صبح دم سارے پرندے یار کیوں خاموش ہیں
شور کیوں کمروں میں ہے گلزار کیوں خاموش ہیں
سانحہ ایسا تھا جس پر چیخنا بنتا تو ہے
میں اگر مصروف تھا، اخبار کیوں خاموش ہیں
اک دیے کی کپکپی سے رات کا پردہ گرا
لَو بتائے گی در و دیوار کیوں خاموش ہیں
مجھ پہ دنیا کھل رہی ہے اس لیے خاموش ہوں
میں چلو بے چین ہوں فنکار کیوں خاموش ہیں
اب تو گھوڑوں کے سموں تک کی صدا آتی نہیں
پھر سمجھ آتا نہیں بازار کیوں خاموش ہیں
نرم ہاتھوں کی تپش محسوس کرکے آئے تھے
اب مدینے والے سب انصار کیوں خاموش ہیں
سبزگی نے ٹہنیوں کو ڈھانپ رکھا ہے عقیل
جب خزاں آئی نہیں اشجار کیوں خاموش ہیں