جوان رات کی مستی میں ناچنے والا
تمام عمر اندھیرے اجالنے والا
ہمارے جسم صلیبوں کی کاٹھیاں تو نہ تھیں
کبھی نہ بھولے سے آیا اتارنے والا
ردائے خواب و لباسِ خیال تھے بے رنگ
پھر ایک رنگ ملا سوت کاتنے والا
یہ شاخِ عمر تو اک روز یوں بھی ٹوٹے گی
ہے جس کے کام کی لے آئے کاٹنے والا
کیوں میں سانجھ کے چکر میں چال بھی بدلوں
سو میں کسی سے نہیں بوجھ بانٹنے والا
کلیم باسط