں جانتی ۔ ۔ ۔ میری عزت تو یہیں ۔ ۔ ۔ آپ کے پولس اسٹیشن کے پیچھے لوٹی گئی۔ ۔ ۔
سب : (اک ساتھ حیرت سے ) کیا ؟
آدمی نمبر۲: (قطار سے نکل کر انسپکٹر سے) صاحب! آپ تو صبح سے یہیں ہیں نا؟
(سب Freeze ہو جاتے ہیں )
آدمی نمبر ۰۱: (ڈنڈا پٹک کر ) سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے
(کہتے ہوئے ایک ونگ سے نکل کر دوسری ونگ میں چلا جاتا ہے )
سوتر دھار : دیکھا آپ نے آج کے جنرل ڈائروں کی بدلتی شکلوں کو ؟ زیادہ ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ۔ ۔ ۔ ڈائرانہ فطرت اور تیور آپ کو اپنے دیش کے ہر شہر کے کوچے کوچے میں ملیں گے۔ اخلاقی زوال کا نہ ختم ہونے والا دور شروع ہو چکا ہے۔ پورا دیش جیسے جینے مرنے کی ایک عجیب کشمکش اور بے یقینی کے ماحول میں سانس لے رہا ہے ۔ ہمارا پورا جمہوری اور سیاسی ڈھانچہ ڈگمگا گیا ہے ۔ دنگے فساد، گھوٹالے ، بھرشٹاچار ، فرقہ پرستی ، خون ، غنڈہ گردی، آتنک واد، بلاتکار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کتنے جلیان والہ باغ بنائے گا ہمارا یہ ملک ؟ اور کیا کیا دکھاؤں میں آپ کو؟
کیا ہم اتنے بے حس اور بے تعلق ہو گئے ہیں ؟ یا محض خاموش تماشائی؟ ہم جاگتے ہوئے بھی اونگھ رہے ہیں ۔ آخر ہمیں اس چنگاری کی حرارت کب محسوس ہو گی؟ جو اس سڑے گلے سسٹم کے پورے ڈھانچے کو جلا کر راکھ کر دے؟ ہم کب تک اس استحصال کو اپنا نصیب مان کر سب کچھ سہتے ا رہیں گے ۔ ۔ ۔ کب تک ؟
سین ۱۶
(ایک درد بھرا الاپ گاتے ہوئے ۔ آنکھوں پر کولہو کے بیل کا بڑا چشمہ لگائے ہوئے سبھی اداکار دھیر ے دھیرے جھک کر چلتے ہوئے داخل ہوتے ہیں )
آدمی نمبر ۲: ہم کب تک بم دھماکوں ، دہشت گردانہ حملوں ، دنگے فسادوں کا زہر پیتے ا رہیں گے؟
(درد بھرا الاپ)
آدمی نمبر۳: دیش کا ہر شہر جلیانوالہ باغ بنا ہوا ہے ، کشمیر، گجرات ،ایودھیا، آسام ،پنجاب، یوپی جلتے رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ دنگوں میں جلے ان شہروں کی راکھ اتہاس کی کس گنگا میں بہائیں گے ہم ؟
(الاپ اُبھرتا ہے )
آدمی نمبر ۴: آخر کب تک ہم فرقہ پرستوں اور شرپسندوں کے ہاتھوں کھلونا بنتے ا رہیں گے ؟ کب تک ہمارے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہے گا۔ ۔ ۔ ؟؟
(الاپ اُبھرتا ہے)
آدمی نمبر۵: جنرل ڈائر کب تک بھیس بدل بدل کر ہم پر گولیاں چلاتا رہے گا ۔ کب تک؟
(الاپ اُبھرتا ہے)
آدمی نمبر۶: ہمارے دیش کی صبح بلاتکار اور زِنا کی خبروں سے ہوتی ہے ، لٹتی ہوئی معصوم ابلاؤں کی عزت آخر اتہاس کے کس پنّے سے اپنا ننگا بدن چھپائے گی؟
(الاپ اُبھرتا ہے)
سب : (ایک ساتھ) کون دے گا اس کا جواب ؟ کون دے گا ۔ ۔ ۔
(سبھی اداکار ایک بار پھر گول دائرے کی شکل میں جمع ہوتے ہیں ، سینٹر اسٹیج میں کھڑا اداکار نمبر ۱ کہتا ہے ’’میں نہیں دے سکتا جواب ۔ ۔ ۔ میں نہیں دے سکتا ‘‘ اور ایک بار پھر وہی بچوں کا کھیل شروع ہوتا ہے لیکن اس بار غصیلے انداز میں )
آدمی نمبر ۱: یہاں سے تلوار ماروں گا
سب : نہیں جانے دیں گے
آدمی نمبر ۱: یہاں سے چاپڑ چلاؤں گا ۔ ۔ ۔
سب : نہیں جانے دیں گے
آدمی نمبر ۱: یہاں سے بم ماروں گا ۔ ۔ ۔
سب : نہیں جانے دیں گے
آدمی نمبر ۱: یہاں سے رائفل چلاؤں گا ۔ ۔ ۔
سب : نہیں جانے دیں گے
آدمی نمبر ۱: یہاں سے چاقو چلاؤں گا
سب : نہیں جانے دیں گے
