اردو غزلیاتشعر و شاعریمیر تقی میر

اس موج خیز دہر میں تو ہے حباب سا

میر تقی میر کی ایک غزل

اس موج خیز دہر میں تو ہے حباب سا
آنکھیں کھلیں تری تو یہ عالم ہے خواب سا

برقع اٹھاکے دیکھے ہے منھ سے کبھو ادھر
بارے ہوا ہے ان دنوں رفع حجاب سا

وہ دل کہ تیرے ہوتے رہے تھا بھرا بھرا
اب اس کو دیکھیے تو ہے اک گھر خراب سا

دس روز آگے دیکھا تھا جیسا سو اب نہیں
دل رہ گیا ہے سینے میں جل کر کباب سا

اس عمر میں یہ ہوش کہ کہنے کو نرم گرم
بگڑا رہے ہے ساختہ مست شراب سا

ہے یہ فریب شوق کہ جاتے ہیں خط چلے
واں سے وگرنہ کب کا ہوا ہے جواب سا

کیا سطر موج اشک روانی کے ساتھ ہے
مشتاق گریہ ابر ہے چشم پر آب سا

دوزخ ہوا ہے ہجر میں اس کے جہاں ہمیں
سوز دروں سے جان پہ ہے اک عذاب سا

مدت ہوئی کہ دل سے قرار و سکوں گئے
رہتا ہے اب تو آٹھ پہر اضطراب سا

مواج آب سا ہے ولیکن اڑے ہے خاک
ہے میر بحربے تہ ہستی سراب سا

میر تقی میر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button