آدمی نمبر ۱: (روتے ہوئے ) نہیں ۔ ۔ ۔ ں ۔ ۔ ۔ ں ۔ ۔ ۔ مجھے اس جلیانوالہ باغ سے نکل جانے دو۔ ۔ ۔ بھگوان کے لیے ۔ ۔ ۔ خدا کے لیے مجھے یہاں سے نکالو ۔ ۔ ۔ کوئی تو نکالو۔ ۔ ۔ میں باہر نکلنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ مجھے جانے دو۔ ۔ ۔ مجھے اس جلیانوالہ باغ سے جانے دو ۔ ۔ ۔ میرا دم گھٹ رہا ہے ۔ ۔ ۔ پلیز مجھے نکالو۔ ۔ ۔
(زور سے چیختا ہے اور روتے ہوئے دائرہ توڑ کر گر جاتا ہے ۔ درد بھرا الاپ اُبھرتا ہے ۔روشنی مدھم ہوتی ہے۔ سب اندھیرے میں راستہ تلاش کر رہے ہیں )
آدمی نمبر ۲: (روتے ہوئے ) ہمیں یہاں سے نکالو ۔ ۔ ۔ بھگوان کے لیے اس جلیانوالہ باغ سے نکالو ۔
آدمی نمبر ۳: یہاں بہت اندھیرا ہے ۔ ۔ ۔ اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ کوئی تو روشنی لاؤ ۔ ہمیں یہاں سے نکالو ۔ ۔ ۔
آدمی نمبر ۴: ہمارے ہاتھ شل ہو گئے ہیں ، پیر چُور چُور ہو گئے ہیں ۔ ۔ ۔ ہم یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ اس جلیانوالہ باغ سے باہر نکلنا چاہتے ہیں (نیچے گر جاتا ہے)
آدمی نمبر ۵: ہم لنگڑے ہو رہے ہیں ، لُولے ہو رہے ہیں ، اپاہج ہو رہے ہیں ۔ ہمیں کچھ نظر نہیں آ رہا ہے ۔ ۔ ۔ پلیز ہمیں یہاں سے نکالو ۔ ۔ ۔ نکالو۔ ۔ ۔
(سب زور زور سے چلانے لگتے ہیں ۔ گرتے ہیں ۔ پھر اُٹھتے ہیں ۔
دھواں ہوتا ہے درد بھرا الاپ تیزی سے اُبھرتا ہے اور overlap ہوتی ہے۔ سرکاری ہرکارہ کی آواز )
آدمی نمبر ۰۱:(ڈنڈا پٹک کر ) سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے
(کہتے ہوئے اسٹیج کے اَپ سینٹر میں آتا ہے اس کے ہاتھو ں میں اب لال دستانے ہیں اور لالٹین بجھی ہوئی ہے ۔ وہ درمیان میں کھڑے رہ کر مسلسل ’’سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ‘‘ بولے جا رہا ہے ۔ پردہ بند ہونا شروع ہوتا ہے تبھی ایک بلند آواز آڈیٹوریم میں سے آتی ہے ۔)
اجنبی : رُک جاؤ ۔ ۔ ۔ ٹھہر جاؤ ۔ ۔ ۔ رُکو ابھی پردہ بند مت کرو۔ ۔ ۔ رُک جاؤ میں آ رہا ہوں
(اسٹیج پر پہنچ کر آدمی نمبر ۰۱ سے )
کیا ہے یہ ؟ کیا تماشہ چل رہا ہے یہ ؟ میں جب سے یہاں بیٹھ کر دیکھ رہا ہوں تم ہر بار کہتے ہو ’سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ‘ ارے کہاں سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ بولو ؟ ۔ ۔ ۔ سارا دیش جل رہا ہے ، گھوٹالوں اور گھپلوں کی آگ میں ، دنگے فساد کی آگ میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کی آگ میں اور یہ لوگ کب سے اس میں قید ہیں ۔ کون نکالے گا انہیں ۔ ۔ ۔ بولو۔ ۔ ۔ (خاموشی) میں یہاں ناٹک دیکھنے نہیں آیا ہوں ۔ ۔ ۔ میں نکالوں گا انہیں اس جلیانوالہ باغ سے ۔ ۔ ۔ سُنا تم نے ؟ میں نکالوں گا ۔ ۔ ۔
(آدمی نمبر ۰۱ کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ ہے وہ بجھی لالٹین نیچے رکھتا ہے ۔ ۔ ۔ تالی بجاتا ہے ۔ اسٹیج کے دو کونے سے دو نقاب پوش آتے ہیں ۔ اجنبی شخص کے ہونٹوں پر کالا کپڑا باندھ دیتے ہیں ہاتھ پیچھے کی طرف باندھتے ہیں ۔ اجنبی احتجاج کرتا ہے لیکن اسے اندر جلیانوالہ باغ میں ڈھکیل کر دونوں نقاب پوش فوجی انداز میں ونگ میں غائب ہو جاتے ہیں ۔
آدمی نمبر ۰۱ کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اور گہری ہو جاتی ہے ۔
اور وہ پردہ بند ہونے تک کہتا رہتا ہے ۔ ۔ ۔ )
’’سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہے ‘‘
اقبال نیازی